قدیم دکنی زبان کا علاقہ

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
محمد بن تغلق ( B:1290,D:1351) نے اپنے عرصہ ٔ اقتدار ( 1325-1351) میں دکن میں زیادہ قیام کیا ۔ اس نے دولت آباد( دیواگری ) کو دکن کا دار الحکومت بنایا۔حاکمِ وقت کے اِس فیصلے کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر انتقالِ آبادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے زمانے میں صوفیا اور مذہبی دانش وروں کی بڑی تعداد شاہی دربار سے وابستہ تھی ۔ قصر ِ شاہی سے بھی ان مصلحین کی سر پرستی کی جاتی تھی ۔ اُس زمانے میں جنوبی ہندکے جن علاقوں میں لسانیات اور تہذیب و ثقافت کے شعبوں میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوا اُن میں چنائے ، گول کنڈہ ،حیدرآباد ،گلبرگہ ،اورنگ آباد ،بیجا پور ا،مہاراشٹرا ،کر ناٹکا، تلنگانہ ،تامل ناڈو ،کیرالااور میسور کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب اس وسیع علاقے کے باشندوں نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کیا۔ لسانیات میں گہری دلچسپی رکھنے والے ادب کے طالب علموں کی رائے میں دکنی زبان کے سوتے ان ہی علاقوں سے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں جو یہاں کے باشندوں کی مخلوط زبانوں کے مرکز تھے ۔ صوفیا اور مذہبی دانش وروں نے اپنے تبلیغی اوراصلاحی مقاصد کی خاطر دکنی زبان کو عوام کی زبان سمجھتے ہوئے اپنا لیا۔ ہوا کا رُخ بدل رہا تھااس لیے جنوبی ہندکے تخلیق کاروں نے بھی پرورش ِلوح و قلم کے لیے دکنی زبان ہی کو پیشِ نظر رکھا۔ دکنی زبان کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنے کے سلسلے میں جن صوفیانے گراں قدر خدمات انجا م اُن میں حضرت خواجہ بندہ نوازگیسو دراز( 1321-1422) کانام بہت اہمیت رکھتاہے ۔ حضرت خواجہ بندہ نوازگیسو دراز نے فیروزشاہ بہمنی کے عہد حکوت میں سال 1398ء میں گلبرگہ میں قیام کیا۔انھوں نے پہلی مرتبہ اس خطے میں دکنی زبان میں تصوف کے موضوع پر تصنیف و تالیف و تراجم پر بھر پور توجہ دی اور اس زبان کی ثروت میں اضافہ کیا ۔ ان کی تصنیف ’’ معراج العاشقین ‘‘ کو عوام کی طرف سے بہت پزیرائی ملی ۔اُن کی تقلید میں اس خطے کے متعدد صوفیا نے دکنی زبان کو اپنایا۔دکنی زبان کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنانے کے سلسلے میں شاہ میراں جی شمس العشاق کا نام قابل ذکر ہے ۔ فخر الدین نظامی کی مثنوی ’’ کدم راؤ پدم راؤ‘‘جس کی تخلیق میں دس برس (1420-1430) کا عرصہ لگا دکنی ادب کابلند معیار پیش کرتی ہے ۔دکن کے طول و عرض میں پانچ سو سال تک(1350-1857) روشنی کا سفر جاری رہا اور وہ وقت آ گیاجب دکنی اردو جنوبی ہند کی اہم اور مقبول زبان کی حیثیت سے سامنے آئی ۔دکنی زبان کو نر بدا یا جنوبی سر حد تک محدود کرنا درست نہیں۔نر بدا بھوپال سے کچھ نیچے ہو شنگ آباد کے نزدیک سے جو سر حد گزرتی ہے اس کے جنوب میں مدھیہ پردیش کا وسیع علاقہ ہے وہاں موجود اصطلاح کے لحاظ سے ہندی زبان مستعمل ہے ۔ (1) دکنی زبان کو پورے دکن میں جن بادشاہوں نے پروان چڑھایا اس کی تفصیل درج ذیل ہے :

نمبر شمار
باد شاہت
از
تا
1
بہمنی سلطنت
1350ء
1490ء
2
عادل شاہی سلطنت
1490ء
1508ء
3
قطب شاہی سلطنت
1508ء
1686 ء
4
!آصف جاہی سلطنت
1686ء
1708ء
5
+نواب والا جاہی سلطنت
1708ء
1857ء

‘ سیلِ زماں کے تھپیڑ ے صولت ِ بہمنی اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو بہالے گئے اور یہ سلطنت کئی ریاستوں میں بٹ گئی ۔بہمنی ریاست کی ٹُوٹ پُھوٹ کے نتیجے میں درج ذیل چار ریاستیں وجود میں آئیں :
احمد نگر( 1460-1633)، بیجاپور ( 1460-1686)،بیدر( 1487-1619)،گول کنڈہ ( 1512-1687)
ان چاروں ریاستوں میں دکنی زبان کو سازگار ماحول میسر آیا اور یہاں اس نے اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے پیہم ارتقائی مدارج طے کیے ۔یہاں تک کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے ان چاروں ریاستوں کی خود مختاری کا خاتمہ کر دیا۔ان حقائق سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں شمالی ہند کے وسیع علاقے میں دکنی زبان بولی اور بولی جاتی تھی ۔ مطلق العنان مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں جب مغل سپاہ نے جنوبی ہند کے بیش تر علاقے مسخر کر لیے تو لسانی تغیر و تبدل کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دکنی زبان میں فارسی،اردو،کاندا،مراٹھی اور تلگو زبان کے کئی الفا ظ شامل ہو گئے ۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں مغل افواج نے جب جنوبی ہند کے بیش تر علاقوں کو فتح کر لیا تودکنی زبان کی سر پرستی کم ہو گئی ۔ دکن کی تسخیر کے بعد مغلوں نے فارسی اور اُردو پر زیادہ توجہ دی ۔شمالی ہند میں دکنی زبان کے بہت سے محاورات کا استعمال عام تھا جیسے دِل باندھنا ،زندگی بھاری لگنا ،جی جلانا ،جی قربان کرنا ،جی ہارنا اورجی نکلنا وغیرہ۔دکنی زبان کو دکن کے عوام میں مقبول بنانے کے سلسلے میں دکنی زبان کے جن ادیبوں نے سخت محنت کو شعار بنایااُن میں ملاغواصیؔ ، طبعی ،ابن نشاطی ،نصرتیؔ اور عاجز ؔ جیسے شعرا کے نام شامل ہیں۔دکنی زبان کے شعرا کے کلام میں پائی جانے والی اثر آفرینی قاری کی روح اور قلب کو مسخر کر لتی ہے ۔
گریباں عاشق از غم پھاڑتا ہے
خمار ِ عشق میں دِل ہارتا ہے
ایسی نگاہ کی کہ میرا جی نکل گیا
قضیہ مِٹا عذاب سے چُھوٹے خلل گیا

مغل بادشاہ اورنگ زیب کے بعد ان ریاستوں میں متعین مغل منصب د ارآصف جاہ نے مغل شہنا ہوں کے فرامین کو سال 1724 ء میں پرکاہِ کے مانند اُڑا دیا اور خود مختاری کا اعلان کر دیا۔آصف جاہ نے حیدر آباد کودار الحکومت بنایا ،اس کی سلطنت میں مہاراشٹرا،کر نا ٹکا او ر تلنگانہ شامل تھے ۔ آصف جاہی دور ان علاقوں میں دکنی زبان کو پھلنے پھولنے کے کم مواقع میسر آئے ۔ شاہی سر پرستی نہ ہونے کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں منتخب ِ روزگار ادیبوں نے مستقل قیام کر لیا اور ان علاقوں کو دکنی زبان و ادب کے اہم مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ دکنی اور اردو زبان کے ارتقا پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فائزؔ،فغاں ؔ ،اورحاتم ؔ جسے ممتاز شعرا نے دہلی میں رہتے ہوئے دکن کے شعرا ولیؔ ،غواصی ؔ اورسراجؔ کی زمینوں میں غزل گوئی کو شعار بنا کر دکنی اسلوب کی دل کشی کو تسلیم کیا۔سراج الدین علی خان آرزو ؔ (1687-1756)کا شماردہلی کے ممتاز اور مقبول شعرا میں ہوتا تھا۔ شاہ مبارک ،مضمون ،یک رنگ ،آنند رام ،مخلص اورٹیک چند بہار جیسے شاعراپنے عہد کے پُرگو شاعر سراج الدین علی خان آرزوؔ کے شاگرد تھے ۔آرزو ؔکی شاعری میں دکنی کے متعدد الفاظ کے استعمال اورسراپا نگاری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس تخلیق کار نے بھی دکنی سے اکتساب فیض کیا ۔ولی ؔ دکنی کے زمانے میں محبوب کو ’’پی ‘‘ ، ’’پیا ‘‘ ،’’صنم ‘‘ ، ’’ یارِ بے پروا‘‘ ’’پیتم ‘‘ ،’’ سریجن ‘‘ ،’’موہن‘‘ ،’ ’من ہرن ‘‘ یا ’’ سجن ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا جب کہ بعد میں اس کے بجائے معشوق ،محبوب یا پیارا کو ترجیح دی گئی۔ ولیؔکے معاصرین اور سراج الدین علی خان آرزوؔکی شاعری میں بھی محبوب کے لیے اسی قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں :
ولی ؔ مجھ دِل میں یوں آتی ہے یادِ یارِ بے پرواہ
کہ جوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آ ہستہ
(ولیؔ دکنی)
برنگِ قطرۂ سیماب میرے دِل کی جنبش سوں
ہوا ہے دِل صنم کا بے قرار آہستہ آ ہستہ
(ولیؔ دکنی)
جس وقت اے سریجن تُو بے حجاب ہو گا
ہر ذرہ تجھ جھلک سوں جوں آفتاب ہو گا
(ولی ؔ دکنی)

ہر گز نظر نہ آیا ہم کو سجن ہمارا
گویا کہ تھا چھلا وہ وہ مَن ہرن ہمارا
(آرزوؔ)
تیرے دہن کے آگے دم مارنا غلط ہے
غنچے نے گانٹھ باندھا آخر سجن ہمار
(آرزوؔ)
زندگی دردِ سر ہوئی حاتم ؔ
کب مِلے گا مجھے پِیامیرا
(حاتمؔ )
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیاجائے نا
(قلی قطب شاہ )

دہلی میں مطلق العنان بادشاہوں اورسلاطین کے دور ( 1211 -1526) میں اس خطے میں جس زبان کو فروغ ملا اسے کھڑی بولی اور دہلوی کا نام دیا گیا ۔ مسلمان فاتحین ،ان کے ساتھ آنے والے فوجی دستے مقامی آبادی ،ادب اورفنون لطیفہ سے وابستہ لوگ ،صوفی شعرا اور مبلغین سب نے با لعموم کھڑی بولی کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب و ثقافت اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ کھڑی بولی جو پنجابی سے قریب تھی سال 1327میں جنوبی ہند میں نمو پانے لگی۔محمد تغلق کے عہد میں جب دہلی سے اورنگ آباد اور دکن کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تولسانی تغیر و تبدل بھی شروع ہو گیا۔پندرہویں صدی عیسوی میں دکنی زبان نے اس خطے میں کوب رنگ جمایااور اسی میں ادب کی تخلیق پر توجہ دی گئی۔گو لکنڈہ اور بیجا پورکی دکنی ریاستوں میں دکنی ہی کو اردو کی قدیم صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ممتاز جرمن ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر ہیلمٹ ارنسٹ رابرٹ نسپیٹل ( Prof.Dr.Helmet Ernst Robert Nespital)نے زندگی بھر ہندوستانی لسانیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ ماہر لسانیات رابرٹ نسپیٹل(1936-2001)نے ہندوستان میں اردو زبان کے لسانی ارتقا کو مندرجہ ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ریختہ اور تصوف کی شاعری کا دور (1648-170)
۲۔اورنگ آباد سے ولی دکنی کی دہلی آمد کے بعد کا عرصہ (1700-1720)
۳۔اردو گرامر پرتوجہ (1720-1740)
۴۔عہد زریں میرتقی میرؔ ، مرزا محمدرفیع سودا ؔ اور خواجہ میردرد ؔ کادور (1740-1780)
۵۔زبان کو معیار کی رفعت عطا کرنے کا تکمیلی مرحلہ (1780-1810) (2)

لسانیات اور ادب کی تاریخ ماضی کے واقعات پر پڑنے والی ابلقِ ایام کے سموں کی گردکو صاف کرتی ہے۔اس طرح جب طاقِ نسیاں کی زینت بن جانے والے حقائق منکشف ہوتے ہیں تو اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام ہوتا ہے ۔اسی معجز نما کیفیت کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔مطالعۂ ادب کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی شعور کے ثمر بار ہونے سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے ،اخوت و محبت کی فراوانی اور خلوص و دردمندی کے جذبات کو مہمیز کیا جا سکتا ہے ۔اسی کے وسیلے سے ہر قسم کی منافرت ،عصبیت ،تنگ نظری ،جہالت اور انصاف کُشی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کی مساعی رنگ لاتی ہیں۔اُرد واور دکنی زبان کی تاریخ کے دامن میں ماضی کے واقعات اور سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کے مظہر متعدد حقائق موجود ہیں۔ان کامطالعہ جہانِ تازہ کے متلاشی فکر و خیال کی دنیا کے رہ نوردوں کو جہان ِ تازہ کی نوید سناتا ہے اور افکارِ تازہ کی ایسی مشعل فروزاں ہوتی ہے جو سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے دلوں کو ایک ولوۂ تازہ عطا کرتاہے ۔فکر وخیال کی یہ ضیا پاشیاں اقوام اور تہذیبوں کے ارتقا سے وابستہ اقدار و روایات اور ان سے منسلک رازوں کی گرہ کشائی کو یقینی بناتی ہیں۔ دکن کے وسیع علاقوں بالخصوص گولکنڈہ اور بیجا پور کی دکنی ریاستوں میں بولی جانے والی زبان ’’دکنی ‘‘کے بارے میں یہی تاثر پایا جاتاہے کہ یہ اردو کی قدیم صورت ہے۔ دکنی کے اردو کے ساتھ گہرے میلانات اور مشابہتیں اس کا بنیادی سبب ہیں۔ اردو زبان کا قدیم دکنی زبان سے ایک الگ مزاج ہے مگر اسے دکنی کی ایک ایسی منفرد صورت سمجھا جاتا ہے جس میں دونوں زبانوں کے کئی مشترک رنگ جلوہ گر ہیں۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ جہاں تک علم الاصوات اورگرامر کے قواعدکا تعلق ہے قدیم زمانے میں دکنی اور اردو میں گہری قرابت اور مشا بہت پائی جاتی تھی مگر جدید دور میں یہ عنقا ہے۔ ان زبانوں میں پائے جانے والے اختلافات کا تعلق قواعدی صوتیات ،شکل و صورت ،صرف و نحو اور لغت سے ہے ۔معاصر لسانی تصورات کی روشنی میں دیکھاجائے تو دکنی زبان کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اُردو کی ایک ایسی الگ صورت سمجھا جاتا ہے جوجدید دور میں تخلیق ادب کے لیے کم کم استعمال ہوتی ہے ۔ زمانہ قدیم کے تخلیق کار لسانیات کے بارے میں یقیناً اس قدر باشعور اور سنجیدہ تھے کہ انھوں نے سیلِ زماں کے تھپیڑوں پر کڑی نظر رکھی اور زندگی کی برق رفتاریوں کو محسوس کرتے ہوئے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھا ۔اپنے جذبات واحساسات کی لفظی مرقع نگاری اور پیکر تراشی کرتے وقت اصلاح زبان پرتوجہ مرکوز رکھنا بِلا شبہ ایک کٹھن مر حلہ تھا مگر قدیم تخلیق کاروں نے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کو ثابت کر دیا ۔ دکنی کے کئی الفاظ جو قدیم اردو میں مستعمل رہے اب وہ متروک ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب چکے ہیں۔ذیل میں قدیم دکنی کے چند الفاظ درج کیے جاتے ہیں جن کا موجودہ زمانے میں استعمال تحریر کو پشتارۂ اغلاط بنانے کاسبب بن سکتا ہے ۔ زبانیں جب نئے علاقوں میں پہنچتی ہیں تو مقامی زبانوں کا ان سے متاثر ہونا نا گزیر ہے ۔اس طرح لسانی سطح پر تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے لسانی ارتقا پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ دکنی زبان سے اس خطے کی ارضی و ثقافتی اقدار و روایات کی جو مہک آتی ہے اس سے قارئیں ادب کا قریہ ٔ جاں معطر ہو جاتا ہے ۔دکن کے تخلیق کاروں نے بر صغیر کے طول و عرض میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے خوشہ چینی کرتے ہوئے الفاظ کے گل ہائے رنگ رنگ سے جو جو حسین و عنبر فشاں گل دستہ مرتب کیا ہے اس کی رنگینی و رعنائی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔خاص طور پر تلگو اورپنجابی الفاظ کا اپنا منفرد رنگ اورآ ہنگ ہے ۔ دکنی شعرا کے کلام میں بھی اس قسم کے نا مانوس الفاظ موجود ہیں جو مقامی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں ۔ذوق سلیم سے متمتع قارئینِ ادب لسانیات کی اس قوسِ قزح کے حسین رنگ دیکھ کرمسحور ہو جاتے ہیں ۔ سال 1327 میں محمد بن تغلق کی مہم جوئی کے نتیجے میں اس خطے میں جس لسانی عمل کا آغاز ہوا اوردکنی زبان کی جو خشتِ اول رکھی گئی اسی کی اساس پر دکنی زبان و ادب کا قصر ِ عالی شان تعمیر ہوا ۔ خواجہ بندہ نواز (1321-1422)کی معراج العاشقین جو اس خطے میں تصوف کی اولین تخلیق ہے اورفخرالدین نظامی کی تخلیق ’کدم راؤ پدم راؤ( عرصہ تخلیق : 1420-1430)سے روشنی کے جس سفر کا آغاز ہوا وہ اب بھی جاری ہے ۔دکن میں تلنگانہ اورآندھرا کے علاقوں میں تلگو کے اثرات نمایاں رہے ہیں جب کہ بہمنی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعداحمد نگر ( 1460-1633)، بیجاپور ( 1460-1686) ،بیدار(1487-1619) اور گول کنڈہ (1512-1687)کے علاقوں میں پنجابی الفاط کا استعمال زیادہ ہے۔

لفظ ’ نسنا ‘ پنجابی زبان میں بھاگنے کے معنی دیتا ہے ۔یہ لفظ دکنی شعرا کے کلام میں منفرد انداز میں موجود ہے :
جو لیدان آئے فقیراں وراس
چلی سب فقیری جگت چھوڑ نھاس
( احمد دکنی )
بُلا کر لائے چاکر شاہ کے پاس
کہا مایا چُرا کر جاتے ہیں ناس
(محمد امین دکنی )
دونوں ہاتاں آپس کے کھو گیااو
نسنگ نھاس لگا ہے سگ بچہ او
(ولیؔ دکنی )
قدیم دکنی میں دو طرفہ کے لیے ’ دولاں ‘ کالفظ استعمال کیا جاتا تھا جو پنجابی لفظ ’ ول ‘ سے لیاگیا ہے ۔
دِسے فانوس کے درمیانے تھوں یوں جوت دیوے کا
سو تیوں دِستا دولاں میں تھے ہیویاں کا برن سارا
(محمدقلی قطب شاہ)
نمک کی کان تو مشہور ہے مگر پنجابی میں لفظ ’ کان ‘ کا مطلب ’ واسطے ‘ یا ’لیے ‘ہے ۔ دکنی شعرا نے اس لفظ کو اپنے کلام میں اس خوش اسلوبی سے برتا ہے کہ کلام کی تاثیر کو چا ر چاند لگ ہیں ۔
سو کچھ مان مانس کوکیتا عطا
جوسب کو اِسی کان پیدا کیتا
(احمددکنی )
جب میں سدا برہ کا دکھ دکھوں
میرے کان جھکڑاروا کیوں رکھوں
(احمددکنی )
کچی مٹی کے پتلے گارے اورکیچڑ کو پنجابی میں ’ چِکڑ ‘ کہتے ہیں دکنی زبان میں بھی یہ اسی طرح مستعمل ہے ۔
بڈھے جو رکت ہو چکڑ میں پڑے
پنکھی جو سٹے کات سوتر پڑے
(احمددکنی )
دودھ کو پنجابی میں ’ کِھیر ‘ کہتے ہیں اسی کی تقلید میں دکنی زبان کے تخلیق کار بھی دودھ کے لیے لفظ ’ کِھیر ‘ ہی استعمال کرتے ہیں ۔
تھاں دیکھنے لاگا بالک لکھ نہ آوے کِھیر
جِس کے انگو بھرم نہ جاوے اُس کیوں کہنا پِیر
( میراں جی شمس العشاق )

شمالی ہند اور جنوبی ہند کے باشندے بر صغیر کی اقوام کی ایک مخلوط اور مرکب نوعیت کی تہذیب و ثقافت کی پہچان خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی ہمہ گیر وسعت اور جامعیت کا ایک عالم معترف ہے ۔دکن کی تہذیب و ثقافت اور لسانیات کی تاریخی جہات کے کرشمے دہلی اور اس کے مضافات میں صدیوں سے توجہ کا مرکز چلے آ رہے ہیں ۔ادب اور فنون لطیفہ ہوں یا علوم سب کی ایک خطے سے دوسرے خطے کے باشندوں تک منتقلی انسانوں ہی کی مرہون منت رہی ہے ۔ذوق سلیم سے متمتع انسانوں کا وسیلہ علمی و ادبی میراث کی منتقلی کے لیے نا گزیر سمجھا جاتا ہے اس کے بغیر علوم و فنون کے ارتقا سے وابستہ تاریخی تسلسل کا جاری رہنا بعید از قیاس ہے ۔رخشِ حیات کی طرح لسانیات کی یہ برق رفتاریاں سدا جاری رہتی ہیں اورخوب سے خوب تر کی جانب سفر جاری رہتا ہے اور مر حلہ ٔ شوق کبھی طے نہیں ہوتا ۔ بادی النظر میں لسانی ارتقا بھی ایک حرکی عمل ہے جو اس عالمِ آب و گِل میں اپنا فعال کردار ادا کرنے والے متعدد زندہ مظاہر کے مانند ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کے کرشمے دکھا کر اپنی ہمہ گیر اہمیت کی دھاک بٹھا دیتا ہے ۔لسانی ارتقا کا معاشرے اور ماحول کے تغیر و تبدل کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ دکن کے قدیم باشندوں نے اپنے عہد کے سیاسی حالات کو قریب سے دیکھااوروہ اس تجربے کا حصہ رہے جو عسکری مہم جوئی کے نتیجے میں سامنے آئے ۔فوجی مہمات کے نتیجے میں مختلف علاقوں سے بڑے پیمانے پر انتقال آبادی کے مسائل و مضمرات ان کی تخلیقی فعالیت پر بھی اثر انداز ہوئے ۔مطلق العنان بادشاہوں کے دور میں معاشرتی زندگی کے معمولات مکمل طور پر بدل جاتے ہیں ۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جوہرِ قابل کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا مگر جاہل غاسب اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیتے ہیں ۔معاشرتی زندگی میں انصاف کُشی اس قدر عام ہو جاتی ہے کہ با صلاحیت اور ناہل کا امتیاز کیے بغیر ہر آمر اپنی ساری رعایا کویک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے ۔ مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈ لانے لگا ہے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے اقوام کے جاہ و جلال ،سطوت و ہیبت کو تو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب ان سے محفوظ رہتی ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کی تعلیم کے وسیلے سے تہذیبی میراث کو نئی نسل کومنتقل کیا جاسکتاہے ۔سقراط (Socrates) ہو یا جیور ڈانو برونو (Giordano Bruno)، ڈک ٹرپن (Dick Turpin)ہو یا ہورتیا بوٹملے (Horatio Bottomley)سب کے سب شامت ِ اعمال یا فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ کر فسطائی جبر کے مہیب پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر کوئی آنکھ ان کے دلِ شکستہ پر نَم نہیں ہوتی ۔ تہذیبی میراث کے حصول کے لیے نئی نسل کو سخت محنت کو شعار بنانا پڑتا ہے ۔ معاشرتی زندگی میں لسانیات کی دنیا کا بھی کچھ ایسا ہی دستور ہے جہاں ترک وانتخاب کا سلسلہ ہمیشہ جاری ر ہتا ہے اور ماضی کے کئی حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں ۔ دکن میں ادب ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے وابستہ فعالیتیں جو ابتدائی ادوار میں تہذیب و تمدن کے فروغ کے سلسلے میں معمولی زاد ِ راہ سمجھی جاتی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی فعالیتیں معاشرتی زندگی کے لیے ناگزیر ضرورت بن گئیں ۔لسانیات میں سُود و زیاں کا کوئی تصور ہی نہیں کسی زبان کی پزیرائی ہی کو اس زبان کی حقیقی فیض رسانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ افراد کی معاشرتی زندگی میں اظہار و ابلاغ میں تجریدی پیرایۂ اظہار کے بجائے اس سے وابستہ حرکت و حرارت اور مزاج و کیفیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں وہ اقدار جن کا تعلق معاشرے کی اجتماعی زندگی تھا پیہم تغیر و تبدل کی زد میں رہی ہیں لسانی ارتقا بھی اس عمل سے بے نیاز نہ رہ سکا ۔لسانی حوالے سے ادب محض اُن تجربات،احساسات ،واقعات اور ان سے متعلق تفصیلات پر انحصار نہیں کرتا جو تخلیق فن کے لمحوں میں پیش نظر رہے بل کہ ایک اجتماعی جذبِ دروں کی دھنک رنگ کیفیت اس کے پسِ پردہ کارفرما رہتی ہے ۔اس طرح تخلیق کار جس نوائے سروش سے سرشار ہو کر اپنی گُل افشانی ٔ گفتارکے جوہر دکھاتا ہے اس کے حرکیاتی کردار سے معاشرتی زندگی میں نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔

کسی بھی معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی اجتماعی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات ،سانحات،نشیب و فراز ،تغیر و تبدل اورارتعاشات کو محض اتفاقات یا حادثات سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ایسے حالات ازخود پیدا نہیں ہو جاتے بل کہ یہ ایک نظام کے تحت منصۂ شہود پر آتے ہیں جس کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔معاشرتی زندگی کے قواعد و ضوابط کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ وہ انسانوں کو خاص حدود میں رہتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرنے پر مائل کرتے ہیں ۔انسانیت کی بقا ،وقار اور سر بلندی اس امر کی متقاضی ہے کہ بے لوث محبت ، خلوص ،دردمندی ،تعاون اور ایثار کو شعار بنایا جائے ۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جُل کر زندگی بسر کی جائے اور سب کے ساتھ ہمدردی کو شعار بنایا جائے ۔ مِل جُل کر رہنا ،ایثار اور غم گساری انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔تاریخی حقائق اس امر کے شاہد ہیں کہ انسانی ذہن و ذکاوت اور قلب و روحانیت کے اعجاز سے نمو پانے والے تصورات کا اظہار الفاظ کا مرہونِ منت ہے ۔ادبیات اور لسانیات کا ارتقا الفاظ کی صد رنگی کا مظہر ہے جسے تاریخی تناظر میں دیکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔دکن میں رونما ہونے والے لسانی تغیرات کا تاریخی پس منظر متعدد چشم کشا صداقتوں کا امین ہے ۔

تیرہویں صدی عیسوی میں بر صغیر میں خلجی سلطنت کے بانی جلال الدین فیروز خلجی (عہد حکومت : 1290-1296) کے بعد علاؤالدین خلجی (عہد حکومت :1296-1316)مسند اقتدار پر فائز ہوا۔اسی بادشاہ کے عہد میں مسلمان افواج دکن پہنچیں ۔اس یلغار کے نتیجے میں جو نقل مکانی ہوئی لسانی عمل بھی اس سے متاثر ہوا۔اس نئی زبان میں پنجابی،ہریانی اور کھڑی بولی کے امتزاج سے اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آئے۔اِس نئی زبان نے جہاں برج بھاشا سے اثرات قبول کیے وہاں عربی اورفارسی زبان سے بھی بے نیاز نہ رہ سکی ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس نئی زبان کو جن ناموں سے پکارا گیا ان میں ہندی،ہندوستانی اور دکنی شامل ہیں ۔دکنی زبان کے ارتقا میں ایک اور اہم واقعہ محمدبن تغلق (عہد حکومت :1325-1351)کی وہ مہم جوئی ہے جو اس نے مہاراشٹر کے شہر دیو گری کو دولت آباد کا نام دیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا ۔اسکے س اتھ ہی قصر شاہی سے رعایا کو نئے دار الحکومت کی جانب ہجرت کرنے کا حکم صادر ہوا۔ محمد بن تغلق کے اس حکم کی تعمیل کرنے والوں کو سفر خرچ اور قیام و طعام کی تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ محمد بن تغلق کے احکام کے نتیجے میں دہلی اور اس کے مضافات میں مقیم لوگوں نے بڑے پیمانے دولت آباد کی جانب ہجرت کی ۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اس علاقے میں لسانی تغیرات کو تقویت ملی اور مہاراشٹر میں بولی جانے والی زبان نے فارسی زبان سے گہرے اثرات قبول کیے ۔ شمالی ہند میں مروج زبان جس کا دامن معیاری ادبی تخلیقات سے تہی تھا اس نقل مکانی کے بعدمہاراشٹری اور دراوڑی زبانوں کے درمیان معیاری ادبی زبان کی صورت میں سامنے آ رہی تھی۔ چودھویں صدی کے وسط میں تغلق بادشاہوں کا جاہ و جلال جب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آیا اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے قصہ ٔ پارینہ بننے لگے تو جنوبی ہند میں سیاسی حالات کا رخ بدل گیا ۔یہ علاقہ مرکزی حکومت کے اثر سے نکل گیا اور یہاں دہلی کی مرکزی حکومت سے بغاوت کرنے والے سلطان علاؤالدین حسن بہمن شاہ کی قائم کردہ بہمنی سلطنت ( عہد حکومت : 1347-1527) قائم ہوگئی۔اس اقدام کے بعد دکن کا شمالی ہند کے ساتھ رابطہ ٹُوٹ گیا۔سال 1538کے بعدبہمنی سلطنت پانچ حصوں(احمد نگر ،بیجا پور ،برہان پور ،بیدار اور گو کنڈہ ) میں منقسم ہو گئی ۔صرف دو ریاستوں (بیجاپور ،گو ل کنڈہ )میں علم و ادب کی سرپرستی پر توجہ دی گئی ۔

پس نوآبادیاتی دور میں حیدر آبادکی جغرافیائی تقسیم کے نتیجے میں تاریخ ِ زبان اورعلم و ادب کا سار منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اردو زبان اور ہندی زبان کا جو تنازع نو آبادیاتی دور میں شروع ہوا تھااُس نے شدت اختیار کر لی ۔ریاست حیدر آباد کے اختتام کے بعدآندھر ا پردیش کی تشکیل دی گئی ۔اس میں آ ندھر ا پردیش اور تلنگانہ کو شامل کیا گیا۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ علاقے جہاں دکنی زبان صدیوں سے بولی جا رہی تھی تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں وہاں تلگو کی سر پورسی کی جانے لگی۔عصبیت کے اِس مسموم ماحول میں دکنی زبان کو غیر اُمید افزا صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے باجود اس خطے میں بسنے والے دکنی زبان کے ادیب اس قدیم زبان کی بقا کے لیے مصروف ِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ ان علاقوں میں دکنی بولنے والا ہر شخص یہی کہتا ہے :
منجے کیکو ہلو دکنی نکو رہسی( ترجمہ : مجھے دکنی کا پس مانندہ رہ جانا کیسے گواراہو ۔)

چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں فروزاں ہونے والی دکنی زبان کی یہ مشعل طوفانِ حوادث میں اُمید کی ٹمٹما رہی ہے اگر اس میں جان ہو گی تو اس کی ضیا پاشیوں کاسلسلہ جاری رہے گا۔ وہ زبان جسے قلی قطب شاہ ( 1580-1611) جیسے ذہین تخلیق کار نے خون جگر سے سینچا اور پچاس ہزار اشعار کی کلیات پیش کر کے اس کی ثروت میں اضافہ کیااب اس کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ اس بات کا فیصلہ وقت کرے گا کہ دکنی زبان جہد للبقا کے تقاضوں پر کیسے پوری اُترتی ہے ۔

مآخذ
(1) سیدہ جعفر ۔گیان چند جین :تاریخ ادب اردو ،جلداول ، دہلی،قومی کونسل برائے فروغ اردو ،1998،ص54۔
2.George Cardona:The Indo-Aryan Languages,Routledge,New York,2007,Page289.
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.