دعا ہاشمی
یہی تو اس آدمی کا مسئلہ ہے منتقم مزاج، صرف لڑائی کرنی آتی ہے ،جاہلوں
والا سٹائل ۔تھوڑااپنے ہمسایہ ترک ملک کے وزیراعظم طیّب اردگان کو ہی دیکھ
لیں،لیکن انہیں فرصت ہی نہیں کے اس بارے سوچیں ،انہیں ملک کا پتہ ہی نہیں
کہاں جارہا ہے۔ یہ مشرف سمیت کسی اور کرپٹ لیڈراور کرپٹ لوگوں کو چھوڑ کر
نواز شریف کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اتنا زور لوگوں کے
حالات بہتر کرنے پر لگائے تو ملک وملت کا کچھ بنے ،ملک کے سارے کام ساتھ
ساتھ ہوتے ہیں۔ کرپٹ لوگوں کو تو اداروں کے حوالے کردیا جاتا ہے، وزیراعظم
ملکی حالات کو فوکس کرتا ہے لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اڑھائی سال
سے یہ نواز شریف کا ہی رونا رور وکر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے،اور ایک
ہم ہیں کہ خالیاس کی تقاریر پر ہی تالیاں پیٹتے رہتے ہیں۔جہانگیر ترین کا
ذکر کبھی کیا، اس ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نے؟۔
پکڑے ،ضرور پکڑے مجرموں کو ،کس نے منع کیا ہے۔ مگر وہ غریب اور سفیدپوش
عوام کی حالتِ زار کی طرف بھی نظر کرم کریں،کیونکہ یہ وہ طبقات ہیں کہ
جنہوں نے دن کو جو کمانا ہے تو ان کی اسی کمائی سے رات کو ان کے گھروں میں
چولہا جلنا ہے پھر خودانہوں نے اور ان کے بچوں نے کھانا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک طرف حکمران ،بیورو کریٹ ، وزیر اور مشیر خود
عیاشیاں کر رہے ہیں ،لیکن غریبوں کے منہ سے نوالہ تک چھینا جارہا ہے اور
انہیں دیکھیں کہ یہ عوام کولٹیر وں کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم
اس کام کے لئے کسی اورکو’’ ہائیر ‘‘کرلیں اورخود عوام کے معاشی مسا ئل حل
کرنے کی طرف دھیان دیں ،یعنی کہ کچھ بھلا کریں ۔بہت ہوگیا، بڑکیں، شڑکیں
مارنے اورخالی تقریروں سے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ملک میں شدید غذائی
بحران پیدا ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں ۔ آج ملک میں آٹا دستیاب نہیں ہے،
چینی، آلو،پیاز کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔ یہ سب وہ عام چیزیں
ہیں جو ایک عام بندے کی ضرورت ہیں۔ لیکن افسوس اب یہ ساری چیزیں عام آدمی
کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی قیمتوں کو
کنٹرول کرنا کس کا کام ہے ،خالی تقریروں سے یاسرکاری غلام ٹی وی پر آ کر
گذشتہ دو اڑہائی سال سے صرف چور ۔۔چورکہنے سے اب کام نہیں چلے گا۔بڑھتی
ہوئی مہنگائی کے طوفان نے عوام الناس کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل
ترین بنا دیا ہے ۔
کاش !حکومت اب تک کے اڑھائی سالوں میں اپنا تمام تر’’ فوکس‘‘اس جانب رکھتی
تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ عوام اس طرح بھوکی اور پریشان حال نہ ہوتی ۔حکومت
اپنی کوتاہیوں اور نا اہلی کو چھپانے کے لیے سارا الزام ’’مافیا‘‘ کے سر
تھوپ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہے ۔حکومت کا بس ایک ہی بات پر زور
دینا ہے کہ
’’یہ سب مافیا گروپ کا کام ہے‘‘
سوال یہ پیداہوتاہے کہ’’مافیا ‘‘کون ہے ؟؟؟
کیا حکومت اتنی بے بس ہے اس مافیا کے سامنے کہ ان کیخلاف کوئی کارروائی
نہیں کر سکتی یا پھر یہ وہی مافیا ہے جو حکومت کی گود میں بیٹھ کر عوام
کودونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے؟ملک میں افراتفری کا سماں ہے ،پہلے ادوار میں
فرقہ پرستی تقریبا ختم ہورہی تھی مگر ابھی تازہ ترین حالات میں دیکھا جائے
تو علما ء کرام کو کس بے دردی سے شہید کیا گیا اور پھر ’’کرونا‘‘جیسے موذی
مرض کو بطور مہمان ہمسایہ ممالک سے پاکستان میں ’’ویلکم ‘‘کیا گیا ۔
ملک میں پیدا شدہ بحرانی صورتحال سے پاکستان کے میں بسنے والے ہر خاص وعام
کو آگاہی حاصل ہے ۔اور آج بھی وقت ہے کہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
عوام کے لئے بھی سوچیں ۔اپنے بے وجہ کے غصے کو تھوڑا کنٹرول میں لائیں
اورملک کے تمام وسائل کو عوام کی خدمت میں صرف کریں۔حالات کا تقاضا ہے کہ
عوام الناس کو تھوڑا سکون کا سانس بھی لینے دیا جائے ،ایسا نہ ہو کہ عوام
واقعی’’ گھبرا ‘‘ہی نہ جائیں۔ |