وہ وطن پرست تھے اور انسان دوست بھی ۔
انہوں نے اپنی زندگی خلق خدا کے لیے وقف کیے رکھی
1947میں برصغیر پاک و ہند میں پاکستان کے نام سے جب نو آزاد مملکت معرض
وجود میں آنے لگی تو فوج میں شامل مسلمانوں کے سامنے تین آپشن رکھے گئے۔
بھارت میں رہتے ہوئے بھارتی فوج کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان چلے جائیں اگر یہ
دونوں پیشکشیں قبول نہیں تو فوج کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر اپنے گھر چلے
جائیں جب یہ پیشکشیں پٹھان پروا ، فیض آباد کے رہنے والے دو سرفروشوں کو
پیش کی گئی تو ایک سرفروش (جس کا نام مستقیم خاں تھا) اس نے یہ کہتے ہوئے
پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا کہ وہ بھارت میں رہ کر کسی ہندو یا سکھ کی
غلامی کے بجائے پاک سر زمین پر بسنے والے مسلمان بھائیوں کی چاکری کرنا
زیادہ پسند کریں گے۔ جب اس فیصلے کی خبر مستقیم خاں کے چھوٹے چچیرے بھائی
بندے حسن خاں کو ہوئی تو انہوں نے بھی یہ دیکھے بغیر کہ ان کے والدین، بہن
بھائی اور آباؤ اجداد صدیوں سے ہندوستان کی سرزمین پر آباد چلے آ رہے ہیں۔
اپنے تمام عزیز واقارب کو چھوڑ کر پاکستان آنے کا مشکل فیصلہ کر لیا۔ اس
وقت بندے خاں کی عمر بمشکل 21سال ہوگی۔ شاد ی کو بھی چندماہ ہی گزرے تھے۔
ان حالات میں بندے حسن خاں کا فیصلہ ناقابل فہم اور ناقابل یقین تھا۔ ماں
باپ اور بہن بھائیوں نے بہت سمجھایا کہ جہاں آپ نے جانے کا فیصلہ کیا ہے نہ
جانے اس ملک کا مستقبل کیا ہو۔ وہاں کیسے حالات کا آپ کوسامنا کرنے پڑے۔ ان
حالات میں جب نئے ملک میں کوئی بھی اپنا عزیز و اقارب اور رشتہ دار نہ ہو
اور دکھ سکھ کا ساتھی نہ ہوتو وہاں اپنوں کے بغیر کیسے زندگی گزاری جاسکتی
ہے ۔ والدین کے خدشات اپنی جگہ درست تھے بیس اکیس سال کی عمر کے نوجوان کے
فیصلے کو اس لیے زیادہ اہمیت نہیں دی جا تی کہ ان میں پیش آمدہ حالات کو
سمجھنے پرکھنے اور دیکھنے کا شعور نہیں ہوتا اور جذبات ہر فیصلے پر حاوی ہو
جاتے ہیں۔1928 ء کو بھارت کے شہر فیض آباد کے نواحی قصبے پٹھان پروا میں
پیدا ہونے والے اس نوجوان کے لیے حقیقت میں یہ بہت مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن
انہوں نے اپنوں کو چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اس وقت
پاکستان کو تجربہ کار فوجیوں کی اشد ضرورت تھی۔ اس فیصلے کے پیچھے یہ جذبہ
بھی کار فرما تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کی تابعداری کرنے کی بجائے اپنے
مسلمان بھائیوں اور پاک سرزمین کی حفاظت ان کے نزدیک زیادہ مقدس فریضہ تھا۔
اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے مستقیم خاں اور بندے حسن خاں ایک
ٹرین کے ذریعے بھارت سے 9نومبر1947 کو لاہور پہنچے۔ یہاں ان کے ساتھ آنے
والے ایک اور بھائی لال خاں بھی تھے، جو بعد میں حید آباد شہر میں جا بسے۔
مستقیم خاں اوربندے حسن خاں کو پاک فوج کی میڈیکل کور میں جگہ مل گئی۔
ہندوستان میں انہیں19روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی پاکستان میں 29روپے ملنے
لگی۔ یہ دونوں بھائی 20روپے بھارت میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو
بھجوادیتے باقی 9روپے میں سارا مہینہ بسر کر تے۔ ان کے بقول9روپوں میں سے
ایک دوروپے پھربھی بچ جاتے تھے۔
1954ء میں مستقیم خاں کو پاک فوج سے جبری ریٹائرڈ کردیا گیا۔ جب انہوں نے
کرنل کے روبرو یہ کہا کہ وہ تو پاکستان میں اپنا گھر باراور والدین چھوڑ کر
آئے تھے کہ اس نو آزاد ملک کو اپنی صلاحیتوں سے آباد اور شاداب کر یں گے تو
متعلقہ کرنل نے جواب دیا کہ آپ کا جذبہ بے شک عظیم ہے لیکن یہ پاکستان ہے
،مسافر خانہ نہیں۔ مستقیم خاں کے بقول اس دن کرنل کے ان الفاظ نے ان کے دل
کو چھری کی طرح چیر کے رکھ دیا۔ انہیں پاکستان آنے کے فیصلہ پر شدید دکھ
ہوا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ اس اجنبی ملک میں اپنا گھر
بسایا۔دو شادیاں کیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اولاد کی نعمت سے مالا مال کیا۔آج
و ہ شخص ڈیڑھ درجن پوتوں اور نواسوں کا وارث بن کے پاک وطن کے مٹی میں دفن
ہوچکا ہے ۔
بندے حسن خاں نے پاک فوج میں اپنی خدمات کا سفر جاری و ساری رکھا۔1962 ء
میں انہیں لانس نائیک کی حیثیت سے میڈیکل کور سے ریٹائرڈ کر دیا گیا۔ فوج
کی سروس کے دوران وہ لاہور کے علاوہ نوشہرہ، ایبٹ آباد، ٹل اور کوئٹہ بھی
تعینات رہے۔1965ء کی پاک بھارت جنگ جب شروع ہوئی تو ان کو ایک مرتبہ پھر
دفاع وطن کے لیے طلب کر لیا گیا جنگ کے بعد انہیں واپس گھر بھیج دیا
گیا۔فروری1950 ء میں بندے حسن خاں کی شادی بھارت سے ہی نقل مکانی کرکے آنے
والے خاندان کی بیٹی رمضا نو بیگم سے ہوگئی۔ 1951 میں سب سے پہلے بیٹی پیدا
ہوئی جس کا نام زہرہ حسن رکھا گیا پھر دسمبر1953 کو اس گلشن میں ایک پھول
کھلا جس کا نام مشتاق احمد خاں تجویز کیاگیا۔ 1955ء کا سال اس لیے بھی اہم
تصور کیا جاتا ہے کہ بندے حسن خاں کے خاندان کے کچھ اور لوگ بھی بھارت سے
ہجرت کرکے لاہورآگئے۔ ان میں ان کے سگے بھائی تقی خاں، چچیرے بھائی رفیع
خاں، سب سے بڑے بھائی کے بیٹے غلام مصطفےٰ خاں اور بندے حسن خاں کی پہلی
بیوی بھی شامل تھی، جن سے پٹھان پروا میں پاکستان آنے سے پہلے ان کا نکاح
ہوچکا تھا۔ خونی رشتہ داروں کی آمد یقینا بندے حسن خاں کے لیے نہایت خوش کن
تھی۔ لیکن ایک ہی گھر میں دو بیویاں اکھٹی ہونے پر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔
پہلی بیوی گھر پر حکمرانی کا اپنا حق جتا رہی تھی جبکہ دوسری بیوی رمضانو
بیگم اپنے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی۔ اس دوران پہلی بیوی کے ہاں
ایک بچی نے جنم لیا جس کا نام عائشہ رکھا گیا ۔روز بروز لڑائی جھگڑے سے تنگ
آ کر بندے حسن خاں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی۔ جس کے بعد پر تقی خاں
کے گھر شفٹ ہوگی۔ حالات کی ناساز گاری کو سازگار بنانے کے لیے چچیرے بھائی
رفیع خاں نے ان سے نکاح کر لیا چنانچہ ان کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس
کا نام بدر خاں رکھا گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہ پاکستان چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے بھارت اپنے گاؤں پٹھان پروا چلی گئی اور وہاں کچھ عرصہ زندہ رہنے کے
بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔
بندے حسن خاں جو اپنے چچا زاد بھائی مستقیم خان کے ہمراہ بھارت سے پاکستان
آئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو دوسری بیوی سے کثیر اولاد سے نوازا۔ فوج سے
ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ادویات کی سپلائی کو ذریعہ معاش کے طور پر
اپنایا اور بہت عرصہ تک یہ کام کرتے رہے۔ دین کی طرف رغبت تو بچپن سے ہی
تھی۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہو ں نے مجھے خود بتایا کہ شعور کی حالت
میں ان سے صرف تین جمعہ کی نمازیں چھوٹی تھیں اور چھوٹنے کی وجہ بھی ٹانگ
کی ہڈی کا فریکچرتھا۔ ساٹھ کے عشرے میں ہی چند دوستوں نے انہیں دور حاضر کے
ولی کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ ان دنوں حضرت خواجہ معصومؒ
اور حضرت سید اسمعیل شاہ بخاریؒ کا بہت چرچا تھا۔یہ مشورہ انہوں نے یہ کہہ
کر ٹال دیا کہ دونوں میں سے جو انہیں بلائے گا۔ ان کے ہا تھ پر وہ بیعت کر
لیں گے۔کثرت سے درودپاک پڑھنا ان کے معمولات میں پہلے ہی شامل تھا۔ کیونکہ
دلوں کو درود پاک سے زیادہ سکون کوئی اور کلام نہیں دیتا۔
ایک رات خواب میں حضرت کرماں والوں (حضرت سید اسمعیل شاہ بخاریؒ) کی زیارت
ہوئی۔انہوں نے فرمایا کہ بیلیا، میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ہماری طرف
کیوں نہیں آتے ۔؟ خواب میں اشارہ پا کر آپ اگلی صبح بذریعہ ٹرین حضرت کرماں
والا جاپہنچے۔ اتنے بڑے ہجوم میں بندے حسن خاں کو بھی جگہ مل گئی لیکن
بزرگوں کی نشست سے ان کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ پھر جونہی حضرت سید اسمعیل
شاہ بخاریؒ اپنے لیے مخصوص جگہ پر آکر بیٹھے تو انہوں نے حکم دیا کہ لاہور
سے آنے والے آگے آ جائیں۔ یہ سن کر بندے حسن خاں بھی سرکار کے نزدیک پہنچ
گئے۔ چند ہی لمحوں بعد آپ ؒ کو مخاطب کرکے فرمایا" بیلیا تمہیں کس نے بلایا
اے۔" بندے حسن خاں ؒ نے کہا سرکار آپ ؒنے بلایا ہے! اس پرسرکارؒ نے فرمایا
تو تم ہمارے مرید ہونا چاہتے ہو۔ بندے حسنؒ نے کہا آپ کی غلامی حاصل کرنے
کے لیے ہی تو یہاں آیا ہوں۔ حالانکہ اس وقت آپ کلین شیو تھے اور سرکار
ؒبغیر داڑھی والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے کہا اچھا بیلیا
تم آج سے ہمارے مرید ہو۔ تہجد کے علاوہ پانچوں نماز پڑھنی ہوں گی۔ داڑھی
رکھنے کے ساتھ ساتھ کثرت سے درود خضری بھی پڑھنا ہوگا۔ گناہ کبیرہ سے حتی
المقدور بچنا ہوگا۔ چند نصیحتوں کے بعد آپؒ کو واپس لاہور جانے کا حکم مل
گیا۔ بندے حسن ؒ بتاتے ہیں کہ انہو ں نے اپنی زندگی میں صرف دو بار ہی اپنے
مرشد سے بالمشافہ ملاقات کی اور ان سے فیض حاصل کیالیکن پہلی ہی ملاقات کے
بعد سینہ روشن ہوگیا اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے کوئی بزرگ ہستی ان کے
ہمرکاب ہے۔ایک رات خواب میں مرشد پاک ؒ کا دیدار نصیب ہوا۔ حکم ملا بیلیا
اگر تم کرماں والا نہیں آسکتے تو لاہورمیں حضرت گوہر پیرؒ کے دربار( محمود
بوٹی بند) پر ہی حاضری دے لیا کرو۔ وہاں سے بھی تمہیں فیض ملتا رہے گا۔
میں سمجھتا ہوں ان کا یہ مجھ پر احسان ہے کہ انہوں نے مجھے اپنی سب سے
ہونہار بیٹی (عابدہ) کے لیے پسند فرمایا۔ بہنیں تو عابدہ کی سبھی
پاکباز،ملنسار اورگھرگرہستی کی ماہر ہیں وفا شعاری انکا خاصا ہے۔ لیکن اﷲ
تعالیٰ نے جو خوبیاں میری بیگم( عابدہ) میں ودیعت کی ہیں۔ وہ کسی اور میں
نہیں ۔یہی خوبیاں اسے اپنی باقی بہنوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ صوفی بندے حسن
خاں نے ایک اور احسان مجھ پر یہ کیا کہ جس وقت میں گھر سے بے گھر تھا۔
انہوں نے کئی ماہ تک جسمانی اور مالی مشقت کر کے مجھے گھر والا بنا دیا۔
بہرکیف گھر میں صوفی صاحب کا یہ روٹین تھا کہ وہ پہلے تہجد پڑھتے ۔ پھر
قرآن مجید کی تلاوت کرتے نماز فجر کے بعد اپنے اور محلے کے بچے بچیاں(جو ان
کے پاس قرآن پاک پڑھنے آیا کرتے تھے) انکو قرآن پاک کی تعلیم دیتے ۔ خاندان
کے تقریباً سبھی چھوٹے بڑوں نے قرآن پاک انہی سے پڑھا۔
ان کی مجھ سے محبت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے اپنی زندگی کی جو
چند راتیں ان کے ہاں بسر کیں صبح ان کی دستک سے پہلے میں ہی انہیں بیدار
ملتا رہا اور ہر نماز باقاعدگی سے پڑھتا رہا۔ وہ اکثر مجھ سے سیاسی معاملات
پر گفتگو کرتے رہتے اور ہمیشہ میری ہی رائے کو پذیرائی بخشتے۔
اﷲ تعالیٰ نے صوفی بندے حسن خان کو جہاں بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا تھا
وہاں نیک اور صالح اولاد بھی کسی انعام سے کم نہ تھی۔ ان کے کئی بیٹے ارض
مقدس سعودی عرب ذریعہ معاش کے لیے قیام پذیر رہے ۔ ممتازاحمد خان نے والد
کو عمرہ کروانے کا اہتمام کیا۔ صوفی صاحب نے ایک کی بجائے کئی عمرے کئے۔
مسجد نبوی میں بے شمار نمازیں پڑھیں۔ مقدس مقامات کی زیارت کی۔ آپ حج کی
نیت سے وہاں رکنا چاہتے تھے کہ طبیعت ناساز ہو گئی۔ خواب میں نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے دلاسہ دیا کہ عمرے کی سعادت حج بیت
اﷲ کے برابر ہی ہے پریشان نہ ہو۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبان
سے نکلے ہوئے الفاظ نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور آپ نے پاکستان کی طرف رخت
سفر باندھا۔
ایک دوپہر آپ ؒ کو فالج کے مرض نے آگھیرا۔ فالج نے اٹھنے بیٹھنے سے لاچار
کر دیا۔ ایک طرف بیماری کی پریشانی تو دوسری طرف نمازوں کے چھوٹ جانے کا
غم۔ آنکھوں سے آنسورواں تھے۔ ڈاکٹروں نے فالج تشخیص کر دیا تھا۔ بلکہ ضروری
انجکشن اور میڈیسن شروع کروا دی گئی تھیں۔ روتے روتے رات کو نیند آگئی۔ جب
تہجد کا وقت ہوا تو ان کی بیدار آنکھوں نے دیکھا کہ ان کی خواب گاہ بقمہ
نور بن چکی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت سید اسمعیل شاہ
بخاریؒ اور حضرت گوہر پیرؒ سامنے موجود تھے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا بندے حسن اٹھو اور تہجد کی نماز پڑھو۔ صوفی صاحب نے کہا
مجھے تو فالج ہو چکا ہے میں اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہوں۔ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم بالکل ٹھیک ہو۔ اٹھو اور نماز پڑھو، صوفی صاحب
بستر سے اٹھے اور وضو کرکے نماز کے مصلے پر کھڑے ہوکر تہجد پڑھنے لگے۔اس
دوران ان کے تمام جسمانی اعضا بالکل صحیح حالت میں تھے۔ کسی میں درد یا
کھیچاؤ نہیں تھا۔ چنانچہ آپ نے پہلے تہجد اور پھر نماز فجر ادا کی تو گھر
کے دوسرے افراد کی آنکھ بھی کھل گئی ۔ سب حیران تھے کہ اتنی جلدی یہ کیسے
ممکن ہوگیا اطلاع پا کر خاندان کے کچھ اور لوگ بھی گھر پہنچے۔ ان میں میں
بھی شامل تھا۔ میں نے صحت یابی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے وہ کہانی سنائی جو
میں آپ کو اوپر سنا چکا ہوں۔ صوفی صاحب جہاں کثرت سے درود خضری کا ورد کرتے
تھے ۔ وہاں سورۃ المزمل کے زبردست عامل تھے۔اﷲ تعالیٰ نے پیر و مرشد کی دعا
سے انہیں یہ علم بھی عطا کر رکھا تھا کہ وہ یہاں بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی
حصے میں موجود شخص کو نہ صرف دیکھ سکتے بلکہ اس کا علاج بھی کر سکتے تھے۔
کشف القبور کا علم بھی آپ کے پاس تھا۔
پھر جوں جوں عمر بڑھتی گئی۔ مختلف امراض نے انہیں گھیرنا شروع کر دیا۔ ہائی
بلڈ پریشر کا مرض تو پہلے ہی انہیں لاحق تھا۔ دماغی فالج کے حملے سے انہوں
نے لوگوں کو پہچاننا بند کردیا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
گذشتہ دو سال سے صوفی صاحب سخت علیل تھے۔ اس دوران انہیں کئی مرتبہ سروسز
ہسپتال میں داخل بھی کرنا پڑا۔ بالآخر 21 نومبر 2004ء اتوار کی صبح پانچ بج
کر پچاس منٹ پر وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب آنکھوں کے راستے ایک چمک سی نکلی
اور مدتوں سے بے قرار جسم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قرار آ گیا۔اتوار کی صبح
جب میں حسب معمول نماز فجر پڑھ کر واپس گھر پہنچا تو میری بیگم (عابدہ) کی
آنکھوں میں باپ کی محبت کے آنسو تھے، میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ابا
جی فوت ہوگئے ہیں۔ نماز جنازہ کا وقت دوپہر تین بجے مقرر تھا، وصیت کے
مطابق پہلے ان کی میت کو حضرت خواجہ بہاریؒ کے دربار لے جایاگیا پھر وہاں
سے حضرت میاں میرؒ کے دربار کے احاطے میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ وصیت کے
مطابق پیر طریقت رہبر شریعت مولانا محمد عنایت احمد ؒ نے نماز جنازہ پڑھا
ئی۔
جنازے کے بعد جب لوگ صوفی بندے حسن خاں کا آخری دیدار کرنے لگے تو میں نے
ان کے چہرے پر اتنا نور دیکھا کہ حیریت گم ہوگئی جب میری نگاہیں ان کی ادھ
کھلی آنکھوں کی طرف گئیں تو وہ ایمان کی روشنی سے منور دکھائی دیں۔ اس لمحے
میری زیان سے یہ الفاظ نکلے کہ جن آنکھوں نے دو مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہو، وہ کیسے بے نور ہو سکتی ہیں ان کا
جسم ان کا چہرہ ان کی آنکھیں تمام مرنے والے کی طرح ہرگز نہیں تھیں ۔ بلکہ
ان کا شمار تو ان لوگوں میں تھا جن کے بارے میں قرآن پاک میں لکھا ہے کہ بے
شک اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کو نہ موت کا کوئی خوف ہوگا اورنہ میدان حشر کا۔
پھر جب سورج درختوں کی اوٹ میں روپوش ہو رہا تھا اور آسمان پر ہر طرف ڈوبتے
سورج کی سرخیاں نمایاں تھی۔ صوفی بندے حسن خاں زمین کی تہہ میں اتر گئے۔ بے
شک ہر جاندار کو موت تو آنی ہے لیکن اﷲ کے بندے تو ہمیشہ اپنے رب سے ملاقات
کے لیے تیار رہتے ہیں۔صوفی بندے حسن خاں بھی اﷲ کے نیک بندے تھے میں نے ان
کی رفاقت کے چھبیس سال میں کوئی عمل ایسا نہیں دیکھا جو شریعت کے برعکس ہو۔
انہوں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ بلکہ ان کی زبان پر ہر وقت اور ہر لمحے
درود پاک کا ورد ہی جاری رہتا تھا ۔کیا یہ امر کسی سعادت سے کم ہے۔ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ جو شخص جتنا درود پاک
پڑھے گا قیامت کے دن وہ اتنا ہی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے نزدیک ہوگا۔ |