مدرسے پر حملہ اور ریاست کی بے رخی

سانحہ پشاور پر سعیداللہ سعید کا کالم

کل جب اے پی ایس پشاور میں ظالموں نے نہتے بچوں کو بے دردی سے کاٹ ڈالا تو ہم اتنے ہی افسردہ تھے جتنا کہ آج پشاور کے مدرسہ میں معصوم کلیوں کے مسلے جانے پر رنجیدہ ہیں۔ کیوں؟؟؟ اس لیے کہ آج کے شہید بچے اگر ہماری آنکھوں کا نور تھے تو کل شہید بھی جگر گوشے ہمارے تھے۔

ہم نے کیوں کل اور آج کے ان شہداء میں تفریق نہیں کی؟ اس لیے کہ کل روشن مستقبل کا خواب دل میں لیے دربارِ الہی میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستاں سنانے والے بھی غیر نا تھے اور آج قرآن و حدیث کی روشنی لیے جنتوں کے مہمان بنے والے بھی دشمن کے بچے تو نا تھے۔ بالفرض اگر ہم ان شہداء میں تفریق کرتے تو کیا ہم پھر بھی انسان کہلاتے؟؟؟ ہرگز نہیں بلکہ پھر ہم حیوان کہلاتے۔ بدترین حیوان۔

یہ ہم پاکستانیوں کا خاصا رہاہے کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو مل کر سہتے ہیں اور یہی ایک مومن کی شان بھی ہے کہ جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف پورا جسم محسوس کرتا ہے۔

اللہ تعالی کا شکر ہے کہ پشاور کے اس اندوہناک سانحے کو بھی اہل وطن مل کر سہنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ غم کے اس گھڑی میں ماں کہلانے والی ریاست کا وہ کردار کہیں نظر نہیں آرہا جو ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ کل کی طرح آج ریاست کے سینے میں وہ درد موجود نہیں جو بیٹوں کو پہنچنے والی تکلیف کے وقت ہوتا ہے۔

کیا مدرسے کے شہید بچے اس ہمدردی کے حقدار نہیں جو ایک سکول، کالج کے بچے کو حاصل ہوتی ہے؟ کیا ریاست اپنے اس رویے سے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ کل کے شہید بچے میرے سگے بیٹے تھے اور آج خون میں نہلادینے والے بیٹے سوتیلے ہیں؟ اگر ہاں تو کیوں؟ کیا وہ اس وطن کے بیٹے نا تھے، کیا وہ اس مٹی سے وفادار نا تھے اور کیا وہ اس وطن کے نظریاتی سرحدوں کے محافظ نا تھے؟ اور اگر نہیں تو پھر یہ بتانا بھی آپ پر واجب ہے کہ دو بیٹوں میں ایک سے محبت کی انتہاء اور دوسرے سے اتنی بے رخی کیوں؟؟؟

 

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 115028 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More