حکایت ہے کہ ایک انسان کی ایک ریچھ سے دوستی ہو گئی۔
دونوں ہر جگہ سا تھ ساتھ جاتے۔ ایک مرتبہ ایک جگہ بہت ٹھنڈ تھی، انسان نے
اپنے ہاتھوں کو ملا کر پھونکیں ماریں تا کہ حرارت کا احساس ہو۔ ریچھ کے
پوچھنے پر سبب بتا دیا۔ آگے چلے تو جنگل میں لکڑیاں جلا کر کھانا پکایا۔
گرما گرم سالن ٹھنڈا کرنے کے لیے پھر وہی عمل دہرایا تو ریچھ سے رہا نہ گیا۔
اب جو اس نے استفسار کیا تو انسان کی وضاحت اس کے دل کو نہ بھائی۔ ہاتھ
جھاڑ کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گیا کہ:
’’نا بابا نا….یہ کیا ؟ ایک گال میں آگ ، دُوجے میں پانی۔ تمھارا بھروسا
نہیں۔"
قاد ر مطلق نے حضرتِ انسان کو بھی کیا خوب بنایا ہے جہاں اس میں اچھائی ہے
تو وہاں برائی بھی ہے، نفرت ہےتو محبت بھی ہے، غصہ ہے تو پیار بھی ہے، صدق
ہے تو کذب بھی ہے، جہالت ہے تو علم بھی ہے، توحید ہے تو شرک بھی ہے، حبیب
ہے تو رقیب بھی ہے، ظلمت ہے تو نور بھی ہے،غالب ہے تو مغلوب بھی ہے،وحشی ہے
تو مہذب بھی ہے، ظالم ہے تو عادل بھی ہے،رہبر ہےتو راہزن بھی ہے، جفا ہے تو
وفا بھی ہے، شاد ہے تو نا شاد بھی ہے، عزت ہے تو ذلت بھی ہے، زبردست ہےتو
زیر دست بھی ہے،جہاں اس میں فرشتوں کی سی عادات ہیں وہاں اس میں شیطانی
خصلتیں بھی موجود ہیں۔آگ اور پانی کے ملاپ کی اگر کوئی بہترین مثال پیش
کرنی ہوتو وہ ہے حضرتِ انسان ۔بقول انور شعور؛
برا ،برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے
ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے
ان تمام متضاد خصلتوں کے درمیان سے گزر کر اپنا راستہ تلاش کرنا ہی عین
انسانیت ہے۔انہی متضادعادات کی نشاندہی سورۃ فاتحہ میں بیان کی گئی ہے کہ
سیدھا راستہ وہی ہےجو ان لوگوں کا راستہ تھا جن پر انعام کیا گیا اور وہ
بری عادتوں سے بچ گئے یہ صرف اس قادر مطلق کا انعام ہے کسی کے بس کی بات
نہیں ۔ انسان نے راستہ تلاش کرنا ہے اس پر قائم کرنے کی ہمت وہ قادر مطلق
عطا کرتاہے۔انسان نے اپنے اعمال پر غور کرنا ہے کہ وہ کس راستے پر گامزن ہے
اور اس کی سمجھ اسے عطا ہوئی ہے کہ وہ جان سکے کہ شیطان کا راستہ کونسا ہے
اور رحمان کا راستہ کونسا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں برائی
کو برائی ہی گردانا گیاہے۔اسے اپنے اچھے کام پر شکر گزار اور برے کام پر
نادم ہونا چاہیے۔ مگر جیسے ہی انسان اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسروں کو شیطان
سمجھنے لگ جائے توسمجھ لو کہ اس نے غرور اور تکبر کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ
دیا۔بقول حالی؛
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
ایک پرندہ ہے راج ہنس جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر اس کے سامنے
دودھ اور پانی ملا کر رکھ دو تو وہ دودھ پی جاتا ہے اور پانی چھوڑ جاتا ہے۔
اس میں کتنی سچائی ہے یہ تو پتہ نہیں مگر اس میں ایک سبق ضرور ہے کہ انسان
کو ہراچھی بات کسی سے بھی لے لینی چاہیے چاہے وہ کتنے ہی برے انسان کے توسط
سے کیوں نہ ملے اور برائی سے اجتناب کرنا چاہیے چاہے وہ کتنے ہی نیک بندے
کے توسط سے کیوں نہ ہو۔ اسی لیے کہتے ہیں نا کہ عمل شیطان کا بھی قابلِ غور
ہے مگر قابلِ تقلید نہیں اور تقلید فرشتوں کی بھی قابل غور ہے مگر قابلِ
عمل نہیں۔
فرشتوں کے پاس کوئی چوائس نہیں وہ صرف اور صرف حکم الہی کے پابند ہیں ۔مگر
جنات میں تھوڑی سی ترامیم کے ساتھ تمام انسانی خصوصیات بھی پائی جاتی
ہیں۔ابلیس بھی جنات میں سےتھا جو مردود ہوا مگر مایوس نہیں ہوا اور یوم
قیامت تک کی مہلت مانگ کر حضرت انسان سے دشمنی قائم رکھنے اور انہیں اچھائی
سے برائی کی طرف بہکانے پر عمل پیرا ہے۔مگر انسانوں میں سے کتنے ہی اپنی
غفلت کی وجہ سے اس شیطان مردود کا آلہ کار بنے ہوے ہیں۔ ہم ہر برائی کو
شیطان کے کھاتے میں ڈال کر سمجھتے ہیں کہ وہی اس کا ذمہ دار ہے مگر حضرتِ
انسان کئی ایسے کام بھی کر جاتا ہے کہ اس سے شیطان بھی پناہ مانگنے لگ جاتا
ہے۔اسی طرح کئی ایسے کام بھی حضرتِ انسان نے کیے کہ فرشتے بھی عش عش کر
اٹھے۔
دنیا کے تمام لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ شیطان یا اسکا کوئی بھی نام
ہو اور اس کے ساتھی آخر کار جہنم کا ایندھن بنیں گے اور جنت کے حق دار وہ
جن و انس ہوں گے جو شیطان کی بجائے رحمان کے راستے پر ہونگے، جو توحید پر
قائم ہونگے، جو انسانیت کی اعلی اقدار کے مالک ہونگے ، جو قادر مطلق کے
برحق دین پر ہونگے، جو علم وعمل والے ہونگے۔ اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے
کہ ہمیں بھی اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جو اس کے برگزیدہ بندوں کا راستہ
ہے، جو انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے، جو ہدایت یافتہ لوگوں کا راستہ ہے،
جو کامیاب لوگوں کو راستہ ہے اور اس راستے سے بچائے جو اس کے مغضوب لوگوں
کا راستہ ہے، جو گمراہ لوگوں کا راستہ ہے، جو شیطان اور اس کے حواریوں کا
راستہ ہے۔ حضرت انسان کواپنے اعمال کا جائزہ لے کر اس بات کا فیصلہ کر لینا
چاہیے کہ وہ کس راستے کا راہی ہے، وہ کس کا سپاہی ہےشیطان کا کہ رحمان کا۔
|