حضور نبی کریمﷺ کے اگلے چار دانت شہید ہو گئے۔ سر
مبارک اور چہرہ انور بھی زخمی ہو گیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم
نے رنج واضطراب کی حالت میں گزارش کی یا رسول اﷲﷺ! کاش آپؐ ان دشمنان دین
پر بددعا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا:’’میں لعنت اور بددعا کے لیے نہیں بھیجا گیا۔
بلکہ لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
حضور پاکﷺکی ہجرت کے بعد مکے میں سخت قحط پڑا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ
قریش چمڑا اور مردار کھانے لگے۔ ابوسفیان کو یہ بات معلوم تھی کہ حضور ﷺ کی
دعا قبول ہوتی ہے، وہ مدینہ پہنچے اور آپﷺ سے ملتجی ہوئے کہ محمدﷺ! آپؐ کی
قوم قحط سے ہلاک ہو رہی ہے، آپﷺ ان کے لیے دعا کیجیے۔ اس کے جواب میں آپ ﷺ
نے یہ نہیں کہا کہ میں ان لوگوں کے حق میں کیوں دعا کروں جنہوں نے مجھے اور
میرے ساتھیوں کو تکلیفیں پہنچائیں اور ہمیں اپنے گھروں سے نکالا؟ بلکہ آپ ﷺ
نے فی الفور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور آپ ﷺکی یہ دعا قبول ہوئی۔آپ ﷺ نے
فر ما یا : ’’ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں
اس کو قدرت کے انتقام کے باوجود معاف کردوں۔ جو مجھ سے قطع کرے، میں اس کو
ملاؤں، جو مجھے محروم رکھے میں اس کو عطا کروں، غضب اور خوش نودی دونوں
حالت میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں‘‘۔
اﷲ کے نبی ؐنے بہت ایذائیں جھیلیں، لیکن سخت ترین دن وہ تھا جب آپﷺ تبلیغ
اسلام کے لیے طائف گئے۔ وہاں دعوت اسلام کے جواب میں لوگ سخت بد اخلاقی سے
پیش آئے اور بازاری لفنگوں اوباشوں کو آپؐ کے پیچھے لگایا، یہ بدمعاش آ پؐ
پر ٹوٹ پڑے اور ذات اقدسﷺ پر بے پناہ سنگ باری شروع کر دی۔ آپﷺ جدھر کا رخ
کرتے یہ غول آپؐ کا پیچھا کرتا، لیکن جب چاروں طرف سے پتھر برس رہے ہوں تو
کہاں تک آپ ﷺمحفوظ رہ سکتے تھے؟ اتنی سنگ باری ہوئی کہ جسم مبارک لہولہان
ہو گیا اور نعلین مبارک خون آلود ہو گئے۔ آخر آپ ؐنے بڑی مشکل سے ایک باغ
میں انگور کی بیلوں میں پناہ لی اور اوباشوں سے پیچھا چھڑایا۔ حضرت زیدث نے
آپ ؐکے جسم کا خون پونچھا۔
نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: یہ میرے لیے سخت ترین دن تھا۔ میں باغ سے نکل کر غم
زدہ آرہا تھا کہ اچانک بادل کے ایک ٹکڑے نے میرے اوپر سایہ کر دیا، میں نے
جب نظر اٹھا کر دیکھا تو جبرئیل علیہ السلام تھے، جبرئیل ؑنے کہا جو کچھ آپ
ﷺکے ساتھ ہوا ہے اﷲ تعالیٰ نے اسے دیکھا او راگر آپؐ کی مرضی ہو تو طائف کے
دونوں پہاڑوں کو ملا کر یہاں کی جملہ آبادی کو تہس نہس کر دیا جائے، میں نے
کہا، نہیں! میں ان کی ہلاکت وبربادی نہیں چاہتا، بلکہ مجھے خدا کے فضل سے
امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی
عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔
عفو ودرگزر کا یہی نتیجہ نکلا کہ گیارہ سال بعد یہی طائف والے تھے جو آپﷺ
کی عداوت سے دست بردار ہو کر آپ ﷺکے قدموں میں گر پڑے۔شہر مکہ میں کوئی چیز
پیدا نہیں ہوتی تھی، اناج یمامہ سے آتا تھا، یمامہ کے حاکم حضرت ثمامہ
مسلمان ہو گئے اور انہوں نے مکہ معظمہ کی طرف غلے کی آمد بند کر دی۔ اس
بندش سے قریش میں کہرام مچ گیا، انہوں نے سخت اضطراب اور بدحواسی کے عالم
میں حضور ﷺ سے مدینہ میں رجوع کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت ثمامہؓ کے نام پیغام بھیجا
کہ اناج کی بندش اٹھالو۔ چنانچہ اناج مکہ پہنچنے لگا، حالانکہ یہ اہل مکہ
وہی تھے جنہوں نے مسلسل تین سال تک آپؐ کے خاندان والوں کا ایسا مقاطعہ کیا
تھا کہ اناج کا ایک دانہ تک نہیں پہنچنے دیتے تھے۔ ہاشمی بچے بھوک سے تڑپتے
اور بلبلا اٹھتے تھے۔ لیکن ان ظالموں کے پتھردل کسی طرح نہ پسیجتے تھے،
بلکہ یہ گریہ وبکاسن کر رحم کرنے کے بجائے ہنستے اور خوش ہوتے تھے۔ آپ ﷺ نے
ان کی یہ سب باتیں بھلا کر ان کے لیے اناج کی بندش ختم کر دی۔ یہ عفو
ودرگزر کی اعلیٰ مثال ہے،جو ہمیں دنیا کے کسی بھی شخصیت میں نہیں ملتی۔
حضور کریم ﷺکا یہ جذبہ میدان جنگ میں بھی رہتا تھا۔ بدر کے میدان جنگ میں
لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی فوج کے آدمی اس حوض پر پانی پینے آتے،
جو اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا، مسلمانوں کی فوج نے یہ حوض اپنی ضرورت کے
لیے تیار کیا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے مشرکین کو پانی پینے سے روکنا چاہا تو آپ
ﷺنے فرمایا:’’پانی پینے سے منع نہ کرو، پینے دو‘‘۔
ان چند واقعات سے ہمیں آپﷺ کے عفو ودرگزر اور دین کے دشمنوں کے ساتھ حسن
سلوک کا پتہ چلتا ہے۔آج بھی اگر ہم نبیﷺکے ان اصولوں کو اپنانے کی کوشش
کریں تو اس دنیا میں بھی کام یاب ہوں گے اور اخرت میں بھی رب ذوالجلال کے
ہاں سرخرو ہوں گے۔
|