الرجی

تحریر۔۔۔ڈاکٹر فیاض احمد
کسی بھی چیز کی لاعلمی نقصان دہ ہوتی ہے اسی طرح بیماریوں سے لاعلمی ہمیں زیادہ بیمار بناتی ہیں آجکل ہمارے معاشرے میں دوسری بیماریوں کی مانند الرجی بھی ایک عام بیماری ہے جس کی بہت ساری اقسام ہیں یہ ایک ایسی بیماری ہے جیسے کھانسی ، سردی، چھینک، خارش اور دمہ وغیرہ جس کے رد عمل سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے جسم کے دفاعی نظام کی ناکامی کا دوسرا نام الرجی ہے الرجی یونانی الفاظ کا مجموعہ ہے ایسی تمام بیماریوں کو الرجی میں شامل کیا جاتا ہے جو حساس علامات رکھتی ہیں ہمارے جسم کی قوت مدافعت جسم کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جب یہ کمزور ہو جاتا ہے تو جسم پر وائرس، بیکٹیریا، پراسائیٹ وغیرہ حملہ کردیتے ہیں اور جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جس سے الرجی کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے یہ ایک موروثی بیماری کے طور پر بھی نظر آتی ہے زیادہ تر والدین میں سے کسی کو الرجی ہو تو اس کا اثر والدین کو بھگتنا پڑتا ہے الرجی کا سبب ڈھونڈتے وقت موروثی اثرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے الرجی کے اثرات سب پر واضع ہوتے ہیں کوئی اس کا عارضی نشانہ بنتا ہے اور کوئی اس کے اثرات مستقل طور پر لاپروائی یا برقت علاج نہ کروانے کی وجہ سے حاصل کر لیتا ہے الرجی معاشرے میں موجود ہر طرح کے طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد میں پائی جاتی ہے چاہے وہ گاؤں سے ہے یا شہر کا رہائشی ہے حتی کہ پہاڑی علاقوں کے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے کوئی ایسی شے جو ہمارے جسم سے ٹکرا جائے یا ہمارے جسم میں داخل ہو جائے جیسے ہمارا جسم قبول نہ کرے اور اس کا رد عمل ظاہر کرے اسے الرجی کہتے ہیں اس الرجی کی وجہ سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے الرجی کئی قسم کی ہوتی ہے ایک عام الرجی جو ہمیں مٹی ،دھواں اور دھول سے ہوتی ہے یہ الرجی پاکستان سمیت کئی ایشیائی ممالک میں عام ہے جبکہ یورپی ممالک اور امریکہ میں ناپید ہے البتہ ان ممالک کی الرجی اور کئی قسم کی ہوتی ہے جیسے پولن الرجی وغیرہ آٹرپک ڈرماٹی ٹسبھی ایک الرجی ہے اس میں جلد پر سوجن آ جاتی ہے الرجی کی یہ قسم کم عمری میں زیادہ ہوتی ہے اور عمر کے ساتھ اس کی شدت کم ہو جاتی ہے اس بیماری میں درد، کھجلی، چھالے، منہ کے کناروں کا پھٹنا اور بار بار جلدی امراض کا لاحق ہونا اس کی خاص علامات ہیں یہ زیادہ تر فضائی آلودگی، کیمیکل کی آلودگی، نقلی زیورات کا استعمال، پرفیوم اور صابن وغیرہ کے استعمال سے ہوتی ہے ہمارے ہاں جو الرجی سب سے زیادہ ہوتی ہے وہ ناک کے راستے سے نظام تنفس میں داخل ہوتی ہے وہ زیادہ تر مٹی اور دھول سے ہونے والی الرجی ہے مٹی دھول میں دیگر اجزاء کے علاوہ ایک خاص کیڑا بھی ہوتا ہے جس کا فضلہ مٹی دھول میں شامل ہو کر ہمارے جسم میں داخل ہو جاتا ہیاور الرجی کا سبب بنتا ہے اس کیڑے کو ڈسٹ مائٹ کہا جاتا ہے یہ کیڑا عام دھول مٹی میں تو زیادہ نہیں پایا جاتا لیکن گھر کے اندرونی حصوں میں موجود دھول مٹی میں ضرور پایا جاتا ہے مثال کے طور پر کوئی کمرہ ایک مدت سے بند ہو تو اس میں اس کیڑے کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح اگر کوئی پرانی کتاب جھاڑی جائے تو اس سے نکلنے والی مٹی کے اثرات بھی ہم پر آ جاتے ہیں اسی طرح کئی لوگوں کو ٹریفک کے دھوئیں سے بھی الرجی ہوتی ہے خصوصاً ڈیزل کے دھوئیں سے ہوتی ہے کیونکہ اس میں دھول بھی شامل ہو چکی ہوتی ہے اسی طرح ایسے گھر جو صنعتی علاقوں میں ہوتے ہیں تو ان کے آس پاس موجود فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں بھی وہاں کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے

اکثر لوگوں کو فوڈ کی الرجی بھی ہوتی ہے اس قسم کی الرجی میں کھانے کے ذریعے سے جسم میں کوئی ایسا پروٹین داخل ہو جاتا ہے جس کو جسم قبول نہیں کرتا اور اس کا رد عمل ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے مثال کے طور پر کئی لوگوں کو انڈے سے الرجی ہوتی ہے اور ایسا شخص اگر انڈے کا ایک ٹکڑا بھی کھا لے تو اسے الرجی ہو جاتی ہے ردعمل کے طور پر ایسے شخص کو دانے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں یا سارے جسم میں سوئیاں چبھنی شروع ہو جاتی ہیں یا پھر ایسی خارش شروع ہو جاتی ہے جو قابو کرنا آسان نہیں ہوتی ایسی طرح کچھ لوگوں کو سونگھنے سے بھی الرجی ہوتی ہے یہ لوگ جب کوئی خاص پرفیوم لگاتے ہیں تو اس کی خوشبو ناک میں پہنچتے ہی الرجی شروع ہوجاتی ہے اس صورت میں لوگوں کا سانس رکنا شروع ہو جاتا ہے اسی طرح ایک الرجی کو پولن الرجی کہتے ہیں جبکہ اسے اردو میں زرگل کہا جاتا ہے پھولوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں آپ کو کچھ خوبصورت پارٹیکلز دیکھائی دیں گے انہی کو زر گل کہتے ہیں جب کوئی پھول اپنی مدت پوری کر لیتا ہے تو زر گل اور ان کے ساتھ لگے بیج ہوا کے ذریعے ماحول میں پھیل جاتے ہیں اس کی وجہ پھول کی نسل کو بڑھانا ہوتا ہے تاہم یہ زر گل جہاں پھیلتے ہیں وہاں پر موجود لوگوں کی ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور الرجی کا سبب بنتے ہیں پولن الرجی دنیا کے دو ممالک میں زیادہ ہوتی ہے ایک پاکستان اور دوسرا آسٹریلیا ۔ پاکستان میں یہ الرجی اسلام آباد کے شہروں میں پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ اس شہر میں موجود درخت ہیں اس شہر میں یہ الرجی بہار کے موسم کے دوران ہوتی ہے آسٹریلیا میں اس الرجی کو گراس پولن کہا جاتا ہے اور وہاں یہ الرجی گھاس کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ وہاں گھاس کے زر گل پھیلتے ہیں زرگل الرجی کے لئے اینٹی الرجک یا ویکسین تیار کی جاتی ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ جسم میں موجود قوت مدافعت زرگل الرجی کے مطابق ہو جاتا ہے زرگل الرجی سے بچنے کے لئے درخت کاٹنے کے بجائے اگر شہد کی مکھیاں پالی جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا یہ شہد کی مکھیاں پھول سے رس چوس کر شہد بنائیں گی اور یہ شہد جب استعمال کیا جائے گا تو بھی زرگل الرجی سے بچا جا سکتا ہے الرجی کے لئے ضروری ہے کہ ایسی چیزوں سے دور رہا جائے جن کی وجہ سے ہمیں الرجی ہوتی ہے یقینا مٹی دھول سے تو ہم نہیں بچ سکتے لیکن باقی چیزوں سے تو ہم خود کو محفوظ کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ایک الرجی سر کی خشکی کی وجہ سے ہوتی ہے جب ہم کنگھی کرتے ہیں تو اس دوران خشکی کے ذرات ہماری ناک، کان اور آنکھوں میں چلے جاتے ہیں اور اس طرح ہمیں الرجی کا سامنا کرنا پڑتا ہے آجکل نوزائیدہ بچوں میں بھی الرجی پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کا قوت مدافعت کا نظام ابھی مکمل نہیں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اسی طرح ناک کی الرجی کا برقت علاج نہ کیا جائے تو تنگی تنفس بن جاتی ہے جو زیادہ تو دمہ کا باعث بنتی ہے دمہ بھی الرجی کی ایک پرانی قسم ہے جو سانس کی نالی میں سوجن پیدا ہونے سے ہوتی ہے اس میں مبتلا انسان کو چھینکیں آنا، سانس پھولنا، کھانسی اور سینے میں درد واضع علامات ہیں اسی طرح آنکھوں کی الرجی بھی ہوتی ہے یہ اس وقت ہوتی ہے جب الرجن آنکھ کی اوپر والی جھلی کو متاثر کرتی ہے اس سے آنکھوں میں پانی کا آنا، کھجلی، آنکھوں کا لال ہونا اور سوجن یا زخم کا ہونا وغیرہ اسی طرح کچھ لوگوں کو میڈیسن سے بھی الرجی ہوتی ہے اس الرجی کا اثر مختلف لوگوں پر مختلف طرح کا ہوتا ہے کسی کے جسم پر دانے بن جاتے ہیں اور کسی پر خشک خارش ہوتی ہے اس موذی مرض سے بچنے کے لئے ہمیں فوری طور پر علاج کی بروقت ضرورت ہوتی ہے

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 526537 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.