شاہی دربار کا لفظ سنتے ہی عام طور پر لوگوں کی عقلی
رسائی تاریخ کے اوراق میں مغلیہ سلطنت کی جانب مبذول ہوتی ہے ۔ سائنسی
تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ جینز نامی جرثومے کسی بھی جاندار کی وراثتی
خصوصیات اپنے اندر محفوظ رکھتے ہیں اور آئندگان کی تخلیق کا حصہ بن کر
سابقان جیسی خصوصیات کا حامل بناتے ہیں۔میں یہاں کہنے میں حق بجانب ہوں کہ
یہ مغلیہ جراثیم کا اثر ہی آج تک موجود ہے جو برطانوی راج سے پاکستان کی
ستر سالہ عمر تک بتدریج چلتا ہوا تھانہ سسٹم میں پورے عروج سے قائم و دائم
ہے ۔ پاکستان کے جمہوری ادوار میں تھانوں کی ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں
جو غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی رہی ہیں۔
حالیہ جمہوری دور میں جہاں دیگر محکمہ جاتی بدعنوانیاں اور من مرضیاں عروج
پر ہیں وہیں تھانہ سسٹم میں بھی ناانصافیوں، اقربا پروری اور معاشرتی و
سماجی تنزلیوں کے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ کسی بھی ملک میں بسنے والے شہریوں کی
بنیادی ضروریات میں ایک جان و مال کا تحفظ بھی شامل ہے ۔ جس کا تعلق پولیس
اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محکمہ
پولیس دندناتے ہوئے چوروں، ڈکیتوں اور حملہ آوروں کی زد میں آنے والے شہداء
کا وارث تو بنتا ہے مگر جو شہری آئے روز لٹ رہے ہیں،پامال ہو رہے ہیں یا
قتل ہو رہے ہیں ان کا وارث بننے کی بجائے انہیں اپنے رویوں سے اس طرح تاثر
دیتا ہے کہ شاید انہوں نے پولیس سے مدد مانگ کر غلطی کر لی ہو۔ یہ بالکل
اسی طرح ہے کہ جیسے شاہی دربار میں عام لوگوں کو استدعا کرنے کی یا اپنا حق
مانگنے کی جسارت کرنے کی سزا ملا کرتی تھی۔ اور ضلع کے پولیس میں افسران
خصوصاً تھانوں کے مہتممین کا رویہ شاہی دربار کے شہنشاہ معظم سے کم نہیں
ہوتا۔راقم الحروف جس شہر کا باسی ہے اسی کے چند مختصراً واقعات دلیل کے طور
پر قارئین کی نذر کرتا چلوں کہ تھانہ سٹی جھنگ کے مہتمم نے اپنی ہی قوم
برادری کے ایک ڈکیت جو پانچ سو سے زیادہ موٹر سائیکل، درجنوں بھیڑ بکریاں
اور موبائل فون کی ڈکیتیوں و چوریوں میں ملوث تھا کو صرف ایک بکری چوری کے
الزام میں چالان کر دیا اور اس طرح وہ معاشرے کا خطرناک ترین فرد رہا ہو کر
دندناتا پھرتا ہے ۔ اسی تھانے کے ایک تفتیشی نے ایک گروہ بنا رکھا ہے جس
میں نام نہاد صحافی، سماجی کارکن اور دو بہن بھائی شامل ہیں۔یہ دونوں بہن
بھائی لوگوں سے پیسے لے کر غلط کام کرواتے ہیں، اور انہی لوگوں پر میڈیکل
رپورٹ بنوا کر ایف آئی آر کرواتے ہیں، پھر کھیل شروع ہوتا ہے پانچ سے دس
لاکھ کے درمیان ڈیل کی جاتی ہے ، ایسے ہر کیس کا ہر بار وہی تفتیشی بنتا ہے
اور یوں ایک مکمل چال بازی کے تحت تمام لوگ حصہ بقدر جثہ بانٹ لیتے ہیں۔
جھنگ کا ہی تھانہ صدر کا مہتمم بھی ڈکیتیوں اور چوریوں کے واقعات میں میرٹ
کرنے کی بجائے سیاسیوں کے دباؤ میں چوروں کا ساتھ دیتا دکھائی دیا ہے ۔موقع
پر پکڑے جانے والے ڈکیتوں اور چوروں سے نہ تو ابھی تک کوئی برآمدگی ہو پائی
ہے اور نہ ہی مدعیان کی حق رسی کی گئی ہے ۔ سب سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ جب
نااہل اور سفارشی لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا جائے گا تو عوام کو ایسے
حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مشرف دور میں ایک اصلاحاتی پولیس ایکٹ 2002
نافذ کیا گیا تھا جس میں ایک اہم شق یہ تھی کہ تمام تھانہ جات میں انسپکٹر
رینک کا بندہ مہتمم تعینات کیا جائے گا، اس کا فایدہ یہ تھا کہ ڈی پی او یا
ڈی ایس پی اس پر دباؤ ڈال کر اپنی من مانی نہیں کروا سکتے تھے ،یونکہ
انسپکٹر ڈی پی او کی بجائے کمشنر کا جوابدہ ہوتا ہے ۔ لیکن تمام تھانہ جات
میں سب انسپکٹر رینک کے بندے مہتمم لگا دئیے گئے ہیں۔ جن سے ڈی پی او اور
ڈی ایس پی جس طرح کا کام چاہیں دباؤ ڈال کر کروا لیتے ہیں۔ اسی طرح موجودہ
حکومت نے نظام پولیس میں چند اصلاحات کیلئے پیش قدمی کی تھی، جس کے خلاف
تمام آئی ایس اور آئی پی ایس رینک کے پولیس اہلکاروں نے ہڑتال کر دی تھی،
حالانکہ ان اصلاحات سے انہیں نہ صرف سماج میں عزت ملتی بلکہ سیاستدانوں کی
غلامی سے بھی جان چھوٹ جاتی۔ لیکن ساتھ ان کی بادشاہی بھی جاتی رہتی۔اگر ہم
مبہم سا جائزہ لیں اور تھانوں کے نظام پر غور کریں تو عیاں ہوتا ہے کہ ہر
تھانہ ایک شاہی دربار ہے اور مہتمم تھانہ اس کا مغل اعظم۔ حکومت وقت اگر
واقعی عوام الناس کو انصاف دہلیز پر دینا چاہتی ہے تو محکمہ پولیس کو ایسا
پروفیشنل بنائیں کہ ہر تفتیشی افسر ہر معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر کبھی
کسی کو مؤرد الزام نہ ٹھہرائے ، حکومت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ اپوزیشن سے
نہیں بلکہ ایسی مغلیہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے جو الیکٹ ایبلز کے ہاتھوں کٹھ پتلی
بن کر عوام میں حکومت مخالف آگ بھڑکا رہی ہے ۔ اور عوام الناس سے درخواست
ہے کہ پہلے اپنے اندر موجود غلامی کا کیڑا ماریں اور شعور حاصل کرنے کیلئے
تگ و دو کریں تاکہ اس ظالم سلطنت کا اختتام ہو سکے ۔
|