پارلیمنٹ کا بہت بڑا فیصلہ

ملکی اداروں میں بلاشبہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ، پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور ملک کے تمام ادارے اور شہری ان قوانین کے مطابق ملک میں زندگی بسر کرتے ہیں ، عمومی طور پر ہمارے سیاستدان اس بات کا شکوہ کرتے نظر آئے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بے توقیر کر دیا گیا ہے ، اللہ کریم نے پارلیمنٹ کو اپنی قوت منوانے کا موقع فراہم کردیا ہے ، پارلیمنٹ نے بہت بڑی قرارداد منظور کر دی ہے کہ فرانس میں توہین رسالت ﷺ کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے ، پارلیمنٹ کی اس قرارداد کی پشت پر پوری قوم کھڑی ہے ، گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اس وقت شدید غم و غصے میں ہے ، حکومت عوامی جذبات کی ترجمانی کرے اور پارلیمنٹ کی قرارداد کے مطابق اگر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دیا جائے تو اس سے ناصرف اللہ کریم راضی ہوں گے بلکہ پوری قوم اپنے زخموں اور دُکھوں کو بھول کر حکومت کے پلڑے میں آگرے گی ، دوسری طرف جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی توہین رسالت ﷺ کے خلاف پورے ہفتے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے ، قائد اہلسنت علامہ احمد لدھیانوی صاحب نے بھی یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے ، قائد خیبر پختونخوا علامہ عطا محمد دیشانی صاحب نے بھی جمعہ 30 اکتوبر کو پورے صوبے میں احتجاج کی کال دے دی ہے ، جس کے بعد یقیناً پورے صوبے میں احتجاجی مظاہرے اور احتجاجی ریلیاں ہوں گی ، کراچی میں بھی جمعہ کو پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوگا ، تحدیث بالنعمت کے طور پر عرض کر دوں کہ الحمدللہ ہم نے بھی اپنے علاقے غلہ منڈی جبھران ضلع شیخوپورہ میں ہم نے 26 اکتوبر کو ظہر کی نماز کے بعد مولانا شفیق الرحمان اسلم صاحب کی قیادت میں احتجاجی ریلی نکال کر اس گستاخی کے خلاف احتجاج کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے ، کچھ نہ ہونے سے کچھ نہ کچھ ہونا بہتر ہے ، جتنے احتجاج کا اعلان ہوا وہ بھی ٹھیک ہے ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ جتنے احتجاج کا دینی جماعتوں یا اپوزیشن نے اعلان کیا ہے اتنا رسمی احتجاج تو حکومت اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کر چکے ہیں ، پاکستان کی پارلیمنٹ کی قرارداد اور ترکی کے صدر کے مصنوعات کے بائیکاٹ کے بیان پر فرانس کی حکومت نے مزید ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں ، سچ یہی ہے کہ فرانس کے صدر میکرون نے ریڈ لائن کراس کی ہے اور اب وہ اس ظلم پر آواز اٹھانے پر پاکستان اور ترکی کی حکومت کو دھمکا رہا ہے ، اس لئے دینی جماعتوں اور اپوزیشن کو رسمی احتجاج سے آگے بڑھنا چاہیے اور اتنا مؤثر احتجاج کرنا چاہیے کہ صدر میکرون کی عقل ٹھکانے آجائے ، یقیناً ربیع الاول کے جلسے ، جلوسوں کے احترام کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں فوری طور پر یہ کال نہیں دی جاسکتی ، لیکن 12 ربیع الاول کے بعد دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث اکابرین کو مل کر باقاعدہ منظم انداز میں ایسی تحریک چلانی ہوگی کہ ہماری حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے پر مجبور ہوجائے ، جمعہ 30 اکتوبر کو 12 ربیع الاول ہے ہر امام مسجد کو چاہیے کہ وہ جمعے کے دن سیرت رسول ﷺ بیان کرنے کے ساتھ ، ساتھ عوام میں اس شعور کو بیدار کرے کے فرانس کی مصنوعات کا عوام مکمل بائیکاٹ کریں ، چھوٹے بڑے دکاندار اپنی دکانوں سے فرانس کی پروڈکٹ ہٹا لیں ، لعنت ، ملامت ہر انسان کو ناگوار گزرتی ہے ، فرانس کے صدر کو بھی یقیناً ناگوار گزرے گی اس لئے ایک عاشق رسول ﷺ ہونے کے ناطے اگر اور ہم کچھ نہ بھی کر سکیں تو سوشل میڈیا پر اس ملعون کے خلاف ایسا شدید ردعمل دیں کہ ساری لعنتیں اور ملامتیں براہ راست اس ملعون تک پہنچ جائیں ، فرانس میں ہونے والی سرکاری سطح پر توہین رسالت ﷺ اگر ہم نے ہضم ہونے دے دی تو آئندہ دیگر حکومتیں اور ریاستیں بھی اسی گھناونے جرم کو پھر دہرائیں گی ، نبی کریم ﷺ کی عزت و ناموس ریڈ لائن ہے کسی کو آیندہ یہ کراس کرنے کی جرات نہ ہو اس کے لئے ہم مسلمانوں کا ردعمل بہت اہمیت رکھتا ہے ، اس لئے سستی نہ کریں ، آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فرانس کے خلاف جتنا شدید ردعمل دیا جا سکتا ہے ، اتنا شدید ردعمل ضرور دیں۔

ایک اور افسوسناک واقعہ 27 اکتوبر 2020 کو یہ پیش آیا ہے کہ پشاور کے ایک دینی ادارے میں بم دھماکا ہوا ہے ، جس میں کم از کم 10 طلباء شہید اور 50 سے ذائد زخمی ہوئے ہیں ، شہداء کی تدفین کردی گئی ، نہ کوئی احتجاج کیا نہ کوئی دھرنا دیا ، میری قوم کی اس سادگی پر قربان جاوں ، پھر میری قوم امید یہ لگا کر بیٹھی ہے کہ 16 دسمبر 2014 جیسا ردعمل حکومت کو دکھانا چاہیئے ، 16 دسمبر 2014 کو جن کے بچے شہید ہوئے ان کے ورثاء نے سخت ردعمل دیا تھا لیکن 27 اکتوبر 2020 کو پشاور میں جو بچے شہید ہوئے ملک بھر کے ان کے ورثاء نے کیا ردعمل دیا ، حقائق تلخ ہیں صرف حکومت کو بُرا کہہ کر سب بری ذمہ ہونا چاہتے ہیں ، شاید ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حصے کا کام بھی حکومت ہی کرے ، ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم نے اپنے حصے کا کام کیا ہے ، حکومتیں بے حس ہی ہوتی ہیں ، انہیں اپنے مسائل کی طرف متوجہ کرنا پڑتا ہے ، اب تک پشاور مدرسے میں سراج الحق صاحب ، مفتی کفایت اللہ صاحب، مولانا حسین احمد جامعہ عثمانیہ اور مولانا معاویہ اعظم صاحب پہنچے ہیں ، اور باقی حضرات نے زبانی کلامی تعزیت کی ہے فقط، اکثر گزشتہ 17 دنوں میں 3 بڑے واقعات ہو چکے ہیں ، 10 اکتوبر کو مولانا عادل خان شہیدؒ ہوئے ، پھر 25 اکتوبر کو فرانس میں صدر میکرون کی ہدایت پر توہین رسالت ﷺ کی گئی اور 27 اکتوبر کو پشاور میں مدرسے کے طلبہ کو خون میں نہلا دیا گیا ، بلاشبہ ملک بھر میں کروڑوں دل چھلنی ہوئے ، اندر ہی اندر کروڑوں لوگ گھٹ رہے ہیں ، تڑپ رہے ہیں ، لیکن کسی نے اپنی آہوں کو چیخیں بنانے کی کوشش نہیں کی ، عملی طور پر ان واقعات کے بعد کوئی امت کی قیادت کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار بھی نظر نہیں آرہا ہے ، اہل حق کے کارواں کے ساتھ جو ہو رہا ہے میر کارواں جو بھی ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ اکابرین ملت کے ساتھ مل کر مستقبل کا کوئی لائحہ عمل بنائیں ، اگر سانحات پر سانحات ہوتے رہے اور ماحول میں یہی خاموشی چھائی رہی تو اہل حق کا نوجوان طبقہ مایوسی میں ڈوب جائے گا ، اس لئے اکابرین ملت فکر کریں ، کسی پر تنقید نہیں کسی کی تنقیس نہیں ، بس درد دل ہے ، 11 ستمبر 2001 کے بعد جو حادثات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، ان 20 سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے ، پاکستان کا اہل حق طبقہ مزید کسی حادثے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 32913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.