مولانا احمد شہزاد قاسمی
انسانی تاریخ میں ہزارہا ایسے افراد گزرے ہیں جنہوں نے کم عمری میں نام
کمایا لیکن جلد ہی دارِ فانی سے حیاتِ جاودانی کی جانب کوچ کر گئے - سکندر
اعظم نے کوئی تیس برس کی عمر میں ایک ایسی سلطنت قائم کر لی تھی جو دنیا کی
عظیم سلطنتوں میں شمار کی جاتی ہے لیکن وہ تینتیس برس کی عمر میں دنیا سے
گزر گیا -
صحافت کی تاریخ میں بھی ایسے بہت سے اہلِ قلم اور جفا کش انسان گزرے ہیں جن
کے لئے کاتبِ تقدیر نے مختصر وقت کی مہلت لکھی تھی اگر وہ جیتے تو شاید
صحافت کے دامن کو اور باثروت کرت
آئیے ایسے ہی ایک جواں مرگ حساس دل صحافی کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں
اردو وانگریزی کے نوجوان صحافی "شمس تبریز قاسمی"کے چھوٹے بھائی "قیصر
صدیقی" جس کے لئے اللہ نے عمر کی صرف چوبیس بہاریں ہی لکھی تھی بہار کے
سیتا مڑھی ضلع کے "رائے پور" میں پیدا ہوئے وہیں نشو ونما پائی ابتدائی
تعلیم گاؤں کے مدرسہ رشیدیہ میں اور مقامی اسکول میں حاصل کی اس کے بعد
رائے پور ہائی اسکول اور "گوئینگا میڈیکل کالج" سے گریجویشن مکمل کیا اور
ایم اے (ماسٹر آف آرٹ) کے مرحلہ تک پہنچ کر تعلیمی سلسلہ جاری تھا کہ اچا
نک ان کا وقت موعود آ پہنچا اور وہ غم سے نڈھال باپ اور بلکتی سسکتی ماں ہی
نہیں بھائیوں بہنوں اور سینکڑوں دوستوں کو سوگوار چھوڑکر اللہ کو پیارے
ہوگئے
بہار سے دہلی تک اپنی تعلیمی سماجی وصحافتی سر گرمیوں کے دوران انہوں نے
مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی سے صحافت کا نصاب بھی مکمل کر لیا تھا اور
صحافت کے میدان میں باقاعدہ عملی طور پر اتر چکے تھے اور تا دمِ مرگ انہوں
نے صحافت میں اپنا اچھا مقام بنا لیا تھا اور اپنے حلقہ میں کا فی مقبول
تھے قلم اور کیمرہ کے ذریعہ متعدد مسائل کو اٹھا یا اور لوگوں تک سچی اور
با معنی خبریں پہنچانے کا ذریعہ بنے
مین اسٹریم میڈیا میں جن مسائل کو غیر اہم سمجھ کر یا اقلیتوں سے منسوب ہو
نے کی بنا پر چھوڑ دیا جاتا ہے یا غیر ضروری طور پہ اچھا لا جاتا ہے ایسے
ہی مسائل کو درست طریقہ سے پیش کر نے اور اربابِ حل وعقد کی توجہ درست سمت
میں منعطف کرانے کے لئے قیصر صدیقی نے نیوز پورٹل "ملت ٹائمز" ہندی ورژن کی
باگ ڈور سنبھالی تھی اور وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کا میاب بھی رہے
تھے
ملت ٹائمز (نیوز پورٹل اردو) کی کا میا بی کے بعد قیصر صدیقی نے اس کا ہندی
ورژن شروع کیا اور اپنی محنت لگن اور اخلاص سے ہندی ورژن کو بھی اردو کی
طرح مقبول اور دلچسپ بنادیا انہوں نے ایک ٹیم بنائی دوستوں کو جوڑا اور
نوجوان ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملی جذبہ سے سر شار ہوکر ملت ٹائمز کے ہندی
اردو اور انگلش ورژن کو سنوار نے کے ساتھ ساتھ اس کے فیس بک پیج یوٹیوب
چینل اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارم سے اپنے بڑے بھائی شمس تبریز قاسمی
کے مشن ( مسلمانوں کا اپنا میڈیا ہاؤس یا اس کا متبادل) کو آگے بڑھانے میں
ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اس کی موت نے کم ازکم مجھے تو اس احساس میں
مبتلا کردیا کہ "ملت میڈیا ہاؤس " کا ایک بازو ٹوٹ گیا
قیصر صدیقی خوبرو صاف گو منکسر المزاج اور حساس دل نوجوان تھا وہ ناخواندہ
کمزوروں مفلسوں اور بے کسوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھتا تھا اور چاہتا تھا
کہ معاشرہ میں ایسے نوجوانوں کی بہتات ہو جو ملت کی ناخوا ندگی پسماندگی
اور بےچارگی کو دور کر نے میں معاون ومددگار ہوں اس کے لئے اپنے دوستوں کے
ساتھ مل کر کوششیں جاری کی ہوئی تھیں کہ رب کائنات نے انہیں اپنی آغوش میں
لے لیا
اس سلسلہ کی ابتدائی کوششوں میں اپنے گاؤں میں انگلش اسپیکنگ سینٹر کا قیام
اور اطراف کے لوگوں کی ریلیف وغیرہ کے ذریعہ مدد کرنا اور حتی الامکان ان
کی ضرورتوں کو پورا کرنے جیسی بہت سی خصوصیتیں ان کو دوسروں سے الگ کرتی
تھیں
عام طور سے گاؤں کے لوگ سرکاری اسکیموں سے ناواقف رہتے ہیں جس سے وہ خاطر
خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے
قیصر صدیقی دوستوں کے ساتھ مل کر ایسی کتنی ہی ضرورتوں کو پورا کر نے میں
ان کا سہارا بنتا تھا
ایسے بلند اخلاق اور اعلی کردار نوجوان کی موت کی خبر نے ہزاروں افراد کو
حیرت میں ڈالدیا اور سینکڑوں افراد کو احساسِ یتیمی میں مبتلا کردیا اور
اپنے بھائی کو تو حقیقت میں ہی یتیم کر گیا وہ اس کا علمی صحافی اور سماجی
سہارا بن چلاتھا اس سے طرح طرح کی توقعات اس نے یقینا قائم کر لی ہونگی اور
وہ جیسی صلاحیتوں سے بہرہ ور تھا نہ صرف بھائی کے صحافتی ومیڈیائی خاکوں
میں رنگ بھر سکتا تھا بلکہ خود بھی ایک نئی راہ کھول سکتا تھا
ایسے جواں مرگ کی موت پر صبر ورضا کا دامن تھامے رکھنا بھی رب غفور ورحیم
کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں
رب کریم سے دعا ہے کہ تمام اہل خانہ متعلقین اور دوستوں کو مقامِ رضا
وتسلیم پر ثابت قدم رکھے (آمین)
24اکتوبر صبح گیارہ بجے اس نوجوان کی حرکتِ قلب بند ہو گئی اور موت نے اس
کو اپنے لئے منتخب کر لیا اگلے روز بھائی نے نمازِ جنازہ پڑھازئی اور اور
سپرد خاک کردیا گیا فاناللہ وانا الیہ راجعون
|