ہر چیز انمول ہوتی ہے

بے شک میرا یہ آرٹیکل چند سال پرانا ہے لیکن ہر چیز اس لیے انمول ہوتی ہے کہ جب وہ پاس نہیں ہوتی تو اس کی قیمت کا بخوبی احساس ہوتا ہے ۔ کہنے کو فریج اور ریفریجٹر اب ایک عام سی چیز بن چکی ہے اور ہر گھر میں بخوبی پائی جاتی ہے لیکن جب یہ میرے پاس نہیں تھی تو مجھے کس قدر مشکلات کا سامناکرنا پڑتا تھا اور جب وہ فریج میرے پاس آیا تو مجھے کتنی سہولت اور آسانی میسر آئی ۔ یہ آرٹیکل بطور خاص ان دوستوں کی نذر ہے جن کو ایسے حالات سے واسطہ پڑ ا ۔
***************
گرمیوں کی دوپہر ہو شدت کی پیاس لگی ہوئی تو انسان کس چیز کی تمنا کرتا ہے یقینا ٹھنڈے پانی یا مشروب کی ہی جستجو ہوتی ہے لیکن جب گھر میں ٹھنڈا پانی اور برف بھی میسر نہ ہو تو عام پانی پینے کے باوجود تسکین حاصل نہیں ہوتی پیٹ بھرنے کے باوجود ہونٹ خشک ہی رہتے ہیں بلکہ شدت اور بھی بڑھ جاتی ہے ان کیفیات کی سنگینی کا احساس وہی شخص کرسکتا ہے جس کو آگ برساتی ہوئی گرمی میں پیاس کی شدت نے نڈھال کر رکھا ہو-

کچھ ایسی ہی صورت حال کا مجھے اور میرے خاندان کو اس وقت سامنا کرنا پڑا جب والدین سے علیحدگی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا یہ 1985 کا سال تھا گھر کو روشن کرنے اور کسی حد تک پنکھے کی ہوا لینے کے لئے بھی بجلی پڑوسیوں سے مستعار لینی پڑتی تھی جنہوں نے صرف ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے کی اجازت دے رکھی تھی مالی حالات اس قدر خراب تھے کہ خود اپنے گھر میں بجلی لگوانے اور فریج لینے کی تمنا تو کی جاسکتی تھی لیکن اس تمنا کو پورا کرنے کے لئے وسائل موجود نہیں تھے حسن اتفاق سے ان دنوں ہر صبح مجھے دہی کی لسی پینے کی جستجو رہتی اور لسی اس وقت تک مزے دار نہ بنتی جب تک اس میں معقول مقدار میں برف نہ ڈال لی جاتی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان دنوں محلے میں بھی صرف ایک یا دو گھروں میں ہی فریج موجود ہوگا اور جن چند گھروں میں یہ سہولت حاصل تھی ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی جرات کسی کو نہیں ہوا کرتی تھی -

چنانچہ کسی کی محتاجی سے بچنے کیلئے بازار سے ہم نے برف کی آدھی پٹی لگوا لی یوں تو برف فروخت کرنے والا باقاعدگی سے آدھی پٹی برف ہمیں دے جاتا تھا لیکن برف اس وقت گھر آتی جب لسی بنا کے ہم پی چکے ہوتے پچھلے دن کی برف کو چوبیس گھنٹے تک بچا کے رکھنا ناممکن تھا کیونکہ گرمیوں میں سردیوں کی نسبت برف کی پٹی انتہائی پتلی اوراپنے وجود کو زیادہ دیر شدید گرمی اور حدت کی وجہ سے برقرار نہیں رکھتی یہی وجہ تھی کہ مالی حالات درست نہ ہونے کے باوجود ذہن میں فریج لینے کی آرزو نہ صرف پیدا ہوتی چلی گئی بلکہ ایک دن ایسا بھی آیا جب ہم دونوں میاں بیوی فریج خریدنے کے لئے سنجیدگی سے سوچنے لگے -

میں سمجھتا ہوں کہ قدر ت کا یہ مجھ پر بڑا احسان ہے کہ میرے عزیز و اقارب اور دوست احباب مشکل کی ہر گھڑی میں میرے ہمرکاب ہوجاتے ہیں ان کے گراں قدر تعاون کی بدولت ہی میں اپنی خواھشات کو بآسانی عملی روپ دے پاتا ہوں -تمام تر جستجو کے باوجود 1985 کا سارا سال شدت پیاس ٗ بازاری برف کی کمیابی میں ہی گزر گیا فریج نہ ہونے کی وجہ سے چند اور مسائل بھی ہمیں درپیش تھے گرمیوں میں سالن کو صحیح حالت میں برقرار رکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا والدہ کے گھر میں تو لوہے کی تاروں سے بنا ہوا ایک پیالہ موجود تھا جس میں رات کا پکا ہوا سالن برتن میں رکھ کر اسے کھلی فضا میں کسی بھی سہارے لٹکا دیا جاتا تھا جو کسی حد تک محفوظ رہتا لیکن کبھی کبھارسالن خراب ہونے کی وجہ سے اگلی صبح ناشتہ سالن کی بجائے گڑ کی بنی ہوئی چائے سے کرنا پڑتا چونکہ زیر تعمیر گھر میں اس قسم کی سہولت بھی میسر نہ تھی اس لئے سالن کو اگلی صبح کے لئے بچا کر رکھنا بھی محال تھا جب بھی سالن خراب ہوجاتا تو بیگم کی زبان سے یہی الفاظ سننے کو ملتے اگر گھر میں فریج ہوتا تو یہ سالن خراب نہ ہوتا چونکہ ان دنوں میری ماہانہ تنخواہ کا زیادہ تر حصہ قرض کی ادائیگی اور کمیٹیوں میں خرچ ہوجاتا تھااس لئے تنگ دستی کے اس ماحول میں فریج خریدنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا بہرکیف انسان جب صدق دل سے جستجو کرتا ہے تو اﷲ تعالی بھی اس کی مدد کرتا ہے -

1986 کا سال اس لئے خوش نصیب تھا کہ ابتدائی مہینوں میں ہی ہم فریج خریدنے کے لئے عزیز و اقارب کے تعاون سے پیسے اکٹھے کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے تھے چونکہ اس وقت اتنی بڑی تعداد میں فریج نہ تو فروخت ہوتے تھے اور نہ ہی ہر انسان اسے خریدنے کی جستجو رکھتا تھا میں ان دنوں ایوان ادب اردو بازار لاہور میں جزوقتی کام کرتا تھا ایوان ادب میں ہی یوسف علی صاحب بطور منتظم ملازم تھے جب میں نے ان سے فریج لینے کے حوالے سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ میرا بھتیجا ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر لاہور میں فریج سیکشن کاانچارج ہے اگر آپ فریج لینا چاہتے ہیں تو اس سے مشور ہ کرلیں وہ نہ صرف آپ کو کوالٹی کے اعتبار سے اچھے فریج کا نام بتائے گا بلکہ ممکن حد تک اس کی خریداری میں مدد بھی کرے گا - میں نے یوسف صاحب کے مشورے پر آمادگی ظاہر کردی تو چند ہی دنوں بعد ایوان ادب میں یوسف صاحب کے بھتیجے محمد ایوب ( سانولا سلونا سا نوجوان ) سے ملاقات ہوئی میں نے تمام صورت حال اس کے سامنے رکھ دی اس نے مجھے بتایا کہ نیشنل کا ایک نان فرسٹ 12 کعب فٹ کا فریج فروخت کے لئے موجود ہے جو صرف چند مہینے چلاہے لیکن بہترین حالت میں ہے اگر آپ لینا چاہتے ہیں تو بات آگے بڑھائی جائے - ماہر فریج ہونے کی بنا پر میں چونکہ محمد ایوب پر مکمل بھروسہ کررہا تھا ا س لئے میں نے آمادگی کا اظہار کردیا محمد ایوب نے میری رضا مندی حاصل کرکے فریج کے مالک سے بات کی جس کے بعد 9600 روپے کے عوض فریج ہم نے خرید کرلیا جب یہ فریج گھر میں آیا تو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے محلے میں عید کا سماں ہو ارد گرد کے تمام رہنے والے اس لئے خوش تھے کہ برف کے لئے اب انہیں بازار نہیں جانا پڑے گا اور جب بھی انہیں ضرورت ہو ئی ہمارا فریج ان کی ضرورت پوری کرے گا میری بیگم چونکہ ابتدا سے ہی نہایت ملنسار واقع ہوئی ہیہ دوسروں کے دکھوں اور پریشانیوں کے لئے وہ ہمیشہ ہمہ تن گوش رہتی ہے اس کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ اگر اس کی وجہ سے کسی کی کوئی ضرورت پوری ہوتی ہو تو وہ کبھی ہچکچاتی نہیں بلکہ برف سمیت باورچی خانے کی چیزوں تک کے لئے لوگوں کی مدد کرتی ہی رہتی ہے مجھے یاد ہے کہ فریج آنے کے بعد جہاں چوبیس گھنٹے ہمیں ٹھنڈا پانی اور برف میسر آنے لگی وہاں صبح اور شام کے علاوہ گرمیوں کی دوپہر جب ہم سب لوگوں گہری نیند سو رہے ہوتے تو کوئی نہ کوئی برف لینے والا ہمارے دروازے پر اس وقت تک دستک دیتا رہتا جب تک ہم آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھول نہ دیتے چونکہ مسلسل دروازہ کھٹکھٹانے کی بنا پر میری نیند بھی خراب ہوجاتی اور میں یہ کہنے پرمجبور ہوجاتا ہے کہ کم ازکم دوپہر کے وقت تو برف دینے کا سلسلہ روک لیا کرو یہ وقت ہمارے آرام کا ہے لیکن بیگم کے ماتھے پر میں نے کبھی شکن نہ دیکھی بلکہ پہلے جیسی خوش مزاجی ہی ماتھے پر سجائے وہ بڑی محبت سے اٹھ کر برف ٗ برتنوں سے نکال کر مانگنے والوں کے سپرد کردیتی بیگم کی خوش مزاجی اور کشادہ دلی کا یہ سلسلہ ایک دن ٗ ایک مہینے یا ایک سال تک جاری نہیں رہا بلکہ دس بارہ سالوں تک لوگوں نے بھرپور استفادہ کیا بیگم نہ صرف برف ضرورت کے وقت دیا کرتی تھی بلکہ اکثر لوگ اپنا پکا ہوا سالن بھی ہمارے فریج میں رکھنا اعزاز تصور کرتے تھے عیدالاضحی پر تو ہمارے فریج کا بالائی حصہ کئی کئی ہفتے لوگوں کے قربانی کے گوشت سے ہی بھرا رہتا اور اگر کسی کو مجبورا یہ کہہ دیا جاتا کہ فریج میں اب مزید گوشت رکھنے کی جگہ نہیں بچی تو وہ اگلے پچھلے تمام احسانات کو فراموش کرکے برا سا منہ بنا کے ایسے چل دیتا جیسے اس کی ضرورت کبھی پوری نہ کی گئی ہو -

بہرکیف فریج کے بغیر لمحہ لمحہ جتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا گھر میں اس کے آنے کے بعد وقت پر لگا کر اڑنے لگا کیونکہ ضرورت کے ہر لمحے فریج نے نہ صرف ہماری ضرورت کو کماحقہ پورا کیا بلکہ بار بار خراب ہونے کی زحمت سے بھی بچائے رکھا 22 سالوں کی رفاقت کے دوران صرف دو تین مرتبہ اس میں گیس بھروانی پڑی جس کے بعد اس کی کارکردگی ایک بار پھر پہلے جیسی ہوگئی گزشتہ سال سے شاید گیس میں کمی واقع ہوگئی تو بیگم کے دل میں یہ خیال پختہ ہونے لگا کہ اب یہ فریج بوڑھاہوگیا ہے اور اس سے مطلوبہ سہولتیں حاصل کرنا اب ممکن نہیں رہا اس لئے نئے فریج کی خرید کی خواہش دل میں جنم لینے لگی بلکہ بیگم نے فریج خریدنے کے لئے اپنی کاوشوں سے پیسے بھی اکٹھے کرلئے پچھلا سال تو ٹال مٹول میں گزر گیا لیکن اس سال سردیوں میں ہی نئے فریج کی خرید کی خواہش بیگم کے دل میں کروٹیں بدلنے لگیں جبکہ میرا موقف تھا کہ پرانا فریج جب ہماری ضرورتیں پوری کررہا ہے تو پھر نیا فریج لینے کی کیا ضرورت ہے لیکن بیگم جب کوئی کام کرنے کو ٹھان لیتی ہے تو پھر اس کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتا ہے چنانچہ 14 کعب فٹ کا ڈاؤلینس فریج 24 ہزار روپے کا خرید کرلیا گیا جب نیا فریج گھرآیا تو پرانے فریج کو ایک جانب کرکے بند کردیا گیا اور پروگرام یہ بنا کہ اس فریج کو فروخت کردیا جائے جو بھی رقم اس کی فروخت سے حاصل ہو اسے دیگر کاموں کی انجام دہی میں بروئے کار لایا جائے مجھے یاد ہے کہ گزشتہ سال بھی مشتاق احمد خان اور ملک عبدالرزاق کے توسط سے اس فریج کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن میرے انکار کی وجہ سے یہ سودا پروان نہ چڑھ سکا لیکن اس بار میں نے فروخت کرنے کی کوشش سے پہلے ہی یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ مستقبل میں بچوں کی شادیوں کے بعد ہماری ضرورتیں بڑھ جائیں گی چنانچہ یہی فریج ہمارے کام آسکتا ہے جب تک اس کی ضرورت نہیں پڑتی اسے بند کرکے رکھ دیا جائے کیونکہ میں 22 سالہ رفاقت والے فریج کو نظروں سے اوجھل نہیں کرسکتا سچی بات تو یہ ہے مجھے اپنی ہر چیز سے اتنا پیار ہے کہ اسے چھوڑنا میرے لئے مسئلہ بن جاتا ہے یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے اوائل جوانی میں اپنے گھر کے سامنے ایک پیپل کا ننھا سا پودا اس لئے لگایا تھا کہ جب وہ بڑھ ہوجائے گا تو اس کے سائے میں میرے خاندان کے لوگ نہ صرف بیٹھیں گے بلکہ گرمیوں کی دوپہر اس کے سائے میں گزارہ کریں گے -30 سالوں کے بعد جب وہ قدآور درخت کا روپ دھار کے سایہ دار بن گیا تو وہ گھر چھوڑنے کے باوجود اس پیپل کے درخت سے میری محبت کم نہ ہوئی بلکہ جب بھی میں والدین کے گھر جاتا اور نماز کی ادائیگی کے لئے قریبی مسجد میں جانے کے لئے وہاں سے گزرتا تو چند لمحوں کے لئے پیپل کے روبرو کھڑا ہوکر اسے پیار سے دیکھتا رہتا پھر جب ہوا کے جھونکے سے اس کے پتے مستی سے جھوم رہے ہوتے تو میں یہی تصور کرتا کہ وہ مجھے دیکھ کر خوش ہورہے ہیں -

انہی کیفیات کو دل میں لئے وقت تیزی سے گزر رہا تھا لیکن ایک منحوس رات ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے طوفان باد باراں آیا جس نے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ سینکڑو ں درخت بھی جڑ سے اکھاڑ دیئے ان اکھڑنے والے درختوں میں میرا وہ پیپل بھی شامل تھا جسے میں اپنے بڑے بیٹے سے تشبیہ دیا کرتا تھا سچ تو یہ ہے کہ اس پیپل کے درخت کی جدائی نے مجھے کئی دنوں تک بخار میں مبتلا کئے رکھااب بھی جب میں وہاں سے گزرتا ہوں تو اینٹوں سے بنا ہوا حصار اس پیپل کی یاد دلاتا ہے جہاں وہ سر تان کے کبھی کھڑا ہوا کرتا تھا حالانکہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا مذہب دوسرے جنم کا تصور نہیں رکھتا لیکن حیرت انگیز طور پر کوارٹروں میں لگے ہوئے پیپل کے جڑ سے اکھڑنے کے بعد میرے گھر میں یکے بعد دیگر ے دو پیپل نمودار ہوچکے ہیں ایک سیڑھیوں پر اور دوسرا چھت پر - میرے بچے ننھے سے ان پودوں کو اکھاڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے بقول پیپل کی جڑ یں بہت دور تک پہنچ جاتی ہیں لیکن میری رائے ان سے یکسر مختلف ہے اب بھی میں ہر صبح و شام ان کو نہایت محبت سے دیکھتا ہوں کہ اﷲ تعالی نے ایک کے بدلے دو پیپل مجھے عطا کردیئے ہیں -

اس میں شک نہیں کہ اﷲ تعالی نے مجھے نہایت رحم دل پیدا کیا ہے مجھ سے نہ تو کسی کی تکلیف دیکھی جاتی ہے اور نہ ہی کسی کو تکلیف میں مبتلا کرسکتا ہوں زندگی میں ہمیشہ میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف یا دکھ نہ پہنچ جائے آپ حیران ہوں گے 24 سالوں سے خاندان سے الگ قربانی دے رہا ہوں لیکن بکرا یا دنبہ لینے کی جرات اس لئے نہیں ہوئی کہ اسے ذبح ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا حالانکہ ہمارے دین میں افضل ترین عمل یہ ہے کہ بکرے یا قربانی کے کسی بھی جانور کو پہلے اچھی طرح پرورش کرلیا جائے مانوس ہونے کے ساتھ ساتھ جب وہ جوان ہوجائے تو اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا جائے - کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اپنا حقیقی بیٹا اپنے ہاتھ سے قربان کرنے کی رسم ڈالی تھی یہ تو الگ بات ہے کہ اﷲ تعالی نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو محفوظ رکھتے ہوئے ان کی جگہ آسمان سے دنبہ اتار دیا جو چھری حضر ت اسمعیل علیہ السلام کے گلے پر پھرنی تھی وہی چھری دنبہ کی گردن پر چل گئی اگر ایسا نہ ہوتا تو اولاد کو قربان کرنا کس کے بس میں تھا بہرکیف میں تو وہ شخص ہوں جو کبھی چکن کاگوشت لینے بھی چلا جائے تو گوشت کا آرڈر دے کر خاصے فاصلے پر اس لئے کھڑا ہوجاتا ہوں کہ قربان ہونے سے پہلے مرغا ایک مرتبہ مجھے ضرور دیکھے گا اور دل ہی دل میں پوچھے گا کہ میں نے تمہار ا کیا قصور کیا ہے جو مجھے قربان کرانے کے لئے آگئے ہو اسی نقطہ نظر سے میں نے کبھی مرغیوں کے خونچے کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا -

بے شک فریج نہ تو جاندار ہے اور نہ ہی اس کی فروخت سے میرے عمیق جذبوں کو کوئی خطرہ لاحق تھا اس کے باوجود ا س کی فروخت پر مجھے اس لئے اعتراض تھا کہ 22 سال جس جگہ اس فریج کو دیکھا اس سے بھرپور استفادہ کیا جب وہ اپنی جگہ موجود نہیں ہوگا تو یقینا اس کی کمی شدت سے محسوس ہوگی حسن اتفاق سے ایک دن میرا بھائی ارشد کسی کام کے سلسلے میں گھر آپہنچا نئے فریج کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی بھابی سے کہا کہ پرانا فریج کتنے پیسوں میں فروخت کرنا ہے اس نے نہایت محبت سے جواب دیا اسے فروخت نہیں کرنا اگر تمہیں چاہیے تو مفت میں لے جاؤ کیونکہ تمہارے بھائی نے اس فریج کو غیروں کے ہاتھ فروخت کرنے سے منع کررکھا ہے اور جب فروخت نہیں کرنا تو تمہیں کیوں پیسوں کے عوض دیا جائے جب دیور بھائی کے درمیان بات ہوگئی تو بیگم نے مجھے بتایا کہ فریج ارشد خریدنا چاہ رہا تھا لیکن میں نے اسے مفت اٹھانے کے لئے کہہ دیا ہے یہ سنتے ہی مجھے اس لئے خوشی ہوئی کہ ایک جانب فریج میرے بھائی کے گھر جائے گا تو دوسری طرف ان کے گھر یہ فریج ہمیشہ مجھے نظر آتا رہے گا اور اس کی موجودگی اور 22 سالہ والہانہ رفاقت مجھے اپنی چاہتوں سے نوازتی رہے گی - اب جبکہ فریج میری ماں کے گھر میں چھوٹے بھائی کے استعمال میں ہے تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ میرے ہی آنگن میں پہلے کی اپنی چاہتوں اور محبتوں سے مجھے نواز رہا ہے - جس کی چاہت کا احساس گزشتہ بائیس سالوں سے قدم قدم پر ہوا کرتا تھا -

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 785505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.