ڈاکٹر غلام شبیررانا
تکلم کے سلسلوں میں ہمارا واسطہ تین قسم کے کلمات سے پڑتاہے ۔
اسم : سب سے پہلے تو ایسے کلمات ہیں جوگنجینہ ٔ معانی کے طلسم کی صورت میں
وقت کے دست گیری کے بغیر تنہااپنی افادیت کا لوہا منو الیتے ہیں۔مثلاً احسن
،شیر،زمین ،فلک ،کوہسار ،آبشار وغیرہ۔ایسے کلمات کو اسم کہا جاتاہے ۔
فعل: یہ کلمے کی ایسی قسم ہے جو بلا شبہ تنہا اپنے معنی دینے کی صلاحیت
رکھتاہے مگر اس میں کسی زمانے ( ماضی ،حال ،مستقبل) کی موجودگی نا گزیر ہے
۔
حرف : سب حروف تنہا اپنے معنی دینے سے قاصر ہیں ۔حروف محض تعلق یا ربط کے
اظہار کے لیے استعما ل کیے جاتے ہیں مثلاً سے ،کو ،نے ،پر ،تک،کا وغیرہ۔
تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک
دکنی اور اردو میں بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی تین قسمیں ( جامد ،مصدر ،مشتق )
ہیں :
جامد : یہ اسما کسی دوسرے اسم سے نہیں نکلتے اور نہ ہی ان سے کوئی دوسرا
اسم نکلتاہے مثالیں : شیر ،لنگو ر ،نیزہ ،تلوار ،ڈھال،
مشتق : یہ کسی دوسرے کلمے سے نکلتے ہیں اور دوسرے الفاظ سے الفاظ کے اشتقا
ق کا عمل سدا جاری رہتاہیمثلاً: پڑھنا سے پڑھنے والا
مصدر : قواعد کے مطابق مصادر سے مزید الفاظ بر آمد ہوتے ہیں جیسے : دوڑنا
سے دوڑا،چلنا سے چلا وغیرہ۔
اسم حالیہ
یہ اسم فاعل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرتا ہے اوراس میں فعل کے معنی موجود
ہوتے ہیں ۔اسم حالیہ کی تشکیل کے لیے مصدر کی علامت ’نا‘کو ہٹا کر اُسے’تا‘
سے بدل دیا جاتا ہے اور دکنی میں ’نا ‘ یا ’ن‘ کے بجائے ’ تا ‘ مستعمل ہے
جیسے احسن مسکراتا جاتا تھا۔اسم حالیہ کی چند مثالیں اردو اور دکنی سے علی
الترتیب درج ذیل ہیں :
گزر جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشورا ہو جائے
یہی جی میں آیا کہ گھر سے نکل
ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل
ہنستے ہنستے تو کیا قتل گنہگاروں کو
رو دیا دیکھ کے زِنداں خالی
دکنی زبان میں اسم حالیہ کی مثالیں درج ذیل ہیں :
لہلہاتے چمن کے جھاڑاں پر
آئی ہے پُھول پھل ھور بار خوشی
(غواصی ؔ)
اُنو آویں تو پردے سے نکل کر بہار بیٹھوں گی
بہانہ کر کے موتیاں کاپروتی ہار بیٹھوں گی
(غواصی ؔ)
اشتیاقی زُلف کی دھر دوڑتے آیا ہوں میں
جوں مسافر چین کا کرتا ہے منزل طے ہزار
(بحری ؔ)
ہنس چال لے پیا تئیں آتے لٹکتے دیکھی
پرد ا نیں میانے راکھوں نہ تو تیا کا
(شاہی ؔ )
مرکب اضافی میں اسم فاعل ،اسم مفعول اوراسم حاصل مصدر عام اسم کے مانند
مستعمل ہیں۔
اردو :جیتے ہوئے کا جلوس ، دوڑ کا بیل ، کتاب کا لکھنے والا ،بیل کی دوڑ ،
رات کا بچا ہوا کھانا ۔
دکنی : جیتن والے کا جلوس، بھاج کا بیل ، کتاب کا لکھن ولا ، بیل کی بھاج ،
رات کا بچیا کھانا۔
بادشاہاں کا کام دِل جوڑنا ہے ( ملاوجہی ؔ)
اس کتاب کا ناؤں ’سب رس‘ سب کو پڑھنے آوے ہوس۔ ( ملاوجہی ؔ)
مرکب امتزاجی میں ارد و اور دکنی دونوں زبانوں میں فعلی ٹکڑے باہم امتزاج
سے کئی مرکبات تشکیل دیتے ہیں۔ مرکب امتزاجی کی مثالیں درج ذیل ہیں:
بٹ مار ،ہری چگ ،کفن چور ،کن ٹُٹا،چڑی مار ،بھڑ بھونجا ،کپڑ چھن ،منھ توڑ
،دیس نکالا ،رس بھری وغیرہ ۔
مرکب تام یا مفید یا جملہ
دو یا دو سے زیادہ کلمات کا اس طرح ملاپ کے معانی کی مکمل ترسیل یقینی ہو
جائے جملہ کہلاتا ہے ۔ جملے کی تشکیل کے لیے اہم ترین اور اولین شرط یہ ہے
کہ اس میں کم از کم دو کلمے موجود ہوں ۔اردو اور دکنی میں جملہ دو کلموں سے
کم نہیں ہوتا ۔ بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ کلموں کاایسا مجموعہ جس
سے پورا مطلب واضح ہو جائے اُسے مرکب تام یا جملہ کہتے ہیں۔جملہ کم از کم
دو الفاظ سے مرکب ہوتاہے تاہم جہاں محض ایک لفظ موجو دہو وہاں دوسرے لفظ کو
محذوف سمجھنا چاہیے ۔مثلاً’ آؤ ،جاؤ ، کھاؤ ، پیو ، پڑھو،لکھو ۔یہاں اگرچہ
ایک لفظ موجود ہے مگر ان کا فاعل ’ تم ‘ حذف کر دیا گیا ہے ۔حقیقت میں یہ
اس طرح ہیں : تم آؤ ،تم جاؤ ،تم کھاؤ،تم پیو،تم پڑھو ،تم لکھو۔ مرکب تام کو
جملہ یا مرکب مفید بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی سماعت سے سامع کے ذوقِ سلیم کی
کامل تسکین کی صورت پیدا ہوتی ہے اور وہ اس سے بھر پور استفادہ کرتا ہے۔
مثلاً
جاں لگن بھلاآدمی ہے واں لگن خوار ہے ( ملا وجہیؔ)
بندیاں کوں خبر دینا صدق نبوت ہے ( خواجہ بندہ نوازگیسو دراز)
جملے کی اقسام :
اردو اور دکنی میں جملے کی دو قسمیں ہیں :
1۔ جملہ خبریہ : ایسا جملہ جسے صداقت پر مبنی یا کذب کی مثال کہا جا سکے۔
مثلاً ’ وہ آ گیا ہے ۔ وہ نہیں آ یا ہے ،میں کل سے تمھاری راہ دیکھ رہا ہوں
۔
دکنی: وو آ وا اہے ،وو نکو آوا اہے ۔
2۔ جملہ انشائیہ : ایسا جملہ جس کی صداقت یا کذب کے بارے میں کچھ نہ کہا جا
سکے ۔
اردو : تم کل یہاں مت آنا ، بادبا ن کا سہارا کیوں ٹُوٹنے والا ہے ؟
یاالٰہی یہ ماجراکیا ہے۔
دکنی: تُوں یہاں مت آنا ،آوار کا آدھار کیوں ٹُٹن والا اہے ؟
جملہ انشائیہ کی بارہ قسمیں ہیں۔
۱ ۔ امر ۲۔ نہی ۳۔ استفہام ۴۔ تعجب ۵۔ تحسین ۶۔ انبساط
۷۔ نِدا ۸۔تاسف ۹۔ قسم ( حلف ) ۱۰۔ عرض ۱۱۔ تمنا ۱۲۔تنبیہہ
جملہ خبریہ کی قسمیں
جملہ خبریہ کو جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ دو اقسام میں زیر بحث لایا جاتا
ہے۔سب سے پہلے جملہ اسمیہ کی کیفیت پرغور کیا جائے گا :
(الف ) جملہ اسمیہ
ا یسا جملہ جو بہ جائے خود اسم کا کام دے وہ جملہ اسمیہ کہلاتا ہے۔جملہ
اسمیہ کا تعلق خبر سے ہوتا ہے اور اس کا آغاز حر ف’’ کہ ‘‘ سے ہوتا ہے
۔مثال ’’ اختر نے کہا کہ میں علیل ہوں ‘‘ جس کے اجزا میں میں ایسا تعلق ہو
جو کلام کی تکمیل کرے یعنی سامع کو اِس سے فائدہ تام میسر ہو اور کسی مزید
بیان کی احتیاج نہ رہے ۔ کوئی بھی جملہ ہو اُس کے اجزا میں اس نوعیت کاتعلق
موجود ہوتا ہے جس سے کلام کی تکمیل ہوتی ہے گویا سامع کواُس سے فائدہ تام
حاصل ہوتا ہے اور اسے مزید بیان کی احتیاج نہیں رہتی ۔اس تعلق کو اسناد
کہتے ہیں جس چیز کا تعلق ہو اسے مسند اور جس چیز سے تعلق ہو اسے مسند الیہ
کہتے ہیں۔مسند الیہ ہمیشہ اسم ہوتا ہے اور مسند اسم بھی ہوتا ہے لیکن دونوں
میں سے کوئی حرف کبھی نہیں ہوتا ۔اس کا سبب یہ ہے کہ حروف مسند الیہ یا
مسند کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔وہ جملہ جس میں مسند الیہ اور مسند دونوں اسما
موجود ہوں وہ جملہ اسمیہ کہلاتا ہے ۔
(ب)جملہ فعلیہ
جملہ فعلیہ کی تشکیل میں فعل اور فاعل شامل ہیں ۔جملہ فعلیہ کی خبر میں فعل
لازمی طور پر موجود ہوتا ہے جملہ فعلیہ میں فاعل مسند الیہ ہوتا ہے جب کہ
فعل مسند ہوتا ہے ۔اس نوعیت کے جملے کاابتدائی حصہ مسند الیہ یا مبتدا
کہلاتا ہے جب کہ جملے کا دوسرا حصہ مسند یا خبر کہلاتا ہے ۔مسندالیہ میں
فعل موجود نہیں ہوتا جب کہ مسند یا خبر میں فعل کی موجودگی ممکن ہے ۔ایسے
جملے جن کے مسند میں فعل موجود ہو فعلیہ جملے کہلاتے ہیں ۔جملہ فعلیہ میں
موجو دخبر کے نفی یا اثبات کی صورت ممکن ہو ایسے جملے کو خبریہ کہتے ہیں
جیسے یہ زمین میری ہے ۔ایسی صور ت جہاں جملہ فعلیہ میں خبر کے نفی یا اثبات
کی صورت ممکن ہی نہ ہو تو ایسے جملے انشائیہ کہلاتے ہیں۔ساخت اور معنی کے
اعتبار سے جملوں کی اقسام کو الگ الگ زیرِ بحث لایا جائے گا ۔
اُٹھایا گاہ اور گاہے بٹھایا
مُجھے بے تابی و بے طاقتی نے
( ذوق ؔ)
نحو میں جملے کی تقسیم کے دو طریقے ہیں ایک تو ساخت کے اعتبار سے اور
دوسرامعنی کے اعتبار سے ۔ان دونوں طریقوں کا مختصر جائزہ پیش ہے :
(1) ۔ جملے کی تقسیم ساخت کے اعتبار سے
ساخت کے اعتبار سے جملے کی درج ذیل تین قسمیں ہیں :
1۔ مفرد جملہ 2۔ مرکب جملہ 3۔ ملتف جملہ
ساخت کے اعتبار سے جملے کی مندرجہ بالا اقسام کامختصرجائزہ پیش ہے :
1۔ مفرد جملہ
ایسا جملہ جس میں ایک فاعل،ایک فعل ،ایک مسند الیہ اور مسند ہو ۔
دکنی: یہ کلام ربانی ہے ۔ (جانم )، نبی علیہ السلام جبرئیل کوں پُوچھے۔
(خواجہ بندہ نواز)
اردو : سلطان سوتا ہے ۔ کوثرپڑھتی ہے ۔احسن لکھتا ہے
2۔ مرکب جملہ
ایسا جملہ جس کی تشکیل میں دو یا دو سے زیادہ مفرد جملے شامل ہوں ۔مرکب
جملے میں موجود ہر جملہ اپنے مستقل معنی دیتا ہے اور دوسرے کا تابع نہیں
ہوتا۔جیسے :
دکنی: پیدا کیا سات آسماناں کے ھورروشن کیا چاند،اجت تاریاں سوں۔ (حفیظ
قتیل )
اردو : پیداکیاسات آسمانوں کواورروشن کیاچاند ستاروں سے ۔
مرکب جملے کی اقسام
مرکب جملے کی چار اقسام ہیں:
۱۔ جملہ معطوفہ ۲۔ جملہ تردیدیہ ۳۔ جملہ استدراکیہ ۴۔ جملہ معلّلہ
مرکب جملے کی مندرجہ بالا چار اقسام کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے :
۱۔ جملہ معطوفہ
مرکب جملے کی اس قسم میں اصل جملوں کو حرف ِعطف کے ذریعے ملایا جاتا ہے
جیسے :
دکنی: اس میں ہرن کو ں پکائے ھور چاروں مِل کر ہرن کوں کھائے ۔ (خواجہ بندہ
نواز)
ارد و: اس میں ہرن کو پکاتے اورچاروں مِل کر کھاتے ۔
احرام اس کا باندھوں گااور پکڑوں گاصیام ۔
(محمد قلی قطب شاہ)
عاشقاں جلتے ہیں پروانہ نمن
کرتے ہیں بے رحمی و منگتے جواب
(محمد قلی قطب شاہ)
ع: منفعت ایک ہے اس قوم کی اور نقصان بھی ایک
(علامہ محمد اقبال )
۲۔ جملہ تردیدیہ
ایسا جملہ جس کے دو یا دو سے زیادہ اصل جملے تردید کے وسیلے سے ملادئیے
جائیں ۔
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
یا میرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
(بہادر شاہ ظفرؔ)
یا دیوانہ ہے یاحضرت پرایمان نہیں لیایا ہے ۔
( ملاوجہیؔ)
یو تینوں جھاڑاں نامغرب میں نامشرق میں
(خواجہ بندہ نواز )
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا تقاضاہے کہ ہر شب کو سحر کر
(علامہ اقبال )
نہ وہاں صاحب جانیا جاتا ہے نہ فقیر
( ملاوجہیؔ)
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گُزری ہے
تلاش میں ہے سحر باربار گُزری ہے
(فیض احمد فیضؔ)
نہ چُپ رہے تو ٹُک دِل کوں آرام ہو
نہ رونے تے بھی کُچ رواں کام ہو
(نصرتیؔ)
۳۔ جملہ استدراکیہ
ایسا مرکب جملہ جس میں حروفِ استدراک کے ذریعے کسی اشتباہ کو رفع کیا جائے
اور اس مقسد کے لیے دو بیانوں کے تقابل کی صورت تلاش کی جائے ۔
میں تو کہتا ہوں کہ تم ابرِ کرم ہو لیکن
کاش صحرا میرے الفاط کی تائید کرے
(احمد ندیمؔ قاسمی )
موتی بی پا نیچ ہے ،ولے صورت میں فرق پڑیا۔ ( ملا وجہیؔ)
نیں سمایا آسمان میں مگر سمایا ہون مومناں کے دِل میں۔ (خواجہ بندہ نواز)
علم ایقین میں آتا ،امّا عین الیقین میں دِستا نہیں۔ (خواجہ بندہ نواز)
۴۔جملہ معلّلہ
جملہ معلّلہ ایسا مرکب جملہ ہوتا ہے جس میں اصل جملوں کو ملانے کے لیے حروف
علت کا سہارا لیا جاتا ہے ۔اس میں دُوسرا جملہ پہلے جملے کی علت واقع ہوتا
ہے ۔
ہر رنج کوں راحت ہے کیاواسطے کہ یو عشق ہے ۔
( ملا وجہیؔ)
میں تُمنا پیدا کیا ھور کام فرمایااِس بدل ایسا صفت خدا کا ہے ۔
( حفیظ قتیل )
دردِ دِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
3 ۔ملتف جملہ
جب ایک اصل جملے کے ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ تابع جملے آئیں تو ایسا جملہ
ملتف جملہ کہلاتا ہے ۔
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بِکھر جائے گا
مسئلہ پُھول کا ہے پُھول کِدھر جائے گا
( پرو ینؔ شاکر )
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
وہ دِل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے
انو بولے کہ یو ڈونگر ہے زہد و رزق کا آشیانا ۔ ( ملاوجہیؔ)
نبی علیہ السلام فرمائے ہیں شرع میں اﷲ کوں دیکھنا خوب ہے ۔ (خواجہ بندہ
نواز)
غمزا بولیا میرے بھائی کا ناؤں نظر ،عجب مرد ہے با خبر ۔ ( ملاوجہیؔ )
وو پروانہ کاں ہے جو یو پانی پیوے ( ملاوجہیؔ)
تابع جملوں کی اقسام
ملتف جملوں کے حوالے سے پہلے لکھا گیا ہے کہ ان میں اسل جملوں کے ساتھ ایک
یا ایک س ے زیادہ تابع جملے موجود ہوتے ہیں۔ان تابع جملوں کی تین اقسام ہیں
:
۱۔ بیانیہ ۲۔ وصفیہ ۳۔ تمیزیہ
۱۔ جملہ بیانیہ : یہ ایسا تابع جملہ ہوتا ہے جواصل جملے کا بیان واقع ہوتا
ہے مثلاً
وہاں ایک جنا پید ہواھور بو لیا کہ میرا تقسیم دیو۔ (خواجہ بندہ نواز)
وہاں ایک شخص نمو در ہوا اور بولا کہ میرا حصہ دو
نظر پو چھیا کہ تمیں کون ہیں ؟کیانام دھرتے ہیں ۔ ( ملا وجہی ؔ )
نظر کوں پُوچھی ،تُوں کون کِدھر تے آیا ۔ ( ملاوجہی ؔ )
جبرائیل کہیا کہ ابراہیم ؑاِس بار سب بکریاں دے گا تو پُکاروں گا (شمس
العشاق )
۲۔ جملہ وصفیہ
جملہ وصفیہ ایسا تابع جملہ ہوتا ہے جو اصل جملے کے کسی اسم کی صفت کا کام
انجا م دے۔ دکنی میں ایسے جملے کاآغاز با لعمو م ضمیر موصول ’ جو ‘ یا’ جے
‘ سے ہوتا ہے۔مثلاً
مر دوہ ،جو کوئی نہ کر سکے سو کرے ۔ ( ملا وجہیؔ)
جوکوئی بو لیا اسے شیطان بولتے ہیں ۔ (خواجہ بندہ نواز)
سمجھنے کا نہینچ سوسمجھا کیوں جاتا ہے ؟ ( ملا وجہی) ؔ
تُو دِل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
میں جان گیا بس تیری پہچان یہی ہے
۳۔ جملہ تمیزیہ
ایسا تابع جملہ جو اصل جملے کے لیے متعلق فعل کاکام دے ۔جملہ تمیزیہ با
لعموم وقت،جگہ،طور،سبب،یا شرط کے لحاظ سے اصل جملہ سے وابستہ ہوتا ہے ۔جملہ
تمیزیہ کی پانچ قسمیں ہیں :
( الف) ۔جملہ تمیزیہ زمانی ( ب)۔جملہ تمیزیہ مکانی (ج) ۔ جملہ تمیزیہ طوریہ
(د) ۔جملہ تمیزیہ معلّلہ (ع) ۔جملہ تمیزیہ شرطیہ
(الف)۔جملہ تمیزیہ زمانی : یہ ایسا تابع جملہ ہے جو اصل جملے کے لیے متعلق
فعل زماں کے طور پر کام کرتاہے جیسے :
جو لگ توں ہے تو لگ تیری شیطانی تیرے ساتھ
( شمس العشاق)
رات دِن شام و سحر جب تک ہے قائم زندگی
فرض کی تکمیل سے انساں نہ منھ موڑے کبھی
(ب)۔جملہ تمیزیہ مکانی
ایسا تابع جملہ جواصل جملہ کے لیے متعلق فعل مکاں کاکا م دے ۔
یہاں بھی تُو وہاں بھی تُو زمیں تیری فلک تیرا
کہیں ہم نے پتا پایا نہ ہر گز آج تک تیرا
ع : جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جِدھر دیکھا
(خواجہ میر درد)
جدھر توں دیکھتا ہے اُودھرخداچ ہے ۔ ( ملا وجہی ؔ )
جاں معشوق کا ناز ہے واں عاشق کا گداز ہے۔ ( ملا وجہیؔ)
جہاں بیٹھی وہاں گاتی ذرہ شکتی نئی مرداں سوں
پڑا ہے ناؤں دو جگ میں چنچل گاؤں ملالی کا
(ہاشمیؔ)
(ج )۔ جملہ تمیزیہ طور
جملہ تمیزیہ طوریہ ایسا تابع جملہ ہوتا ہے جو اصل جملے کا متعلق فعل ہواور
فعل کے طور کا مظہر ہو۔مثلاً
لوگاں توں جیسا ہے ویسا نہیں دیکھتے ۔ (حفیظ قتیل)
محمدﷺ ہمیں جیوں دِکھلائے تیوں تمھیں دیکھو ۔ (خواجہ بندہ نواز)
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہو توپھر نام بھی تجھ سا رکھے
(احمد فرازؔ)
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
( فیض احمد فیضؔ)
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
( فیض احمد فیضؔ)
(د) جملہ تمیزیہ معلّلہ
جملہ تمیزیہ معلّلہ ایسا جملہ ہے جو اصل جملے کا متعلق فعل ہو اور اُس سے
علت یاسبب کا اظہار ہو۔مثالیں :
تیری حقیقت تمام تج پر کُھلے گی ،کیاواسطہ کہ یو عالم کشف وو عالم لطیف۔
(شمس العشاق)
جوں دیوے کے گلے میں یوں دیکھناپیر کا ،مشاہدا خدا کوں اس بدل کہتے ہیں کہ
پیر کی بندگی کرو۔ (حفیظ قتیل)
تیری حقیقت تجھ پر کھلے گی ،کیا واسطہ یہ عالم کشف وہ عالم لطیف ۔
( ع) جملہ تمیزیہ شرطیہ
جملہ تمیزیہ شرطیہ ایسا تابع جملہ ہے جس سے اصل جملے کے متعلق فعل اور شر ط
کا اظہار ہو۔
اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو بتلاتا مقامِِ کبریا کیاہے
( علامہ محمد اقبال)
اگر اس میں تے ایک پردہ اُٹھ جاوے تو اس کی آنچ تے میں جلوں ۔ (خواجہ بندہ
نواز)
اگر اس میں سے ایک پردہ اُٹھ جائے تو اس کی آنچ پر میں جلوں ۔
گنج قارون اگر اچھے گا تو بی دیتے دیتے سرے گا ۔ ( ملاوجہیؔ)
جوآوے سورج نمنے سنگار سوں
تو ہر بال تھے راگ نیہ اچاوے
( محمد قلی قطب شاہ )
( 2 ) جملے کی تقسیم ( بہ لحاظ معنی )
معنی کے لحاظ سے جملے کی درج ذیل دو قسمیں ہیں :
( ۱ ) ۔ جملہ خبریہ (۲) ۔ جملہ انشائیہ
معنی کے لحاظ سے جملے کی مندرجہ بالا دونوں اقسام کا مختصر جائزہ پیش ہے :
( ۱ ) ۔ جملہ خبریہ : جملہ خبریہ ایسا جملہ ہوتا ہے جس میں کسی واقعہ کی
خبر موجود ہو ۔یہ خبر اپنی نوعیت کے اعتبار سے مکر و فریب کے فرغلوں میں
لپٹے کِذب یا حرفِ صداقت کی مظہرہو ۔ مثالیں :
اس بازار میں چار کمانیاں تھیاں ۔ ( خواجہ بندہ نواز)
جاسوس نظر پھرتے پھرتے ایک شہر میں آیا ۔ ( ملاوجہیؔ)
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
( میر تقی میر ؔ )
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
(احمدفراز ؔ )
( ۲) ۔ جملہ انشائیہ
جملہ خبریہ ایسا جملہ ہوتا ہے جس میں کذب و افترا یا حرفِ صداقت کا کوئی
شائبہ نہ ہو اور اس میں تمنا ،استفہام،شرط ،مسرت ،افسوس اور نِدا کا مفہوم
پایا جائے ۔جملہ انشائیہ کی اہم قسمیں درج ذیل ہیں : امر ، نہی ، تمنا ،
تاسف ،ندا ،استفہام ،تعجب ،عقود ،دعا اردو اور دکنی میں جملہ انشائیہ کی یہ
سب صورتیں موجود ہیں ۔مثالیں :
امر :
آؤاِک سجدہ کریں عالم مد ہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر ؔ کو خدا یاد نہیں
(ساغرؔ صدیقی)
خدایا معانیؔ کی اُمید بر لیا
کی جیوں سانت کے میہوں تھے جگ سب اکھایا
(محمد قلی قطب شاہ)
نہی:
مجھے خود اپنی نگاہوں پہ اعتماد نہیں
میرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے
(ساغرؔ صدیقی)
نہ کر کچ سنچل چک بی چوندھیر میں
امانت اتاریاں وہ مندھیر میں
(نصرتیؔ )
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے راہ نما کرے کوئی
( غالبؔ)
بھلے آدمی کاش کہ دنیا میں نا آتے ( ملا وجہی ؔ)
کیاخدا ظاہر صورت کو پکڑ کر آتا ہے ؟ ( ملا وجہیؔ )
اگر جیو تے ڈرتا تو کی عشق بازی کرتا ( ملاوجہیؔ)
شاباش ! بہوت سمج سو ں بات کرتا ہے ۔ ( ملاوجہیؔ)
شہ کے غم سوں دِل ہے نالا ں ہائے ہائے
چک برستے جو ابھالاں ہائے ہائے
( شاہیؔ )
ارے بھائی اُٹھتے بیٹھتے ،جاگتے سوتے موت کوں یاد کرو۔ (شمس العشاق)
صرف و نحو کی روشنی میں اردو اور دکنی افعال کاتقابلی مطالعہ اپنے اختتا م
کو پہنچا۔تحقیق ایک مسلسل عمل کا نام ہے اور مجھے یقین ہے کہ روشنی کا یہ
سفر جاری رہے گا۔
کلام کے مختلف اجزا کی ترکیب کی تفہیم کی یہ سعی کیسے ثمر بار ہوتی ہے اس
کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔اردو اور دکنی زبان کے قواعدکی تفہیم
سے ان زبانوں کے صدیوں کے ارتقائی سفر کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی پروان
چڑھانے میں یقینا مدد ملے گی۔لسانیات کے مطالعہ اور تجزیہ کے دوران میں کئی
سخت مقام آئے مگر ہر بار دِل تھا م کر روشنی کا سفر جاری رکھنے کی سعی کی
۔ہوائے سرِ راہ گزار کے شیدائی کن مراحل سے گزرتے ہیں اُن کے بارے میں
مخدوم محی الدین( 1908-1969) نے سچ کہا تھا:
کچھ قوسِ قزح سے رنگت لی،کچھ نُور چُرایا تاروں سے
سے تڑپ کو مانگ لیا ، کچھ کیف اُڑایا بہاروں سے
پُھولوں سے مہک ،شاخوں سے لچک اور منڈؤں سے ٹھنڈا سایہ
جنگل کی کنواری کلیوں نے دے ڈالا اپنا سرمایہ |