افعال کا کمال ( دکنی اور اردو )

ڈاکٹر غلام شبیررانا
فعل میں تنہا اپنے معنی دینے کی استعداد موجود ہوتی ہے اسم کے بر عکس فعل میں زمانے کی جلوہ گری کا قرینہ موجود ہوتاہے ۔ایسا جملہ جس میں تینوں زمانوں ( ماضی،حال ،مستقبل)میں سے کوئی ایک زمانہ کی فعالیت موجود ہو اسے فعل سے تعبیر کیا جاتاہے ۔یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ ایسے الفاظ جن میں وقت کی کیفت تو موجود ہو مگر فعالیت عنقا ہووہ افعال ہر گز نہیں ہوتے مثلاًرات،دن،شام ،سحر ،صبح،دوپہر ،کل،پرسوں ،سہ پہر ،نصف شب ،صبح صادق وغیرہ۔ افعال کی درج ذیل چھے اقسام ہیں :
۱۔ ماضی ، ۲۔مضارع، ۳۔حال ، ۴۔مستقبل، ۵۔امر ،نہ ۶۔نہی
ساحل کے تماشائی ہر ڈُوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں اِمداد نہیں کرتے ( فنا نظامی کانپوری )
اپنے سر اِک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے ( جون ایلیا)
دِل کی بربادیوں پہ نازاں ہوں
فتح پا کر شکست کھائی ہے ( شکیل بدایونی)
افعال میں مثبت اور منفی کی کیفیات پائی جاتی ہیں ۔ افعال کے مجموعی طور پر ایک سو بتیس صیغے ہیں جن میں ماضی کی چھے اقسام کے بہتّر صیغے اور ساٹھ صیغے حال ،مضارع ،مسقبل ،امر و نہی کے ہیں۔یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ امر و نہی میں متکلم کی موجودگی بعید از قیاس ہے ۔قدیم دکنی اردو میں طویل عرصہ تک ماضی مطلق یائے مخلوط کے ساتھ مستعمل تھی دکنی کے ممتاز شعرا نے چلا،پڑھا ،دیکھا کے بجائے علی الترتیب چلیا ، پڑھیا اوردیکھیا کو اپنا یا ہے دکنی اردو میں مذکر و مونث کی جمع بناتے وقت ‘ اں ‘ کا لاحقہ استعما ل کیا جاتا تھا جیسے باتاں ،جھاڑاں ،غمزاں ،بھائیاں،پہاڑاں ، اور مائیوں وغیرہ۔اُردو و دکنی زبان کے صرفی و نحوی معائر وقواعد میں مختلف اوقات میں ترامیم و تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہا جس نے زبان کو ترقی کے نئے آفاق تک رسائی کے مواقع فراہم کیے ۔ نحو وہ علم ہے جس سے اجزائے کلام کو ترکیب دینے اور جد ا جد ا کرنے کا ڈھنگ آتا اور کلمات کے ربط اور باہمی تعلق کا حال معلوم ہوتا ہے اور جس غلطی سے مطلب میں خلل واقع ہو اس سے کلام کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہاں یہ ترکیب سے مراد الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جو قواعد کے لحاظ سے ایک ہی لفظ کی معنویت پر منتج ہو ۔نحو میں اجزائے کلام اور ان کے مختلف تغیرات کو زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ان کا تعلق تعداد ،زمانہ اور حالت (فاعلی،مفعولی ،اضافی،انتقالی،ظرفی ،ندائیہ( سے ہوتا ہے اسے نحو تفصیلی کہا جاتا ہے جب کہ نحو ترکیبی میں جملوں کی ساخت پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے ۔ کلام کی دو اقسام ’ناقص ‘ اور ’تام ‘ہیں۔ ایسا مرکب جسے سننے کے بعد مکمل استفادہ نہ ہو جیسے انوار جی کتاب ،سفید کپڑا،چار سو بیس ۔ان کلمات کو سننے کے بعد سامع فائدہ تام حاصل کرنے سے قاصررہتا ہے اور مزید وضاحت کی خاطرکسی تفصیل بات کا شدت سے منتظر رہتا ہے ۔ایسے کلام کو مرکب ناقص کہا جاتاہے ۔
فعل ناقص
فعل ناقص کی پہچان یہ ہے کہ یہ کسی پر اثر انداز نہیں ہوتا بل کہ یہ کسی اثر کو ظاہر کرتا ہے مثلاً نصرت بیمار ہے ،اس جملے میں نصرت کچھ بھی نہیں کرتا ،وہ فاعل ہر گز نہیں بل کہ فعل کو سہنے والے کے روپ میں سامنے آتا ہے ۔ بیمار اس کی کیفیت یا خبر سے متعلق ہے ۔فعل ناقص میں جب تک فاعل کے علاوہ کوئی اوراسم ان کے ساتھ شامل نہ ہو کلام کا مفہوم واضح نہیں ہوتا ۔بادی النظر میں یہ ایک حقیقت ہے کہ افعال کو د واسما کی احتیاج ہے جن میں سے ایک کو ’اسم ‘یعنی ’’مسند الیہ ‘‘ اوردوسرے کو ‘خبر ‘ یعنی ’’ مسند ‘‘کہاجاتا ہے ۔ فعل ناقص اسم خبر کے ساتھ ملنے کے بعدجملہ ٔ اسمیہ بنتا ہے ۔فعل ناقص میں ہونا ،بننا ،پڑنا ،رہنا،نکلنا(بہ معنی ظاہر ہونا )،لگنا، ہو جانا ،بن جانا،نظر آنا ،دکھائی دینا ، لینا، لڑنا ، مقرر ہونا، واقع ہوناان کے ہم معنی مصادر کے مشتقات اور تمام اسم فعلوں یعنی ’ہے ‘ کے تینوں (ہے ،ہوں ، ہیں ) اور’تھا ‘ کے چاروں (تھا ،تھی،تھے ،تھیں )صیغے افعال ناقص میں شامل ہیں ۔ اردو گرامر کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معنوی اعتبار سے فعل کی متوازی اصطلاح’عمل ‘ میں ’کرنے ‘ کے ساتھ ’ہونے ‘کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتالیکن اردو گرامر میں ’ فعل‘ کی کیفیت اس کے بر عکس ہے جہاں بے عملی کی حالت یا ہونے کی حالت کی ترجمانی بھی ہوتی ہے ۔اردو زبان میں ایک کثیر الاستعما ل فعل ’ہو ‘ اس کی مثال ہے جسے ضرورت کے مطابق ’ ہے ‘ ،’ہوں ‘ ، ’ اور ‘ یا ’ ہیں ‘ میں تبدیل کر لیا جاتا ہے ۔ یہ فعل جملے کی صورت اختیار کرنے کے بعدخارجی دنیا کے متعلق کسی مکمل صورت حال کی تنہا ترجمانی کرنے کے بجائے کلام کے دوسرے اجزا پر انحصار کرتا ہے ۔مثلاً یہ کہنا : انوار الحق ہے ۔اس سے وابستہ خاص سیاق و سباق کے بغیر معنوی اعتبار سے تشنہ ٔ تکمیل رہ گیاہے۔اس کے بجائے یہ کہنا کہ ’انوار الحق ،اظہارالحق کا بھائی ہے ۔معنوی اعتبار سے ایک مکمل جملہ ہے اس جملے میں ’’بھائی ‘‘ اسم ہے جب کہ ’’ ہے ‘‘ فعل ناقص ۔اصطلاح میں ’بھائی ‘ کو تکملہ ٔ خبر یا خبریہ سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔’’خبریہ ‘‘ اسم کے علاوہ صفت کی صورت میں بھی ہو سکتاہے جیسے ’ انوار الحق بہادر ہے ‘اِسے صفت خبر ی کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں ’ہو جانا ،بن جانا ،معلوم ہونا بھی افعال ناقص کے طور پر مستعمل ہیں ۔جیسے : وہ عیار معلوم ہوتا ہے ۔وہ دیوانہ ہو گیا ۔وہ بیمار نظر آتا ہے ۔و ہ ہشیار دکھائی دیتا ہے۔وہ امیر بن گیا ۔
خود بھی وہ چالاک ہے لیکن اگر ہمت کرو
پہلا پہلا جُھوٹ ہے اُس کو یقیں آ جائے گا
اردو زبان میں مستعمل افعال ناقص درج ذیل ہیں:
۱۔ رہ وہ جاہل ہی رہا ۔
۲۔ نکل وہ بُدھو نکلا ۔
۳۔ بن وہ آدمی بن گیا ۔
۴۔ لگ وہ نیک لگتا ہے ۔
۵۔ پڑ وہ بیمارپڑا۔
دکنی میں استعمال ہونے والے افعال ناقص درج ذیل ہیں :
پڑنا ،ہونا ،لگنا ،ہے ،اہے ،ہیں ،اہیں ،تھا ،اتھا ،تھی ،اتھی ،تھے ،اتھے ،تھیاں ،اتھیاں
دکنی زبان میں مستعمل ان افعال ناقص کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
میں باتاں منے گڑ بڑانے لگی
مِری جِیب بھی لٹ پٹانے لگی
(سیوکؔ )
کہ میں اصل میں یک سپاہی اتھا
فد ا در گہ بادشاہی اتھا
(ملا نصرتیؔ)
نوے چاند سا شہ نو بالا اتھا
چڑت بد کا دِ ن دِن اوجالا اتھا
(ملا نصرتیؔ)
ضمیر اس کااتھا سورج تے روشن
اتھا دِل صاف تس کا جوں کہ درپن
(ابن نشاطیؔ)
دونو گرچہ یک ٹھار میں مل اتھے
ولے رو برو ہو مقابل اتھے
( ملا نصرتیؔ)
کنور پر تو یک رت کی حالت اتھی
بیرہ کیچ دوجے جلالت اتھی
(ملا نصرتی ؔ)
نہ اودھن زرینے سوں پر کم اتھی
کہ بالذات قتال عالم اتھی
(ملا نصرتی ؔ)
وہ پر دیچ کی گرچہ دُوری اتھی
نہ اتنی بھی ان میں صبوری اتھی
(ملا نصرتیؔ)
جو موتیاں کی سینے پہ جالی اتھی
فلک کے بی تاریاں تی عالی اتھی
(ملا نصرتیؔ)
فعل ناقص ’’ ہو ‘‘ کی ماضی کی دو صورتیں اُردو زبان میں مستعمل ہیں :
(الف ): تھا ،تھی ، تھے ، تھیں
(ب) ہوا ، ہوئی ،ہوئے ،ہوئیں ۔
’ہونا ‘ ہمیشہ فعل ناقص کے طور پر مستعمل رہا ہے جب کہ باقی افعال کبھی لازم ہوتے ہیں اور کبھی ناقص۔اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
نمبر شمار فعل ناقص فعل لازم
۱۔ وہ بڑا بے وقوف نکلا وہ دروازہ سے نکلا
۲۔ وہ جاہل ہی رہا وہ شہر میں رہتا ہے
۳۔ وہ امیر بن گیا مکان بن گیا
۴۔ وہ بیمار نظر آتا ہے وہ یہاں نظر نہیں آیا
۵۔ وہ ہشیار دکھائی دیتا ہے وہ مجمع میں کہیں تودکھائی دیا تھا
۶۔ وہ بھلا لگتا ہے مجھے پتھر لگا
۷۔ وہ بیمار پڑا میں وہاں پڑا رہا
فعل ناقص ا پنی نوعیت کے لحاظ سے فعل کی ایسی قسم ہے جو لازم اور متعدی سے مختلف ہے۔فعل لازم میں تو کسی فعل یا کام کا کرنا یا نہ کرنا ،ہونا یا نہ ہونا موجود ہوتا ہے اوراس کا اثر صرف کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے یعنی فاعل تک ہی محدود رہتاہے مثلاً اظہار آیا ۔آیا فعل لازم ہے جب کہ اظہار اس کا فاعل ہے اور آنے کے فعل کا تعلق ٖصرف اظہار کی شخصیت تک محدود ہے ۔فعل متعدی فعل کا اثر فاعل سے آگے نکل کر مفعول کی شخصیت تک جا پہنچتا ہے مثلاً اظہار نے خط لکھا ۔ یہاں لکھنے کا فعل اظہار سے عملی صورت میں سامنے آیالیکن کا فعل خط پر سر زد ہوا ۔اس جملے میں لکھنا فعل متعد ی ہے اور خط مفعول ہے۔فعل ناقص ایسا فعل ہے جو کسی پر اپنا اثر مرتب نہیں کرتا بل کہ کسی اثر کو سامنے لاتا ہے جیسے راشد بیمار ہے ۔اس جملے میں راشد فاعل نہیں کیونکہ اس سے کوئی فعل سر زد نہیں ہوا بل کہ وہ فعل سہتا ہے۔ وہ فعل سہنے کے بعداپنی بیمار حالت یا خبر سے مطلع کرتا ہے ۔ جہاں تک ’ ہو ‘ کا تعلق ہے یہ اردو میں امدادی فعل کے طور بھی استعما ل کیا جاتا ہے جیسے ’’ احسن جا رہا ہے ۔‘‘ اس جملے میں ’ہے ‘ فعل ناقص کے بجائے بہ طور امدادی فعل استعما ل ہوا ہے ۔فعل ناقص اُن عادات ،افعال اورحالات کی عکاسی کرتا ہے جو تشنہ ٔ تکمیل رہ جائیں۔ ’سہی‘ بھی اس صورت میں فعل ناقص ہے جب اسم وخبر کے بغیر کلام کی تکمیل نہ ہو سکے۔فعل ناقص کی تذکیر و تانیث بہ لحاظ اسم ہو یا بہ لحاظ خبر کے ہر صورت میں صحیح ہے ،جیسے ’’پکائی تھی کھیر ہوگیا دلیا ۔‘‘اس جملے میں ہو گیا فعل ناقص ہے ،کِھیر اسم اور دَلیا
خبر ہے ۔خبر کے لحاظ سے فعل مذکر آیا ہے ۔ اس میں فاعل عنقا ہے اور کام کا ہونا ہیاس کی پہچان ہے ۔ دکنی میں تخلیق کاروں نے اس حوالے سے اکثر ’ اہے ‘ اہیں،تھا ،اتھا ،تھی ،اتھی ،تھے ،اتھے ،تھیاں ، اتھیاں کااستعما ل کیا ہے ۔:
ولے جب دین ناہیں بو جتیاں تھیاں
سو پُتلیاں ہوی پتلیاں پُوجتیاں تھیاں
(احمد گجراتی ) علی ؓ وہ کہ شانِ ولایت اہے
جہاں بخش صاحب کرامت اہے
(نصرتیؔ)
تو شہزادگی میں اپنگ شاہ تھا
سلاطین میں صاحب ِ جاہ تھا
(نصرتیؔ)
نہ بیٹا اُسے ایک بیٹی اتھی
کہ تن پر رتن سب سمیٹی اتھی
(مقیمیؔ)
انو کی سکھیاں جیو ں جو سات تھیاں
انو کے کنے بھی اس دھات تھیاں
(نصرتی ؔ )
ع: آنکھ کی پُتلی جو تھی جادو کا پُتلا ہو گیا
اس مصرع میں خبر کی رعایت سے فعل ناقص مذکر صورت میں موجود ہے ۔
ظلمتِ عصیاں سے میری بن گیاشب روزِ حشر
آفتاب اِک نیزے پر دُم دار تارا ہو گیا
(ذوقؔ)
اس شعر میں بن گیا فعل ناقص ہے ،روزِ حشر اس کا اسم اور شب خبر ہے ۔ اسم کے لحاظ سے فعل ناقص موجود ہے ۔

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گُل ِ تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا
(غالبؔ )
ہو جائے گا فعل ناقص ،ہر گل تر اسم اور چشمِ خوں فشاں خبر ہے ۔ اسم کی رعایت سے فعل ناقص مذکر ہے ۔
وصف قاتل کا کروں گا میں دہانِ زخم سے
ٹُوٹ کر گر رہ گیا خنجر زباں ہو جائے گا
(غالبؔ)
اس شعر میں ’ ہو جائے گا ‘فعل ناقص ہے ،خنجر اسم ہے ،اور زبان خبر ہے ۔اسم کو پیش نظر رکھتے ہوئے فعل ناقص مذکر ہے ۔
چھوڑا نہ کچھ بھی سینے میں طغیانِ اشک نے
اپنی ہی فوج ہو گئی لشکر غنیم کا
(مومنؔ)
اس شعر میں ’ ہو گئی ‘ فعل ناقص ہے ،اپنی فوج اسم ،اور لشکر غنیم کا خبر ہے ۔اسم کے لحاظ سے فعل ناقص مونث صورت میں موجود ہے۔ فعل ناقص کو امدادی فعل سے بھی تعبیر کیا جاتاہے ۔
مرکب ناقص کے بر عکس مرکب تام کے سننے سے سب حقائق تک رسائی یقینی ہے ۔جملے کی روایتی تعریف میں جُملے کے معنوی پہلو کا ذکرحاوی رہتا ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی شخص گفتگو میں جس قدرچاہے اختصار سے کام لے مگر اپنا مافی الضمیر کے بیان کے لیے وہ جس پیرایۂ اظہار کا انتخاب کرتا ہے وہ ایک جملے سے کم نہیں ہو سکتا ۔اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جملے کی صورت میں ادا کیے الفاظ سُن کر سامع تکلم کے سلسلے کے سب اسرار و رموز سمجھ جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جملے کی معنوی تعریف پر توجہ مرکوز کرنے والے جملے کو ایک نسبتاً مکمل اورآزادنوعیت کے انسانی کلام سے تعبیر کرتے ہیں ۔ جملوں کے بارے میں بلوم فیلڈ (Leonard Bloomfield)نے لکھا ہے :
"The emotional sub- stratum of sentences is to some extent independent of these discursive relations. The different elements in a sentence usually vary as to the
place they hold in the emotional interest of the speaker; in the whole sentence there is often unity in that some one element markedly exceeds the other in emotional value. (1)

اردو اوردکنی کے اہم مرکبات ناقص
اردو اور دکنی کے اہم مرکبات ناقص میں مرکب اضافی ،مرکب توصیفی ،مرکب عطفی ،مرکب عدد یاور مرکب امتزاجی شامل ہیں ۔
اردو اور دکنی کے حاصلات سے متشکل ہونے والے مرکبات ناقص
اُردو اور دکنی کے حاصلات سے متشکل ہونے والے ناقص مرکبات جو اسم کے ساتھ صفت کے مانند کام کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
۱۔ اسم فاعل ۲۔ اسم مفعول ۳۔اسم حالیہ
۱۔ اسم فاعل
جو کسی فعل کو انجام دے وہ فاعل کہلاتا ہے جیسے ’ نوید نے کھانا کھایا ‘اس جملے میں نوید فاعل ہے ۔’ کھانے والا کھانا کھا کر چلا گیا ‘ اس جملے میں کھانے والا اسم فاعل ہے ۔اسم فاعل کی تشکیل مصدر سے ہوتی ہے ۔مصدر کی علامت کے الف کو ہٹا کر یائے مجہول سے بدل کر ’ والا ‘ کااضافہ کیا جاتاہے ۔کرنے والی کی جمع کرنے والیاں ۔دکنی میں مصدر کے ’’ الف ‘‘ کو ہٹا کریائے مجہول ( ے ) سے بدل دیا جاتا ہے اور اس کے بعد واحد مذکر کے لیے ’ ہارا ‘ جمع مذکر کے لیے ’ ہارے ‘ واحد مونث کے لیے ’ ہاری ‘ اور جمع مونث کے لیے ’ ہاریاں ‘ کااضافہ کردیاجاتاہے ۔ بعض اوقات ’ ہار ‘ یا ’ سکتا ‘کے اضافے سے بھی اسم فاعل بنایا جاتا ہے۔ اُردو میں بھی اس طرح کی مثالیں موجود ہیں جیسے ہو نہار وغیرہ۔ دکنی میں اسم فاعل کی مثالیں درج ذیل ہیں :
۱۔ چوتھا تن عارف الوجود ،اسے جبرئیل دینے ہارا۔ ( خواجہ بندہ نواز )
۲۔ پھر یا تو اسے منع کرنے ہاراکون ہے ۔ ( ملا وجہی ؔ)
۳۔ جو دِستے ہیں چمن کے پُھول سارے
خزاں کے ہات میں ہیں پڑنے ہارے
(ابن نشاطیؔ )
۴۔ تن پہ دُکھ سُکھ دیکھین ہارا اچکر دِل کے ٹھاؤں
تن سوں بھوک ابھوکی ہونا عینی اس کا ناؤں
(شاہؔ داول )

۵۔ تجکو سمجن ہارا سو یو عارف الوجود (جانم ؔ )
۶۔ لاج سٹ کر سنگتا سنگن ہارا ، دین ہارا نیں دیا تو شر مندہ ہوتا ۔ (ملا وجہیؔ )
۷۔ سو دیکھ حیراں ہو سارے گگن کے سب رہن ہارے
اپس سدھ کھو کہ بیچارے نجھارے نین عنبر سوں ( قلی قطب شاہ )
۸۔خدا کے طرف چلن ہارے بہوت ہیں ( حفیظ قتیلؔ )
۹۔ یو عمارت ماٹی پتھر کی عمارت کچھ رہن ہاری نہیں (ملا وجہیؔ )
۱۰۔ لکھن ہاریاں کے تئیں بخشے سعادت
دیوے دائم پڑن ہاریاں کوں راحت (ابن نشاطیؔ )
۱۱۔ کرن ہار توں کشف کرتا کا
کہ بخش گنہ منج گناہ گارکا (فیروز ؔ )
۱۲۔ خوبی و بدی سب کے بوجھن ہار سو توں
انصاف ہر ایکس کا دیون ہار سو توں (محمد قلی قطب شاہ)
۱۳۔ خدا قادر، خدا حاضر ،خدا ناظر ،خدا سکتا ۔ (ملا وجہیؔ)
۱۴۔ سکن ہارا عطارد علم اُنوں پاس
سوکیوں نہ تلملے اس پر جلن ہار (شیخ احمد شریف گجراتی )
۱۵۔ کہ جوں ضرباں ستیں ذاکر کہن ہار
نہ کچ فرمان تھے اس کے پھرن ہار (شیخ احمد شریف گجراتی )
۱۶۔پھیلے لوگ جے تھے بہہ بو جھن ہار
ہوا ہیبت سیتی جھل کر مرن ہار (شیخ احمد شریف گجراتی)
۱۷۔ سبہہ جگ جاگتیں جے کچ کرن ہار
سدا یک دشت تھے سب جگ دیکھن ہار (شیخ احمد شریف گجراتی)
اُردو میں اسم فاعل کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں :
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے ولا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اب اُسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار میرا
سخت نادِم ہے مجھے دام میں لانے والا
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اُس سے
وہ جو اِک شخص ہے منھ پھیر کے جانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز ؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ مِلانے والا
(احمد فرازؔ)
عربی اسم فاعل:
حاضر،ناظر،قادر،نادر،حاکم،سالم،ناظم،عابد،زاہد،شاہد،غالب،غائب،واقف،عارف،لائق،شائق،فائق اسم مفعول : اسم مفعول ایک مشتق ہوتا ہے اور وہ اُس ذات پر دلالت کرتا ہے جس پر کوئی فعل وقو ع پذیر ہوتا ہے ۔ اسم مفعول ماضی مطلق کے آخر میں ’ ہوا ‘ کی مختلف صورتو ں کے اضافے سے بنتا ہے ۔مفعول پر فعل واقع ہوتاہے جیسے ارشد نے شاہد کو مارا ۔اس جملے میں شاہد مفعول ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ ارشد سے مار کھایا ہوا کہاں ہے ۔اس جملے میں مارکھایا ہوا اسم مفعول ہے ۔اس کی مزید مثالیں دیا ہوا ،لیا ہوا ،پیا ہوا ۔اردو اور دکنی زبان سے اسم مفعول کی چند مثالیں پیش ہیں :
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار اِن سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
آیا پیا شراب کا پیالہ پیا ہوا
دل کے دئیے کی جوت سے کاجل دیا ہوا
(سراج ؔ )
ع:ولیکن پت جھڑی ہوئی جھاڑ کوں تو با وفا رہی
(جانم ؔ )
مجھے ساقی کے بچھڑے سوں یہاں نت نئی پڑی ہوئی ہے
کیتیاں سب بات پر جو تو دِیدے لایوں کھڑی ہوئی ہے
(ہاشمیؔ)
کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تخلیق کار لفظ ’ ہوا ‘ کو حذف کر دیتا ہے ۔
چُھپے سو خزانے کا مفتاح ہے وو
اندھارے دِلا ں کا بھی مصباح ہے وو
( جانم ؔ )
چُھپیاں چُھپیاں باتاں بو لیا
( ملا وجہیؔ
افعال کی تکرار
۱۔ حالیہ کے تناظر میں اردو اوردکنی میں افعال کی تکرارقابل غور ہے اور محاورات میں بھی یہ مستعمل ہے ۔جیسے:
اردو : وہ پُوچھتے پُوچھتے گھر پہنچا۔
دکنی : وو پُو چتے پُو چتے گھریں پنہو نچا۔
خوش خوش حالوں خوش خوشیاں کیرا نور اعلیٰ نور
کھنڈا خوش خوش نامہ تمت ہوا تمام
( میراں جی )
۲۔کچھ افعال ایسے بھی ہیں جن کی تکرار عرصہ کی طوالت ،کثرت یا مبالغہ کے بارے میں آگہی عطا کرتی ہے۔مثلاً:
اردو : چمکتے چمکتے ستارہ ڈُوب گیا ۔کہتے کہتے وہ تھک گیا۔ لڑکیاں اُچھلتی اُچھلتی چلیں اورگھومنے لگیں ۔
دکنی: جھمکتے جھمکتے ستارہ دُوب گیا ۔آکھتے آ کھتے وو تھک گیا ۔لڑکیاں اوچھلتیاں اوچھلتیاں چلیاں ہور گھمن لگیاں۔

رکھن ہار سر سبز دِل کا چمن
سخن ہے ،سخن ہے ،سخن ہے سخن
(صنعتیؔ )
۳۔بعض اوقات فعل کے طویل عرصہ تک روا ں دواں رہنے کا احوال معلوم ہوتا ہے ۔جیسے :
اردو : سوچتے سوچتے وہ سمجھ گیا۔
دکنی: سُنچتے سُنچتے وو سمج گیا ۔
۴۔بعض اوقات تکرار سے جداگانہ نوعیت کے معانی سامنے آ تے ہیں۔ مثلاً:
اردو : بھیس بدل بدل کر جہاں دار نے میزبانی کی ۔لڑکیا ں پھرتی پھرتی منھ موڑ چلیں ۔
دکنی: بھیس بدل بدل کے جہاں دار نے میزبانی کریا ۔لڑکیاں پِھرتیاں پِھرتیاں منھ موڑ چلیاں ۔
۵۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ تکرار سے آہستہ آہستہ یارفتہ رفتہ کا مفہوم نکلتا ہے ۔اس کے علاوہ متعدد دوسر ے افعال سے بھی ایسے ہی معانی نکلتے ہیں ۔جیسے :
اردو : ہوتے ہوتے وہ کندہ کاری سیکھ گیا ۔
دکنی: ہوتے ہوتے وو چِترنا سِیک گیا ۔
۶۔مختصر عرصے کے لیے بالعموم دیکھتے دیکھتے مستعمل ہے۔ جیسے:
اردو : دیکھتے دیکھتے ہی وہ دانش ور بن گیا۔
دکنی: دیکھتے دیکھتے ہی وو سرجن ہار بن گیا ۔
۷۔بعض اوقات تکرار سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کام کی روانی میں خلل واقع ہوا اور کام دفعتاً رُک گیا ۔جیسے :
اردو : وہ کہتے کہتے ر ُک گیا ۔
دکنی : وو آکھتے آ کھتے رُک گیا۔
۸۔جس وقت کسی کام کے اثنا میں ناگزیروجوہات کی بنا پر تعطل پیدا ہوجائے تو اس صورت میں بھی حالیہ کا تکرار آتا ہے ۔جیسے :
اردو : وہ پڑھتے پڑھتے سو گیا۔
دکنی: وو پڑتے پڑتے سو گیا ۔
۹۔کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ پہلا فعل مذکر ہوتا ہے اور دوسر امونث ۔جیسے :
اردو : دیکھا دیکھی میں وہ خوش و خرم اچھلتی ،اُبلتی چلیں ۔
دکنی: دیکھا دیکھی میں وو خوشی خُرّمی اُچھلتیاں ،اُبلتیاں چلیاں ۔
۱۰۔ دوران تحریریہ بھی دیکھا گیا ہے کہ فعل لازم اور اس کے متعدی کے حالیہ محاورے کے اندر اکٹھے آ جاتے ہیں ۔جیسے :
اردو : بیٹھے بٹھائے خطرہ میں پڑ گئے ۔
دکنی: بسلے بسلائے خطرا میں پڑ گئے۔
۱۱۔کبھی ایک متعدی اور اس کا متعدی المتعدی اکٹھے آ جاتے ہیں جس سے اظہار و ابلاغ میں غیر معمولی قوت اور شدت پیدا ہو جاتی ہے ۔جیسے :
اردو : لکھتے لکھاتے وہ رہبر بن گیا ۔ پڑھتے پڑھاتے وہ منزل آ شنا بن گیا ۔
دکنی: لکھے لکھاتے وو دکھلان ہار بن گیا ۔پڑتے پڑاتے وو اپڑن ہار بن گیا ۔
۱۲۔ کئی بار لازم یا متعدی کا حالیہ دوسرے فعل لازم کے ساتھ اس طرح آتا ہے کہ ان کے درمیان ’ نہ ‘ حرف ِ نفی موجود ہوتا ہے۔ جیسے :
اردو : مارے نہ مرے۔
دکنی: مارے نہ مرے ۔
۱۳۔بعض اوقات مخاطب کو خاص انداز میں متوجہ کرنے کی غرض سے ’ امر ‘ کی تکرار پر اصرا ر کیا جاتا ہے ۔مثلاً:
اردو : سوچو سوچو ۔
دکنی: سُنچو سُنچو ۔
سخن در شعر کہنے تھی رہنا چُپ آج بہتر ہے
جماعت ہرزہ گویاں کی کدھر کوچے میں گھر گھر ہے
( نصرتیؔ)
اردو اور دکنی زبان کے امدادی افعال کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں زبانوں میں مستعمل امدادی افعال ایک ہی انداز اور یکساں مقاصد کے تحت اظہار و ابلاغ کے نئے آفاق تک رسائی میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ان دونوں زبانوں کے اکثر امدادی افعال بھی مشترک ہیں جو ان زبانوں کے قدیم لسانی روابط کے مظہر ہیں ۔ان زبانوں میں لسانی ارتقا کا سلسلہ جو گزشتہ کئی صدیوں پر محیط ہے اس کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی کے سوتے ان زبانوں کے نحو ہی سے پھوٹتے ہیں ۔امدادی افعال اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھے جاتے ہیں جسے زبان کی لفظیات اور معنیات کی تفہیم کے سلسلے میں کلیدی
اہمیت حاصل ہے۔امداد ی افعال کے اِس تجزیاتی مطالعہ سے یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ اردو اور دکنی نے اپنی تعمیر و تشکیل کے جو مراحل طے کیے ہیں ان میں اپنی تہذیب و ثقافت اورتاریخ سے والہانہ محبت ،قلبی وابستگی اور وسعت نظرکا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔ان دنوں زبانوں میں بر صغیر کے طول و عرض میں بولی جانے والی اکثر زبانوں کے الفاظ،معائر،اصولوں اور دُور رس اثرات کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان زبانوں کے تخلیق کاروں نے علم و ادب کے ہر سر چشمہ سے سیراب ہونے کی مقدور بھر سعی کی ۔ان زبانوں کے دامن میں الفاظ کے گُل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے ۔ ارضی اور ثقافتی حوالے سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ ان زبانوں میں مٹی کی مہک یکساں ہے ،یہی حقیقت ان زبانوں کے گہرے لسانی ربط کی د لیل ہے۔
فعل ناقص :
فتح محمد جالندھری نے ’ مصباح القواعد‘ میں فعل ناقص کے بارے میں لکھا ہے :
’’بعض فعل ایسے ہوتے ہیں کہ ظاہر میں تو فعل لازم ہیں مگر جب تک فاعل کے علاوہ کوئی اور اسم یا صفت اس کے ساتھ نہ ملے پورا مطلب نہیں دیتے اُن کو فعل ناقصہ کہتے ہیں ۔‘‘ (2)
فاعل کے لحاظ سے فعل کی دو قسمیں ہیں :
( الف ) فعل معروف
جس فعل کا فاعل مذکور اور معلوم ہو اسے فعل معروف کہتے ہیں ۔ اسے معروف الفاعل بھی کہتے ہیں ۔ مثلاً
اِک یہاں جینے سے بیزار ہمیں ہیں یارب
یا اسی طرح سے سب عمر بسر کرتے ہیں
اس شعر میں فاعل ’سب ‘ ہے اس لیے یہ فعل معروف ہے ۔
دکنی شاعری سے فعل معروف کی مثال :
ع :سمن بر اُس کوں گُند کر ہار دی ایک
(ابن نشاطیؔ)
اس مصرع میں فاعل ’ سمن بر ‘ ہے ۔اس فاعل کے کام سے ضمیرِ شخصی ’ اُس ‘ پر اثر ہوا ہے ۔اس لیے یہ فعل معروف ہے ۔
(ب )فعل مجہول : جس کا فاعل معلوم نہ ہو اسے مجہول کہتے ہیں ۔ اسے مجہول الفاعل بھی کہتے ہیں ۔مثال :
کاش اِک جام بھی سالک کو پلایا جاتا
اِک چراغ اور سرِ راہ جلایا جاتا
دکنی نثر سے فعل مجہول کی مثال پیش ہے جس میں فاعل کا علم نہیں ۔اس لیے یہ فعل مجہول ہے ۔
جکوئی اپنی عزت خاطر مارا گیا سو شہید ہے ۔ ( ملا وجہی ؔ)
ان مثالوں میں یہ بات پردۂ اخفا میں ہے کہ سالک کو جام پلا کراس کی تشنگی دُور کرنے والا اورسرِ راہ چراغ فروزاں کر کے تاریکیاں کافور کرنے ولا کون ہے ۔جام اور چراغ مفعول ہیں مگر فاعل نامعلوم ہے ۔
مثبت ومنفی افعال
گفتگو میں اثبات و نفی کے لحاظ سے فعل کی دو قسمیں ہیں۔اگر کسی فعل میں کام پایہ ٔ تکمیل تک بہ طریق احسن پہنچ جائے تو فعل کو مثبت کہاجاتا ہے
جیسے احسن نے سبق پڑھا ۔ اگر کام نہ ہوسکے تو یہ کیفیت منفی کہلاتی ہے
مثلاًرمضان نے کھانا نہ کھایا خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں
مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا
رِندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
فعل معطوف
اس کی دو قسمیں ہیں
۱۔ معطوف علیہ
۲۔معطوف
ان دو افعال کے درمیان’ کر ‘ یا ’ کے ‘ موجود ہوتا ہے ۔پہلے فعل میں امر کا صیغہ پایا جاتا ہے لیکن دوسرا فعل پہلے کے تابع ہوتا ہے ۔فائدہ وہی دیتا ہے جو دوسرا فعل دیتا ہے ۔احسن کتاب پڑھ کر سو رہا۔رمضان کھانا کھا کر پڑھے گا۔
ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا
پڑ گئی اور یہ کیسی مِرے اﷲ نئی
دکنی میں فعل معطوف سے ایسا فعل مراد لیا جاتا ہے جو کو دوسرے فعل کے ساتھ ’ کے ‘ ،’ کو ‘ ، ’ کوں ‘ ، ’ کر ‘ لگا کر عطف کیا جاتا ہے ۔
عشق کی آ گ میں جل کے راک ہونا
عشق بازی میں چاک چاک ہونا
( غواصیؔ)
زباں دھو کے پھل نیر سوں مکھ میں لیا نو
یو سید محمد حسینی کا نانو
(نصرتیؔ )
دکنی میں علامت معطوف کے محذوف ہونے کی متعد مثالیں موجود ہیں ؛


نین کھول اپنے توں دیکھی جسے
اسے اسم کا عین سکہ دِسے
( شاہ بر ہان)
دکنی میں ایک اور علامت معطوف ’ ت ‘ کا استعمال بھی کیاجاتا ہے مثلاً دیکھت ،پیوت وغیرہ
دیکھت یو حال شہ ہو بہوت دِل شاد
لگیا لب کھول ہنسنے پھول کے ناد
(ابن نشاطیؔ )
چاہیے
بعض افعال ایسے ہوتے ہیں جوظاہر میں تو مشتق معلوم ہوتے ہیں مگر جس مصدر سے مشتق دکھائی دیتے ہیں اس کے مفاہیم سے مطابقت نہیں رکھتے جیسے ’ چاہیے ‘ بادی النظر میں ’ چاہنا ‘ سے مشتق ہے یعنی اس کے مضارع ’ چاہے ‘ سے بنانظر آ تا ہے ۔
اب جیسے اِک حسنؔ سے ہنسے تھے تو ہنس لیے
پر اس طرح ہر ایک سے ٹھٹھا نہ چاہیے
اس شعر میں مصدر اور ماضی کے ساتھ مِلنے کے بعد ’ چاہیے ‘ سے امر کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے :
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نااُمیدی اُس کی دیکھا چا ہیے
چاہیے جب کبھی مصدر کے ساتھ ملتاہے تو مضارع کے اور کبھی اس سے حال کا مفہوم سمجھ میں آتاہے :
لگ گئی چُپ حالی ؔ ِ رنجور کو
حال اُس کا کس سے پُوچھا چاہیے
اسم معاوضہ
یہ اسم کسی مشقت ،خدمت ،محنت یامزدوری کی اُجرت یا معاوضہ کی نشان دہی کرتا ہے ۔ جیسے سلائی ،پکائی
حاصل مصدر
ایسا لفظ جو کسی ایسی کیفیت کو سامنے لائے جو کسی چیز کا اثر و نتیجہ ہو تو اسے حاصل مصدر سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً جلناسے جلن ،تڑپنا سے تڑپ ۔حاصل مصدر کی ساخت مصدر میں تغیر و تبدل سے ممکن ہے ۔اس کی مثالیں درج ذیل ہیں :

میر ا اپنا جُد ا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
۱۔ ہماری جدائی کا یو کلکلاٹ اس پر پڑو۔ ( ملا وجہیؔ)
۲۔اچاٹ ہر گز نیں ٹلملاٹ ہر گز نیں جاتا ۔ ( ملا وجہیؔ)
۳۔ بادشاہاں کوں بسراٹ نہیں ( ملا وجہیؔ )
۴۔ جانو قدیم آشنا ،جانو قدیم جان پہچان ( ملا وجہیؔ)
۵۔ کدھاں لگ یوں رہنا پیو بن زنجیدہ کر کے من اپنا
مرایاں کون ہے جیو کا جو بولوں سب روؤن اپنا (ہاشمیؔ)
اسم حالیہ :
یہ اسم فاعل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرتا ہے اوراس میں فعل کے معنی موجود ہوتے ہیں ۔ اسم حالیہ کی تشکیل کے لیے مصدر کی علامت ’ نا ‘ کو ہٹاکر ’ تا ‘ سے بدلتے ہیں۔ جیسے احسن مسکراتا جاتا تھا ۔
یہی جی میں آیا کہ گھر سے نکل
ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل
ہنستے ہنستے تو کیا قتل گنہگاروں کو
رو دیا دیکھ کے جلاد نے زنداں خالی
دکنی سے اسم حالیہ کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
لہلاتے چمن کے جھاڑاں پر
آئی ہے پھول پھل ھور بار خوشی
( غواصیؔ)
اُنو آویں تو پردے سے نکل کر بہار بیٹھوں گی
بہانہ کر کے موتیاں کا پروتی ہار بیٹھوں گی
(غواصیؔ)
اشتیاقی زلف کی دھر دوڑتے آیا ہو ں میں
جوں مسافر چین کا کرتا ہے منزل طے ہزار
(بحریؔ)

ہنس چال لے پیا تئیں آتے لٹکتے دیکھی
پردا نین میانے راکھوں نہ تو تیا کا
(شاہیؔ)
اس مقالے میں ان اہم امور پر روشنی ڈالی گئی جو اردواور دکنی زبان کے لسانی ارتقا کی تفہیم میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔جہاں تک حالیہ کاتعلق ہے اس میں فاعل یا مفعول کی مجموعی کیفیت کی جلوہ گری کی کیفیت قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ہر بچہ جب اس دنیامیں آنکھ کھولتاہے تو وہ روتا ہواآتاہے زندگی کے مختلف مراحل طے کرتاہے اور کوہِ ندا کی صدا سُن کر اپنے پس ماندگان کو روتاہوا چھوڑ کر ساتواں در کھول کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب روانہ ہو جاتاہے ۔جانے والا تو چلا جاتاہے مگر رونے والے اُس کی دائمی مفارقت کے غم میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کرتے ہیں۔متاع علم و ادب کو لُٹتا دیکھ کر قافلہ جا رہاہے مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔پیہم شکست دِل کے نتیجے میں وہ بے حسی پیدا ہو چُکی ہے کہ کسی کی دائمی مفارقت پر کوئی دِل گر فتہ نہیں ہوتا۔لسانیات میں افعال کا کمال یہ ہے کہ یہ عادی دروغ گو ،پیشہ ور ٹھگوں اور فریب کاروں کے پُر فریب اقوال سے روزو شب کے اعمال پر پڑنے والی گردِ ملال کو صاف کر کے اضمحلال سے نجات دلاتے ہیں ۔
مآخذ
(1) Leonard Bloomfield:Language ,Henry Holt and Company ,New York,1914,Page 170
(2) مولوی فتح محمد خان جالندھری : مصباح القواعد ، حیدر آباددکن ، عہد آفریں پریس ، ص86۔
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 609236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.