ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے خیر البشر حضرت محمدﷺ

ساراعالم اندھیروں میں ڈوبا ہواتھااُورکاروان زندگی اپنی راہ و منزل کو گم کر نے کے بعدبھول بھلیوں میں سرگرداں تھا۔چونکہ جرم وگناہ تاریکی میں نشوونما پاتے ہیں لہذا اُس وقت کے انسانوں کی زندگی مجرموں، بدکاروں،ظالموں اور استحصالی قوتوں کی محکوم بن چکی تھی۔کسی کاکوئی غم خوار نہ تھاہر طرف فساد اُور ظلم کا دُور تھا۔حیات انسانی کا وجود شرک و بت پرستی سے پارہ پارہ ہوچکا تھااُورانسان تضادات کا شکارہو کر بے بسی اُور بے چارگی کی علامت بن چکا تھا۔ عالم میں ہر طرف نا انصافی اُور ابتری پھیل چکی تھی اس صورتحال پررُوح انسانی کے ساتھ ساتھ رُوح کائنات بھی پریشان تھی بس کسی نجات دہندہ کا انتظار تھا۔ اﷲ نے اگرچہ اس دنیا کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مختلف ادوار میں نبی مبعوث کئے مگرسوا لاکھ انبیاء کی بعثت کے بعد بھی سارا عالم جرم وگناہ کی پگڈنڈیوں پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا کہ ایسے میں رُشد و ہدایت کا آفتاب درخشاں طلوع ہوا اُور یوں انسانوں پر دنیوی و اُخروی کامیابیوں کے دروازے کھل گئے ۔ اﷲ اپنے کملی والے کا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں’’اے نبیؐ آپ میرے خاص الخاص بندے اور رسول ہیں میں نے آپ کا نام متوکل رکھ دیا۔نہ آپ درشت خو ہیں اور نہ سخت دل ہیں اُور نہ بازاروں میں شور و شغب کرنے والے ہیں۔برائی کا بدلہ برائی سے کبھی نہیں دیتے‘‘۔بے شک پیغمبر کی ذات اقد س مبارکہ اس دنیا میں سراپاء رحمت بن کرآئی تھی آپ نے اخلاق حسنہ کی ایسی شاندارمثال قائم کی کہ آپ کے جانی دشمن ابو سفیان کو بھی قیصر ڑُوم کے دربار میں آپ کے اسوہ حسنہ کی شہادت و گواہی دینی پڑی۔میرے لیے مشکل ہے کہ میں اُس عظیم ہستی کی زندگی کے تمام گوشوں کا تذکرہ کرپاؤں ۔اُن کی کن کن خوبیوں کو صفحہ قرطاس پر بکھیرو اور کن خوبیوں کو بالائے طاق رکھ دوں؟۔میں آپ لوگوں کوطائف کے سفر کی سیر و سیاحت سناؤں یا فتح مکہ کی داستان سناؤں ؟۔ جنگ اُحد کی منظر کشی کروں یا جنگ حنین میں آپ کے اخلاق کی جھلک دکھاؤں؟۔کیا کیا بتاؤں اور کہاں تک بتاؤں؟؟ ۔مکّہ و مدینہ کی گلیاں اور ریگستان آپ کے حسن سلوک کے گواہ ہیں۔ جزیرہ عرب کی پُر کیف فضائیں آپﷺ کی حمد وثناء میں ہر دم مصروف ہیں۔فتح مکّہ کے واقعات سے کون سا بندہ واقف نہیں اور اُس دن نبی کریمؐ کا اپنے جانی دشمنوں سے برتاؤ اُور اخلاق کریمہ کسی سے چھپا نہیں۔فتح مکّہ پر سب مجرمین صحن کعبہ میں سر جھکائے بیٹھے تھے ان لوگوں میں وہ بھی تھے جنہوں نے آپ کو تکلیفیں پہنچائی ، راستے میں کانٹے بچھائے ،نجاستیں پھینکی ،پتھر مارے اُور گالیاں دی۔انہی میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپؐ کے پیاروں کا خون بہایا اُور اُن کے کلیجے کو چبایا ۔مگراُس پاک ذات کریم ؐ نے عفو و درگزر کا معاملہ فرمایا۔ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے خیر البشر حضرت محمدؐ تک کے سفر میں انسانیت نے بہت سے سبق سیکھے۔آپؐ کوچالیس سال کی عمر میں جب پوری انسانیت کو را ہ ہدایت پر ڈالنے کی ذمہ داری سونپی گئی توآپؐ غارحرا ء سے ’’اقراء بسم رب کل الذی خلق‘‘ کاایسا نسخہ کیمیاء لے کر نکلے کہ جس نے انسانی تہذیب کے سب قرینے بدل دئیے۔بارگاہ نبویﷺ کی نسبت سے زمین ارجمند بن گئی اور نعلین مبارک کے بوسہ سے آسمان بلند و بامراد ہوگیا۔آپ کی ذات اقدس نے ارقم کے گھر سے علم کا دیپ جلایا اور صفاء کے چبوترے سے پھوٹنے والی روشنی نے ساری کائنات کو منور کر دیا۔محسن انسانیت نے مسجد نبوی کو صرف ادائیگی نماز کے لیے مختص نہ کیا بلکہ یہ عالم اسلام کی پہلی درس گاہ بھی بن گئی۔صحابہ اور نومسلموں کو جہاں معاشرت سکھائی جاتی،جہاں عابد تیار ہوتے،جہاں اخلاق پڑھائے جاتے، جہاں حافظ بنائے جاتے،جہاں آداب حکمرانی سکھائے جاتے،جہاں حکمت ودانائی کے باب کھولے جاتے اُور جہاں معیشت کے اسباق پڑھائے جاتے۔

حجتہ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے نظر اُٹھا کر اس عظیم الشان مجمع کو دیکھاتو فرائض نبوت کے 23سال کے نتائج نگاہوں کے سامنے تھے۔زمین سے آسمان تک قبول و اعتراف حق کا نور تھا۔انبیاء سابق کے فرائض تبلیغ کے کارناموں پر ختم نبوت اور ختم رسالت کی مہر ثبت ہورہی تھی اُور دنیا اپنی تخلیق کے لاکھوں برس بعد دین فطرت کی تکمیل کا مژدہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے سُن رہی تھی۔اسی عالم میں قصویٰ اونٹنی پر سوار تاجدار مدینہ نے فرمایا’’اے لوگو! میری بات غور سے سنو،اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہو گا۔کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے اُور نہ کسی کالے کو گورے پر اُور گورے کو کالے پر برتری اور فضیلت حاصل ہے‘‘ ۔ اس کے بعد مزید فرمایا’’اے گروہ قریش! قیامت کے دن ایسا نہ ہو کہ تم اپنی گردنوں پردنیا کا بوجھ اُٹھائے ہوئے آؤ اُور لوگ آخرت کا سامان لے کر آئیں۔یاد رکھو! اگر ایسا ہوا تو میں تمہیں اﷲ کے عذاب سے نہ بچا سکوں گا‘‘۔مزیدارشاد نبویﷺ ہے’’خبردار!زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے رُوند دی گئی ہیں زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں۔لوگو! تمہاری جانیں،تمہارے اموال اور تمہاری عزت و آبرو قیامت تک ایک دوسرے کے لیے حرام ہیں اُور تم سب عنقریب اپنے پروردگار سے جا ملو گے‘‘۔یہ وہ آخری خطبہ تھا جس کے کچھ عرصہ بعد آپؐ رحلت فرماگئے۔رسول مقبول صلی اﷲ علیہ و سلم کے تمام مکارم اخلاق،انداز اطاعت و عبادت،حالات جلوت و خلوت،تمام اعمال و اقوال،معاملات زندگی اُورتعلقات کار ہر قوم، ہرطبقہ، ہر جماعت اور ہر فرد کے لیے اُور اسی طرح ہر وقت اور زمانہ کے لیے بہترین نمونہ و مثال ہیں۔ہماری اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا ہیکہ سب مسلمانوں کو اپنے محبوب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بابرکت سنتوں کی اتباع اور اُن کی پاکیزہ تعلیمات پر اخلاص و صدق سے عمل پیراء ہونے کی توفیق عطا فرمائیں اور اس کی بدولت اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی رضائے واسعہ و کاملہ اور آپؐ کی شفاعت کبرٰی کی عظیم دولت نصیب فرما دیں۔آمین
 

Imran Amin
About the Author: Imran Amin Read More Articles by Imran Amin: 49 Articles with 30473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.