کلام مجید کی تأثیر قلب ہے کہ یہ دل کو لگنے والی بات ہے.
اس کا اصل اعجاز یہی ہے کہ یہ دل کو جا کر لگتی ہے بشرطیکہ پڑھنے والے کے
اندر تعصب‘ ضد اور ہٹ دھرمی نہ ہو اور اسے زبان سے اتنی واقفیت ہو جائے کہ
براہِ راست قرآن اس کے دل پر اتر سکے. یہ قرآن کے اعجاز کا اصل پہلو ہے.
لیکن اضافی طور پر جان لیجئے کہ جس وقت قرآن نازل ہوا اُس وقت کے اعتبار
سے اس کے معجزہ ہونے کا نمایاں اور اہم تر پہلو اِس کی ادبیت‘ اِس کی فصاحت
و بلاغت ‘ا س میں الفاظ کا انتخاب‘ بندشیں اور ترکیبیں‘ اس کی مٹھاس اور اس
کا صوتی آہنگ ہے. یہ درحقیقت نزول کے وقت قرآن کے معجزہ ہونے کا سب سے
نمایاں پہلو ہے۔
جن لوگوں کی مادری زبان عربی ہے وہ آج بھی قرآن کے اِس اعجاز کو محسوس کر
سکتے ہیں. غیرعرب لوگوں کے لیے اس کو محسوس کرنا ممکن نہیں ہے. اگر کوئی
اپنی محنت سے عربی زبان میں مہارت حاصل کرلے تو وہ اس مٹھاس کو بدراجہ اتم
محسوس کرسکتاہے ۔قرآن کی فصاحت و بلاغت‘ اس کی ادبیت‘ اور اس کے صوتی
آہنگ کی معجزانہ تأثیر آج بھی انسانیت کے سینوں پر گہرے نقوش رقم کئیے
ہوئے ہے ۔
آئیے اس عظیم کلام الہی سے سورۃ معارج کے بارے میں جاننے کی سعادت حاصل
کرتے ہیں ۔
سورۂ معارج مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس سورت میں 2رکوع، 44آیتیں ہیں
۔
وجہ تسمیہ:
معارج کا معنی ہے بلندیاں اورا س سورت کی تیسری آیت میں مذکور لفظ
’’اَلْمَعَارِجْ ‘‘ کی مناسبت سے ا س کا نام سورۂ معارج رکھا گیا ہے۔
قارئین آئیے ہم یہ جانتے ہیں کہ آخر اس سورۃ میں کیا کلام فرمایاگیا ہے
تاکہ ہم بھی اس سے خوب سے خوب مستفید ہوسکیں ۔
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں قیامت،مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے
جانے،جزا اور حساب کے بارے میں بیان کیا گیا ہے اور عذابِ جہنم کی
کَیفِیَّت بتائی گئی ہے ،نیز اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں بتایا گیا کہ کفارِ مکہ جس عذاب کا مذاق اُڑاتے
ہیں اور اس کے جلد نازل ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں وہ عذاب اللّٰہ تعالیٰ کی
طرف سے ان پر واقع ہونے والا ہے اور اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ۔
(2)…حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
کفار کی طرف سے پہنچے والی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی۔
(3)…قیامت،جہنم اور اس کے عذاب کی ہَولناکیاں بیان کی گئیں اور کافروں کا
اُخروی حال بتایاگیا۔
(4)…یہ بتایا گیا کہ عام انسان کا حال یہ ہے کہ جب اسے کوئی ناگوار حالت
پیش آتی ہے تو وہ اس پر صبر نہیں کرتا اور جب اسے مال ملتا ہے تو وہ اسے
اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا۔
(5)…مسلمانوں کے 8وہ اوصاف بیان کئے گئے جن کی وجہ سے وہ مشرکین سے ممتاز
ہیں ۔
(6)…اس سورت کے آخر میں کفارِ مکہ کی سَرزَنِش کی گئی اور نبی کریم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ان کے
سامنے کفار کا اُخروی انجام بیان کیا گیا۔
اے ہمارے پیارے اللہ!!
ہمیں دین کا فہم اس پر عمل کا جذبہ عطافرمااور ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں
میں شمار فرما۔آمین
|