آپ کا اصل نام سید محمّد عثمان مروندی تھا ۔ آپ 1177ء
بمطابق 538ھ کو موجودہ افغانستان کے شہر کندھار کے جنوب میں واقع ضلع مروند
جسے میوند بھی کہتے ہیں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام ابراھیم
کبیرالدین اور والدہ کا نام ماجدہ کبیر الدین تھا۔ آپ کے والدین بھی زہد و
تقویٰ کی بدولت کافی مشہور تھے اور دینی درس و تدریس سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ
کے آباؤ اجداد عراق سے ہجرت کر کے ایران سے ہوتے ہوئے افغانستان میں آباد
تھے۔ آپ بھی مسلم دنیا گھوم کر سیہون شریف( سندھ) کو پسند فرما کرآباد ہوئے
اور یہیں پر مدفون ہیں۔
آپ کو سندھ میں تصوف کا بانی کہا جاتا ہے اور لعل شہباز قلندر کے نام سے
معروف ہیں۔ آپ کو “لعل” یاقوتی رنگ کا خرقہ زیب تن کرنے اور پُرکشش شخصیت
کی بنا پر، “شہباز” شرافت اور خدا پرستی اور “قلندر” قلندرانہ مزاج و انداز
کی بنا پر کہا جانے لگا اور آج تک آپ کو لعل شہباز قلندر یا سخی شہباز
قلندر نہایت احترام کے ساتھ کہا جاتا ہے۔ آپ کا شجرہ نسب امام جعفر(رض) سے
جا کر ملتا ہے۔
آپ مشہور زمانہ صوفی بزرگ، صوفی شاعر اور فلسفی تھے۔ آپ مذہبی رواداری کی
بنا پر مسلمانوں اور ہندوؤں میں یکساں مقبول تھے یہاں تک کہ سندھی ہندو آپ
کو اپنے سرپرست دیوتا “جھولے لعل” کا اوتار سمجھنے لگے، بعد میں سندھی
مسلمان اور ہندو دونوں جھولے لعل کے عرف سے آپ کو پکارنے لگے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی۔ آپ نے محض سات سال کی عمر میں
قرآن حفظ کر لیا تھا۔ آپ شروع ہی سے روحانیت کو پسند کرتے اور مزید حصول
علم کی خاطر دور دراز علاقوں اور ملکوں کے سفر پر نکل گئے اور مختلف جید
علماء سے علم کی پیاس بجھائی۔ آپ نے حجاز، عراق، ایران، افغانستان، ہند،
مکران، ملتان اور جونا گڑھ کے سفر کئے پر حضرت بوعلی شاہ قلندر کے کہنے پر
سندھ میں سیہون شریف میں سکونت اختیار کی۔ آپ جہاں قدم رکھتے وہاں لوگ اُمڈ
کر آتے اور مشرف بہ اسلام ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی کرامات سے
نوازا تھا، جنہیں آپ لوگوں کی بھلائی اور اسلام کی تبلیغ کے لئے بروئے کار
لاتے۔
آپ قلندارنہ مزاج کے مالک صوفی درویش صفت انسان تھے۔ آپ کی شخصیت میں اللہ
نے بَلا کی کشش رکھی تھی، آپ جہاں جاتے وہاں لوگوں کا ہجوم آپ سے ملنے کے
لئے نکلتا اور آپ کے روحانی جاہ و جلال سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں
داخل ہوتے۔ آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ بیماروں کو شفا نصیب فرماتے، اللہ
کی مدد سے سائل خالی جھولی کبھی نہیں واپس لے کر جاتے۔ اللہ کے ہاں سے
نوازے گئے آپ کے کرامات کی بہت سے کرشماتی قصے زبان زد عام ہیں، جو غریب
لوگوں کی مدد اور بھٹکے ہوئے کو راہ راست پر لانے اور اسلام کی طرف راغب کر
کے دائرۂ اسلام میں داخل کرنے پر مشتمل ہیں۔
آپ کے تین اور دوست تھے، حضرت بہاؤالدین زکریا(رح)، بابا فریدالدین گنج
شکر(رح) اور سیّد جلال الدین(رح)۔ آپ چہاروں اولیاء کرام کی روحانی دوستی
کو چہار یار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چہار یار سندھ اور ہند میں اسلام
کی تبلیغ میں پیش پیش تھے اور بہت سارے غیر مسلم آپ کے دست مبارک سے مشرف
بہ اسلام ہوئے۔
آپ صرف و نحو کے ماہر باعمل صوفی بزرگ تھے۔ آپ بہت سی زبانیں جانتے تھے،
اور عربی، فارسی، پشتو، پنجابی، ترکی، سندھی ،ہندی اور سنسکرت پر آپ کو
مکمل عبور حاصل تھا۔ مختلف زبانوں میں آپ سے بہت سی تالیفات مروی ہیں۔ آپ
کی شاعری عشق حقیقی اور انسانوں کی ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کے
درس پر مبنی ہے۔
آپ ایک دفعہ اللہ کی یاد میں غرق ہو کر وجد میں آکر رقص کرنے لگے، آج تک
آپ کے عقیدت مند حضرات آپ کے مزار پر اسی وجدانہ رقص کی یاد میں دھمال
ڈالتے ہیں۔ مقبول صوفیانہ کلام پر مشتمل گانا دما دم مست قلندر میں آپ ہی
کا ذکر ہے جسے نہایت عقیدت کے ساتھ پاکستان، ہندوستان، افغانستان اور بنگلہ
دیش کے نامور گلوکاروں نے گایا ہے۔
لعل شہباز قلندر لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ص سے ملاتے ملاتے تقریباً
سو سال کی عمر میں 1274ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ سیہون شریف میں مدفون
ہیں، 1356ء میں آپ کے مزار پر عالی شان مقبرہ تعمیر کرایا گیا اور ہر سال
اسلامی کیلنڈر کے آٹھویں مہینے شعبان کے 18 تاریخ کو آپ کا عرس عقیدت کے
ساتھ منایا جاتا ہے۔
سیہون شریف آپ کی آمد کی برکت سے بہت سی خرافات سے پاک ہو کر اب تک آپ ہی
کی بدولت مشہور ہے۔ میں اور آپ جو کلمہ توحید کے پڑھنے اور ماننے والوں میں
شامل ہیں یہ سخی شہباز قلندر جیسے اولیاء کرام کی تبلیغی خدمات ہی کی بدولت
ہے۔ اللہ تعالیٰ لعل شہباز قلندر اور آپ جیسے تمام اولیاء کرام کے درجات
جنت میں بلند فرمائے( آمین) ۔
|