یورپ اور مغرب اپنے اپ کو بہت روشن خیال،روادار اور پر امن کہتے ہیں۔ انہوں نے شدت پسندی کو اسلام سے زبردستی جوڑا ہوا ہے حالانکہ شدت پسندی جتنی مغرب میں ہے اتنی اسلامی دنیا میں نہیں۔ اسلامی دنیا میں تو فساد کا بیج ہی وہ بوتا ہے اور پھر اگر کوئی غیرت مند اٹھ کر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے تو اسے دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔ ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم مسلمان بجائے دشمن کو اور اس کی چال کو پہنچاننے کے خود اپنے ہی ملکوں میں دہشت گردی پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور بقول بعضے گردن بھی مسلمان ہے تو خنجر بھی مسلمان اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم کھل کر اسلام اور مسلمان کے خلاف بولتے ہیں۔ بار بار ہمارے دین کی تضحیک کی جاتی ہے کیونکہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ ِمفاجات ہی ہوتی ہے بلکہ یہاں تو مرگِ مسلسل ہے۔ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر مرنے کا مقام کیا ہوگا کہ اُس کے پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی جائے جو مغرب مسلسل کر رہا ہے کبھی ایک ملک اور کبھی دوسرا ملک گستاخانہ خاکے شائع کرکے مسلمانوں کی غیرت کو للکارتا ہے کچھ عرصے نہیں بلکہ کچھ دن مسلم دنیا میں ہیجان اٹھتا ہے اور پھر اپنی موت آپ مر جاتا ہے یہ ہیجان عوامی سطح پر احتجاج کی صورت میں ہی ہوتا ہے چند ایک حکومتوں کے علاوہ باقی ممالک منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔وہی ممالک جو خود کو اسلام کا علمبردار اور ٹھیکیدار سمجھتے ہیں خاموشی سے موت سے بھی بڑھ کر یہ حادثہ سہہ جاتے ہیں اور اُف تک نہیں کرتے اور پھر یہی مغرب دوبارہ کسی ایسے ہی حملے کے لیے تیاری پکڑنے لگتاہے اور اس میں کسی ملک کی تخصیص نہیں، کبھی امریکہ میں نعوذباللہ قرآن شریف کو نذرِآتش کیا جاتا ہے، کبھی ہالینڈ میں کوئی قابل اعتراض فلم بنائی جاتی ہے اور ناروے اور فرانس تو سب سے آگے بڑھ کر بار بار یہ جرم کرتے ہیں۔ ہمارے پاک نبیﷺ کے خاکے بنائے جاتے ہیں اور چھاپے جاتے ہیں۔ اسلاموفوبیا میں مبتلاء یہ ملک اسلامی شعائر پر پابندی لگاتے ہیں کبھی توہین آمیز خاکے شائع کرتے ہیں یعنی جیسے بھی ہومسلمانوں کی دل آزاری کی جائے اگر چہ ایسا کرنے والوں کی حکومتی تحفظ ضرور حاصل ہوتا ہے لیکن اس بار تو فرانس کے صدر ایمانیول میکرون نے انہیں حکومتی سرپرستی مہیا کی۔ کچھ دن پہلے ہسٹری اور جیوگرافی کے ایک فرانسیسی سکول ٹیچر سموئیل پاٹے نے اپنے طلباء کو پڑھاتے ہوئے چارلی ہیبڈومیگزین میں پانچ سال پہلے شائع ہونے والے پیغمبر اسلا م ﷺ کے توہین آمیز خاکے کلاس میں دکھائے جس پر ایک مسلمان چیچن تارکِ وطن طالبعلم نے اگلے روز اس کو قتل کردیا۔ مقتول ٹیچر کو قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا بلکہ قومی اعزاز بھی دیا گیا جس سے مسلمانوں کے جذبات مزید مجروح ہوئے۔ اس واقعے کے بعد فرانس میں ایک بار پھر توہین آمیز خاکے شائع کیے گئے اور فرانس کا صدر ایمانیول میکرون بھی میدان میں آگیا جس نے اعلان کیا کہ فرانس ان خاکوں کو واپس نہیں لے گا ہاں مخالفین کو ہتھیار ڈالنا پڑیں گے کہ سب کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے اور اسے انہیں ماننا پڑے گا اور یہ کہ ہم سیکولرازم لائیں گے یعنی باالفاظ دیگر مسلمانوں کو سیکولربنائیں گے۔فرانسیسی صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ فرنچ سیکولرازم اور اسلام جسے اس نے فرنچ ورژن آف اسلام کہا کو ملاکر ایک روشن خیال اسلام بنائیں گے۔ اس کے یہ بیانات ہی اس وقت اسے نہ صرف فرانس میں بسنے والے پچاس لاکھ مسلمانوں کا نا پسندیدہ ترین شخص بنا رہے ہیں بلکہ پوری دنیا کے اربوں مسلمان اس پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ مساجد کو بھی حکومتی سطح پر چلایا جائے گا یا د رہے کہ اس وقت فرانس میں تقریباً ڈھائی ہزار مساجدموجود ہیں جن میں سے تقریباً آدھوں کے امام ترک ہیں اور ترکی نے فرنچ صدر کے بیانات پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسے ذہنی مریض قرارد ے کر اسے ذہنی معائنہ کرنے کو کہا ہے اور عوام سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے بھی کہا۔یہ حقیقت ہے کہ اگر تمام عالم اسلام ان مصنوعات کا بائیکاٹ کر لے تو وہ فرانس کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان نے بھی فرانسیسی سفیرکو بلاکر احتجا ج کیا اور وزیر اعظم عمران خان نے فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کو بھی ایک خط لکھا جس میں اس سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ فیس بک سے توہین آمیز اور قابل اعتراض مواد ہٹائے۔ انہوں نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ان سے نبی پاک ﷺ کے بارے میں مغربی رویے پر مشترکہ پالیسی بنانے پر زور دیا ہے۔ پاکستان میں عوامی سطح پر اور سوشل میڈیا پر فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک بھی چلائی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن جب تک امت مسلمہ یکجا ہوکر باہمی اتفاق و اتحاد سے مغرب کی ان حرکات کے خلاف مل کر کوئی موئثر پالیسی نہیں بنائیں گے وہ اسی طرح شعائر اسلامی اور آقائے دو جہاں ﷺ کی ذات پر منحوس حملے کرتے رہیں گے۔ کبھی وہ حجاب پر پابندی لگائیں گے، کبھی مساجدپر،کبھی قرآن پاک پر حملے کریں گے اور کبھی صاحب قرآنﷺ کی ذات پر۔ کمزوری ہم مسلمانوں کی ہے اور ہمارا المیہ ہی آپس کی نااتفاقی ہے۔ مسلمان آپس میں دست و گریبان ہیں اور غیر ان کے اوپر مختلف طریقوں سے حملہ آور۔ کاش کہ ہم مسلمان جو اپنے پاک نبیﷺ پر اپنی جان اور اپنے ماں باپ کو قربان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اٹھ کھڑے ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کریں اور انہیں معاشی طور پر نقصان پہنچاکر یہ احساس دلائیں کہ آج کل جنگیں معاشی میدان میں لڑی جاتی ہیں لہٰذا مسلمہ امہ ایک بڑی آبادی ہونے کی وجہ سے ایک بڑی کنزیومرہے اور وہ ان کے لیے بغیر جنگ لڑے بھی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ سفارتی سطح پر اس نکتہ ء نظر سے کام کیا جانا چاہیئے کہ مغرب کو احساس دلایاجائے کہ جب تک وہ اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائیں گے تب تک دہشت گردی نہیں روکی جا سکتی اور یہ بھی کہ مغرب جو کچھ کر رہاہے وہ بھی دہشت گردی کے ہی زمرے میں آتا ہے لہٰذا اسے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، اور جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے دوسالانہ اجلاسوں میں اسلاموفوبیا اور اظہارِرائے کی آزادی پر بات کی ہے اگر سارے مسلمان سربراہ اسی طرح کھل کر بات کریں تو مغرب کو مجبور کیا جاسکے گا کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کریں اور بجائے اس کے کہ فرانسیسی صدر مسلمانوں کوبُرے بھلے کی تمیز سکھائیں مسلمان ملک انہیں اپنی اہمیت جتائیں اور انہیں یہ بھی بتائیں کہ مسلمان ملکوں میں اگر دشمن قوتیں دہشتگردوں کی معاونت چھوڑدیں تو پھر یہ ملک بھی سکون سے رہیں جو مغرب کو گوارا نہیں۔ فرانسیسی صدر کو اپنے رویے کی وجہ سے اب کسی بھی قسم کے نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیئے کیونکہ اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ مسلمان جتنا بھی بُرا ہو وہ ایک چیز برداشت نہیں کر سکتا وہ ہے اپنے پیارے نبیﷺ کی ذات کے بارے میں کوئی بھی گستاخی او راگر مغرب نے اپنا رویہ نہ بدلا تو نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ |