اور اب کمسن مسیحی دوشیزہ پر نظر کرم

ہمارے ہاں جب کوئی مسلمان لڑکی کسی مسلمان ہی لڑکے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو برآمد کر کے زمین میں زندہ گاڑ دی جاتی ہے کہیں باندھ کے جلائی جاتی ہے تو کہیں بھیڑ بکری کی طرح ذبح کر دی جاتی ہے تو کہیں گولیوں سے بھون دی جاتی ہے ۔ مگر جب بالکل اسی طرح کوئی ہندو لڑکی کسی مسلمان شخص کے ساتھ گھر سے بھاگتی ہے اور اپنے ماں باپ کا منہ کالا کر کے مسلمان ہو جاتی ہے تو ہر طرف سے ماشاء اللہ اور الحمد للہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ پھر یہ لڑکی اپنے اس ٹٹ پونجیے بھگوڑے عاشق کے ساتھ نکاح بھی پڑھوا لیتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ اور بال بچے دار ہوتا ہے ۔ پھر بھگوڑوں کی اس جوڑی پر برستے داد و تحسین کے ڈونگروں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر ایسے ہی کوئی ہندو یا مسیحی لڑکا کسی مسلمان لڑکی کو بھگا لے جائے اور اپنے چرچ یا مندر میں اسے اپنے مذہب میں داخل کر کے اس سے شادی کرے تو اس پر اعتراض یا احتجاج کا کیا جواز بنتا ہے؟

اپنی باری میں غیرت کا معیار کچھ اور ہوتا ہے جس کا ٹھیکا صرف ایک مسلمان لڑکی نے اٹھا رکھا ہوتا ہے ۔ ایک غریب غیر مسلم کی کوئی عزت نہیں ہے اس کی ناموس کی کوئی قیمت نہیں ہے وہ لڑکی کو چوری چھپے گھر سے بھگا کر ہی کیوں چکائی جاتی ہے؟ جو رعایت خود اپنی بہن بیٹی کو حاصل نہیں ہے وہ کسی پرائی اوپر سے غیر مسلم لڑکی پر کیونکر جائز ہو جاتی ہے؟ خود اپنے ہاں کی لڑکیوں کی حالت زار سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا مگر کافروں اور مشرکوں کی کمسن ناسمجھ لڑکیوں کی عاقبت سنوارنے کا بڑا شوق ہوتا ہے انہیں ۔

نا تو اسلام قبول کرنا بری بات ہے اور نا ہی نکاح پڑھوانا منع ہے مگر یہ کام اپنے ماں باپ سے چھپا کر اور گھر سے بھاگ کر ہی کیوں کیا جاتا ہے؟ چاہے معاشی اور سماجی وجوہات کی بناء پر ہی سہی مگر اپنے والدین کے منہ پر کالک مل کر تبدیلیء مذہب اور پھر شادی کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی ۔ اور ایسے اکثر ہی کیسوں میں سب سے بڑا محرک عاشقی معشوقی کا ہی معاملہ ہوتا ہے ۔ مذہب کی تو محض آڑ ہی لی جاتی ہے اصل مقصد تو اپنے حالات کی تبدیلی ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہونے والا بیانیہ تو سب سے بڑا ڈھکوسلہ ہے ۔ اسلام میں کہاں لکھا ہے کہ لڑکی گھر سے بھاگ جائے وہ بھی ہندو یا مسیحی ۔ اور اگر اپنی بھاگے تو اسے زندہ دفن کردو ۔ اب تک تو اندرون سندھ کے ایک مخصوص علاقے میں غریب پسماندہ اور مفلوک الحال طبقے سے تعلق رکھنے والی ہندو لڑکیوں کے اغواء پھر جبری طور پر قبول اسلام اور ساتھ ہی عاشقی معشوقی کے نتیجے میں واقع ہونے والے کیس رپورٹ ہو رہے تھے مگر حال ہی میں کراچی شہر میں ایک محض تیرہ سالہ مسیحی بچی آرزو راجہ کا ایک چھیالیس سالہ شخص کے ساتھ گھر سے فرار ہو کر قبول اسلام اور نکاح کی خبر میڈیا پر زیر گردش ہے ۔ اور جو وڈیو وائرل ہے اس میں یہ بچی اپنی صورت اور آواز سے تیرہ ہی یا زیادہ سے زیادہ پندرہ برس کی معلوم ہو رہی ہے اور اس کی اپنی ماں کے ساتھ بات چیت میں کہیں سے نہیں لگ رہا کہ یہ اغواء کی گئی ہے اس پر اپنے خاوند کے عشق کا بھوت واقعی میں سوار دکھائی دیتا ہے ۔ سوالات تو بہت سے ہیں کہ اتنی کمسن بچی کو اپنے سے کئی گنا بڑی عمر کے شخص میں کیا نظر آیا؟ وہ اس کی کس بات سے متاثر ہوئی اور اگر وہ بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوئی تو ان کو حاصل کرنے کے مواقع اسے کب کہاں اور کیسے میسر آئے اتنی مہلت کیسے ملی؟ کون سی صحبت میں رہ کر وہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے قابل ہوئی؟ اس عمر میں تو برین واشنگ ہی ہو سکتی ہے اور بات اگر اسلام کی ہی پناہ میں آنے کی تھی اور وہ بھی بذریعہء نکاح تو اس نے کسی نوجوان کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟ اور بچی کا نکاح پڑھانے والا قاضی کیا کسی قاعدے قانون سے واقف نہیں تھا؟ پس پردہ جو بھی تفصیلات و توجیہات ہوں ان سے قطع نظر ایک سوال اس جرم میں معاونت کرنے والے منافقوں سے کہ اگر یہی بچی مسلمان ہوتی اور اسے بھگانے والا کوئی مسیحی ہوتا تو کیا اس پوری برادری کی اینٹ سے اینٹ نا بجا دی جاتی؟

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 225 Articles with 1690565 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.