مولانا محمد رمضان لدھیانوی
جامعة النور، کراچی
عشق و محبت کے لفظ دنیا والوں کےلئے نئے نہیں ہے اور دنیا کے مختلف ادیان و
قبائل میں عشق و محبت کی رنگا رنگ داستانیں موجود ہیں، لیکن اسلام کی زرّیں
تاریخ میں ”عشق رسول ا “ ایک ایسا تاریخی اور حیرت انگیز عنوان ہے کہ جس کے
تحت سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ بے شمار ان گنت ایسے حقائق و واقعات
ہیں کہ جن کی نظیر پیش کرنے سے زمانہ عاجز ہے۔
یہ ایسی شخصیت کی محبت کے تذکرے ہیں کہ جس کے دلکش اخلاق و کردار پر نظر
ڈالتے ہی اپنے پرائے فرطِ عقیدت سے سر دھننے لگتے ہیں، جس کا تذکرہ بڑے فخر
سے اپنی مجالس میں کرتے ہیں اور چالیس سال تک جس کو صادق و امین کہتے کہتے
نہیں تھکتے۔ لیکن جب توحید کا آوازہ حق بلند ہوا تو کئی نامور سورماﺅں کو
اپنی ”حکومت“ کی چولیں ہلتی محسوس ہوئیں اور انکی پتھرائی ہوئی آنکھیں حسد
اور انتقام کی آگ اُگلنے لگیں تب سعید روحوں اور روشن ضمیر انسانوں کے
قافلے جرات مردانہ سے آگے بڑھے اور اپنا سب کچھ محبوب کے قدموں پر قربان
کرنے کے ایسے ”عملی نعرے“ لگائے کہ جس سے عرب و عجم کی فضائیں گونج اُٹھیں،
یہ نعرے محض کھوکھلے الفاظ نہیں تھے بلکہ جانبازی و جانثاری کے وہ حیران کن
مناظر تھے جو آج بھی تاریخ کے سینے پر سرخ و تازہ نظر آتے ہیں۔
عشاق مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی صف اوّل ایسے محبین پر مشتمل ہے جنہوں
نے اپنے محبوب کی ہر ایک ادا، ہر ایک حکم اور منشاءپر اس طرح اور فوری عمل
کیا کہ اس سے بہتر کا تصورہی مشکل ہے، اس لئے کہ محبت رسول کا مظہر اطاعت
رسول ا ہے، اگر دعویٰ محبت ہو اور اطاعت مفقود ہو تو دعویٰ کی سچائی پر حرف
آتا ہے، ایک شاعر کہتا ہے
لوکان حبک صادقا لاطعتہ
ان المحب لمن یحب مطیع
اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اس کی اطاعت کرتا کیونکہ محب ہمیشہ اپنے
محبوب کا فرمانبردار ہوا کرتا ہے۔
امت محمدیہ کا کوئی فرد محبت، اطاعت اور اتباع سنت میں صحابہ کرام سے بڑھ
کر نہیں ہوسکتا، اُن حضرات نے محبت کو اپنے دل و دماغ میں بسا کر اتباع سنت
کو اس قدر مضبوطی سے اپنایا کہ کفریہ طاقتیں بھاگنے پر مجبور ہوگئیں اور
بزعمِ خود وقت کی سپر طاقتیں ہاتھ جوڑ کر جزیہ پیش کرتی نظر آئیں۔ لیکن جب
سے ہم نے اتباعِ سنت کو چھوڑا اور صرف عشق رسول کے کھوکھلے نعرے لگائے تب
سے پِٹ رہے ہیں، ذلیل ہورہے ہیں۔
اگر ہم اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی چاہتے ہیں اور یقینا چاہتے ہیں تو آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور اتباعِ سنت کو اپنانا پڑے گا
اور آج سے ہم سب کو ایک نئے عزم اور ولولے سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم سچے
عاشق بنیں گے اور کوئی بھی عمل خلاف سنت نہیں کریں گے۔
ذیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اپنے محبوب اسے سچی محبت اور
اطاعت و اتباعِ رسول کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں، جن سے انشاءاللہ ایمان
تازہ ہوجائے گا اور عمل کا جذبہ بیدار ہوگا۔
محبت ہو تو کیسی ہو
٭ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں (صحابہؓ) کی محبت
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیسی تھی؟ فرمایا: اللہ کی قسم!
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے نزدیک ہمارے اموال، اولاد،
ماں ، باپ اور پیاسے کیلئے ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھی۔
(الشفائ:ج2،ص22)
٭ حضرت نافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اگر تم حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنھما کو رسول اللہﷺ کے آثار یعنی سنتوں کا اتباع کرتے ہوئے دیکھتے تو
تم کہہ اُٹھتے ”ھذا مجنون“ یہ آدمی مجنون ہے۔ (مستدرک491/14)
٭ خادم رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے پیارے بیٹے اگر
تم سے یہ ہوسکے کہ تم صبح اور شام اس حال میں کرو کہ دل میں کسی کیلئے بھی
کھوٹ نہ رہے تو کر گزرو، کیونکہ یہ چیز (ہر قسم کی کدورت سے سینہ پاک رکھنا)
میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی تو گویا اس نے مجھ سے محبت کی
اور جس نے میرے ساتھ محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (الشفائ25/2، مصر)
حکم نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہو تو باپ کو بھی مار دوں
٭ جب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف
لائے تو حضرت طلحہ بن البراءآپ سے ملنے گئے، فرطِ عقیدت سے آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر سے لپٹ گئے اور ہاتھ مبارک اور پاﺅں مبارک چومنے
لگے پھر جوش محبت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ جو چاہیں حکم
دیجئے میں کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور آپ نے فرمایا: جاﺅ اپنے باپ کو قتل کردو اتنا
سننا تھا کہ فوراً تعمیل حکم کے لئے چل پڑے، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
حاضرین سے فرمایا: اس محب صادق کو آواز دو، جب واپس لوٹے تو آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: میں قطع رحمی کے لئے مبعوث نہیں ہوا ہوں (یہ تو محض
تمہارا امتحان تھا جس میں کامیاب رہے)۔ (اسد الغابة114/2)
خطرات کے باوجود تعمیلِ حکم
٭ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
سرکردگی میں شام کی طرف ایک لشکر روانہ کیا جو ابھی مقام جرف میں ہی پہنچا
تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شدید علالت کی خبر پہنچی اور وہ لشکر
وہیں ٹھہر گیا یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا، اب سوال
یہ تھا کہ اس لشکر کو اُسی مہم پر جانے دیا جائے یا پہلے مرتدین کی سرکوبی
کی جائے؟ جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی بہت سے صحابہ کرام اس سے گھبرائے ہوئے
تھے، انہوں نے نومنتخب خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا:
اب یہی مسلمان ہیں جو آپ کے سامنے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ عرب کا کیا
حال ہے؟ اس لئے مناسب نہیں کہ آپ اس وقت مسلمانوں کو الگ الگ کردیں لیکن
حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وقت کے دریا میں ان ابھرنے والی امواجِ
حوادث سے کب سراسیمہ ہوسکتے تھے ان کے نزدیک سب سے پہلا کام جو کرنے کا تھا
اور ضروری بھی تھا وہ یہی ہوسکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جو مہم روانہ فرماگئے تھے وہ تکمیل کو پہنچے
اور ادھوری نہ رہے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: قسم ہے اس
ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر مدینہ اس طرح خالی ہوجائے کہ
میں اکیلا رہ جاﺅں اور درندے مجھ کو بھنبھوڑ کھائیں، میں اس وقت بھی اُسامہ
کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق اس مہم پر ضرور روانہ
کرونگا۔ یہ قطعی فیصلہ معلوم ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے عرض کیا کہ اس لشکر میں سن رسیدہ اور تجربہ
کار صحابہ شامل ہیں جبکہ اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نوجوان ہیں، اس لئے بہتر
ہے کہ امیر لشکر کسی معمر آدمی کو بنا دیجئے، حضرت ابوبکرؓ یہ سنتے ہی غصہ
میں قابو سے باہر ہوگئے اور فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! رسول اللہ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے تو اسامہ کو امیر لشکر مقرر فرمایا اور اب تم کہتے ہو کہ
میں ان کو معزول کردوں، حضرت عمرؓ واپس گئے اور اُن لوگوں سے اظہارِ
ناراضگی کیا جن کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ سے یہ باتیں سننا پڑیں، بہرحال آپ
نے اس لشکر کو روانہ کردیا۔ (سیدنا صدیق اکبر صفحہ 133، طبقات ابن سعد67/4)
اتباع سنّت
٭ حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حجر اسود سے (خطاب کرتے ہوئے)
فرمایا: قسم بخدا، بے شک میں بخوبی جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے، تو (از
خود کسی کو) کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، اگر یہ چیز میں نے نہ دیکھی
ہوتی کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تجھے بوسہ دیا ہے تو تجھے بوسہ
نہ دیتا، اس کے بعد بوسہ لیا۔ (صحیح بخاری218/1)
٭ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی نصف پنڈلیوں تک چادر پہنتے تھے اور
فرماتے تھے کہ میرے صاحب یعنی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی چادر (لنگی)
اسی طرح نصف پنڈلیوں تک تھی۔ (شمائل ترمذی صفحہ ۶۷۵)
تعمیل ارشاد
٭ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسجد کی طرف آرہے تھے
ابھی مسجد میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
خطبہ دیتے ہوئے سامنے کھڑے کسی شخص کے متعلق فرمایا: ”اس کو بٹھا دو“ حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم اگرچہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کیلئے
نہیں تھا لیکن اس کے باوجود جونہی ان کے کان میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی یہ آواز پڑی تو فوراً مسجد کے باہر ہی راستے میں بیٹھ گئے، حضور
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو ان کے اس جذبہ اطاعت کو
دیکھتے ہوئے دعا دی: اللہ تعالیٰ تمہاری اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری
کی حرص میں مزید اضافہ فرمائے۔ (اصابہ664، سیر اعلام النبلا ء232/1)
اطاعت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
٭ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلارہا تھا، ان دنوں فضیح نامی شراب کا بہت
رواج تھا، رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک منادی کو اس بات کے اعلان کا
حکم دیا کہ شراب حرام ہوگئی ہے، حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ
سنتے ہی حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا: باہر جاکر اس شراب
کو بہادو۔ چنانچہ میں نے باہر گلی میں شراب بہادی، اور اس اعلان نبوی کے
بعد شراب مدینہ منورہ کی گلیوں میں بہہ رہی تھی یعنی سب نے نفع نقصان سے
صرفِ نظر کرتے ہوئے فوراً شراب کو بہادیا۔ (صحیح بخاری)
٭ حضرت نافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرؓ
نے بانسری اور گانے کی آواز سنی تو فوراً اپنی انگلیاں اپنے دونوں کانوں
میں رکھ لیں اور راستے سے دور ہٹ گئے اور مجھ سے فرمایا: اے نافع! کیا
تمہیں کوئی آواز سنائی دیتی ہے؟ نافعؒ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: نہیں تو آپ
نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے نکال لیں اور فرمایا:میں ایک دفعہ رسول اللہ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ نے اسی طرح آواز سنی تو اسی طرح
اپنی انگلیاں کانوں میں رکھ لیں۔ (ابوداﺅد )
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، تو اسے
اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایک سونے کی انگوٹھی
ہاتھ میں پہن کر جہنم کی آگ کا انگارہ بننا چاہتا ہے؟ بعد ازیں حضور صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے تو اُسے کہا گیا: اپنی انگوٹھی اٹھا کر اس سے
نفع حاصل کرو، مگر اس سچے عاشق نے کہا: لاواللہ لااخذہ ابدا وقد طرحہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترجمہ:نہیں ، قسم بخدا میں اس انگوٹھی کو کبھی بھی
نہیں اٹھاﺅں گا جسے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھینک دیا ہے۔ (صحیح
مسلم )
وصیت پر عمل
٭ حضرت جابر بن سُلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی وصیت فرمائیے: آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”کسی
کو بھی گالی ہرگز نہ دینا“ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فماسببت
بعدہ حرًا ولا عبدا ولا بعیرا ولاشاة کہ اس کے بعدمیں نے کبھی کسی آزاد
آدمی کو گالی دی نہ غلام کو، حتیٰ کہ اونٹ کو اور نہ بکری کو (ابو داﺅد564/2)
٭ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ سے ارشاد فرمایا: ”کبھی کسی سے سوال نہ کرنا“ حضرت ثوبانؓ نے اس فرمان
مقدس کا اس حد تک پاس کیا کہ عمر بھر کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ
کیا حتی کہ اگر سواری پر بیٹھے ہوئے کوڑا ہاتھ سے گرجاتا تو خود اتر کر
اٹھالیتے، مگر کسی کو اٹھا کر پکڑانے کو نہ کہتے۔ (مسند احمد بن حنبل
277/5)
پسندیدہ کھانا
٭ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے نبی اکرم ا کو
کھانے کی دعوت دی، جو اس نے بڑی چاہت و محبت سے تیار کیا تھا، میں بھی آپ
اکے ہمراہ گیا، اس درزی نے کھانے میں جو کی روٹی اور ایسا شوربہ پیش کیا جس
میں کدو اور گوشت ملا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم پیالے میں کدو کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تناول فرما رہے ہیں پس اس دن کے بعد
میں بھی ہمیشہ کدو پسند کرنے لگا۔ (ابو داﺅد530/2)
اتباع سنت
٭ حضرت سیار کہتے ہیں کہ میں حضرت ثابتؒ بنانی کے ساتھ جارہا تھا، ان کا
گزر بچوں پر ہوا تو آپ نے انہیں سلام کیا، پھر حضرت ثابتؒ نے فرمایا: میں
حضرت انسؓ کے ساتھ تھا، آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا پھر حضرت
انسؓ نے فرمایا: میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا، آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا گزر چند بچوں پر ہوا تو آپ ا نے انہیں سلام کیا۔ (صحیح
مسلم )
اللہ کریم ہم سب کو اپنے محبوب ا سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین |