ریڈیو پاکستان تاریخ ساز ادارہ

پاک و ہند میں واحد نشریاتی ادارہ آل انڈیا ریڈیو تھا، قیام پاکستان کی تحریک چل رہی تھی کہ اس وقت کے واحد نشریاتی سسٹم سے 14 اگست رات 12 بجے اعلان ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے آپ کو آزادی مبارک ہو، سالہا سال سے آزادی کی تحریک میں پرجوش مسلمانوں نے جب مصطفی ہمدانی کی آواز میں یہ خبر سنی تو مسلمان جہاں تھے وہاں ہی سجدہ ریز ہو گئے کیونکہ پاکستان آزاد ہو چکا تھا، دنیا کے نقشہ پر ایک اور ملک پاکستان کا اضافہ ہو چکا تھا، پاکستان کی آزادی کی پہلی خبر ریڈیو پاکستان نے نشر کی تھی۔ آزادی کے وقت پاکستان کے حصہ میں تین ریڈیو سٹیشن پشاور، لاہور، ڈھاکہ آئے تھے جو کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد دو رہ گئے جن میں لاہور، پشاور کے ریڈیو سٹیشن شامل ہیں، اب ملک میں 32 سرکاری ریڈیو اسٹیشنز ہیں۔ آنکھ جھپک کر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو کچھ عرصہ قبل تک ریڈیو پاکستان عوام کو تفریح فراہم کرنے کا واحد موثر ذریعہ تھا، شہری اور دیہاتی علاقوں کے بسنے والوں کے دلوں پر ریڈیو پاکستان کا راج تھا، عوام کی اکثریت ریڈیو سے موسیقی اور ثقافتی پروگرام سن کر محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں سے ملکی حالات سے آگاہ ہوتے تھے، اس زمانے میں ریڈیو بھی صاحب حیثیت لوگوں کے گھروں میں ہوتا تھا، ٹی وی دیہی علاقوں میں نا پید تھا،ٹی وی شہری علاقوں میں امراء کے گھروں میں خال خال ہوتا تھا، ٹی وی کی نشریات کے دن کے وقت مخصوص ٹائم تھے جبکہ ریڈیو رات 12 بجے تک نشریات پیش کرتا تھا، اسی بناء پر شہری اور دیہی علاقوں کے باسی ریڈیو نشریات بڑے شوق سے سنتے تھے، نظام دین ریڈیو پاکستان کا ایک ایسا کردار تھا جس کے کہے بول آج بھی ہمارے بزرگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں۔ ریڈیو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا لیں کہ وادی مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے پاس انٹر نیٹ، ٹیلیفون کی بندش کے بعد واحد ذرائع ابلاغ کا ذریعہ ریڈیو تھا، جس سے مقبوضہ وادی کشمیر کے باسی دنیا کے حالات سے آگاہ ہوتے تھے۔ مگر بھارت کے کہنے پر فیس بک حکام نے ریڈیو کی فیس بک پر شیئرنگ پر پابندی عائد کروا دی۔ اس طرح اب مقبوضہ کشمیر کے محصور مکینوں کا دنیا بھر سے ہر طرح کا مواصلاتی رابطہ کٹ چکا ہے۔اس بات سے بھی کون انکارکرسکتاہے کہ1965اور1971 کی جنگ میں ریڈیو پر نشر ہونے والے ملی ترانوں نے پاک فوج اور عوام کے جذبہ کو جوش و ولولہ دیا تھا۔

زمانہ جدت اختیار کر چکا ہے، ملک میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، فیس بک، وٹس ایپ، ٹویٹر اور نجانے کون کون سے جدید ذرائع ابلاغ نے عوام کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے، لوگوں کی بڑی تعداد اس جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر رہی ہے، مگر اس کے باوجود ریڈیو کی اہمیت کو رد نہیں کیا جا سکتا، ملک میں سرکاری ریڈیو کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایف ایم ریڈیو کا جال چھوٹے بڑے شہروں تک پھیل چکا ہے، فرانس، امریکہ، روس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور ان جیسے دیگر یورپی ممالک میں کوئی بھی سرکاری پیغام اب بھی ریڈیو سے نشر ہونا ضروری ہے، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا صدارتی خطاب کرتے ہیں تو امریکی ٹیلیویڑن کے ساتھ اس خطاب کو ریڈیو سے بھی نشر کیا جانا لازم ہے، ریڈیو کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ریڈیو سستا ترین ذریعہ ابلاغ ہے، جس کی افادیت سے کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لئے ضروری تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان اس سستے ذریعہ ابلاغ کی بڑھوتری کیلئے کام کرتی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنز پر 4400 مستقل آسامیاں ہیں، جن میں اب صرف 2400 مستقل ملازمین کام کر رہے ہیں، اور ریڈیو پاکستان کے مختلف سٹیشنوں سے 20 اکتوبر 2020ء کو 749 چھوٹے ملازمین جن کی تنخواہیں 25 ہزار سے زیادہ نہ ہیں کو یک جنبش قلم فارغ کر دیا گیا، اس طرح 749 خاندانوں کے چولہے ٹھنڈے ہو جانے سے ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آن پہنچی ہے، ان ملازمین کے بچوں کے سکولوں سے نام خارج ہو جانے سے وہ تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں، کیونکہ نکالے گئے ملازمین کی ادارہ کے ذمہ چار چار ماہ کی تنخواہیں باقی ہیں، یہ تنخواہیں مانگنا ہی ان ملازمین کا جرم ٹھہرا؟ جس کی پاداش میں ان ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر دیا گیا، ان کے بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے، اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے اور اسلام آباد میں احتجاج جس سے اپوزیشن رہنماؤں نے خطاب کیا تو حکومت نے ریڈیو کے نکالے گئے ملازمین کیخلاف فوجداری مقدمہ درج کر لیا گیا ۔یہ سب کچھ اس حکومت کے دور میں ہوا ہے جس کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا؟ کپتان جی آپ کی حکومت نے 749 ریڈیو ملازمین کو نکال کر بے روزگار کر دیا ہے، وزیر اعظم صاحب کیا یہ بہتر نہ تھا کہ ان معمولی تنخواہ والے ملازمین کو نکالنے کے بجائے ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنز پر بڑے عہدوں پر لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کرنے والے سیاسی سفارشیوں کی سکروٹنی کر دی جاتی جو ہر سیاسی دور میں بے رحم طریقہ سے ریڈیو پاکستان میں جبری ٹھونسے گئے، جن کا ریڈیو اسٹیشنز پر کوئی کام نہیں اور وہ صرف دفتروں میں چائے پینے اور گپ شپ لگانے آتے ہیں، عمران خان صاحب نکالے گئے کم تنخواہ والے یہ ملازمین تو ریڈیو پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، وزیر اعظم صاحب ریڈیو پاکستان کے نکالے گئے 10 سے 20 سال تک ملازمت کرنے والے 749 ملازمین متاثر نہیں ہوئے بلکہ ان کے خاندان اور کنبے متاثر ہوئے ہیں، وزیر اعظم صاحب ریڈیو کے نکالے گئے ان ملازمین کا معاملہ ملک کے مقتدر ایوان سینٹ میں ہے جو 4 نومبر 2020 کو اس معاملہ پر غور کرے گا، لیکن ریڈیو پاکستان میں موجود مافیا نے بریفنگ تیار کر لی ہے بریفنگ میں ریڈیو پاکستان کا اربوں روپے کا خسارہ ظاہر کیا جائے گا؟ وزیر اعظم صاحب آپکو اس معاملے کو خود دیکھنا ہو گا؟ اور اگر اپوزیشن پر تنقید سے ٹائم مل جائے تو اس طرف بھی توجہ کر لیں، ریڈیو کے متاثرہ ملازمین ،ان کے خاندان آپ سے انصاف اور اپنا حق ملنے کی امید لگائے ہوئے ہیں؟
 

Akram Aamir
About the Author: Akram Aamir Read More Articles by Akram Aamir: 50 Articles with 30291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.