ٹائیگر ہار گیا

میر اکالج کا دوست جس کو ہم دوست پیا ر سے ٹائیگر کہا کر تے تھے تقریباً دس سا ل بعد مجُھ سے ملنے آیا تھا تعلیم حاصل کر نے کے بعد کو ہ مری میں لیکچرار شپ ہونے کے بعد فاصلوں کی دوری اور میرا راہ فقر کی طرف راغب ہونا دوستوں سے دوری کا سبب بنا۔ دس سال پہلے کسی مشترکہ دوست کے ہاں ٹائیگر سے میری آخری ملاقات ہو ئی تھی اُس وقت بھی ٹائیگر میں زندگی کے سارے رنگ اور شوخیاں موجود تھیں لیکن آج جو ٹائیگر میرے سامنے کھڑا تھا اِس کے چہرے پر زندگی کی لالی کی جگہ گردش ایام غربت کی زردی اپنا رنگ جما چکی تھی وزن بہت کم ہو گیا تھا الجھے بال‘ بے رنگ اندر دھنسی ہو ئی آنکھیں ‘ جسم پر پتلی جلد اور ابھری رگیں اُس کی غربت کا اشتہار چلا رہی تھیں آواز میں بھی وہ خوش ترنگ نہیں تھی چلنے میں بھی وہ بانکپن نظر نہیں آرہا تھا وقت غربت بیماری یا کوئی غم ٹائیگر کو تیزی سے چاٹ رہا تھا وہ ٹائیگر جو زندگی کے تما م رنگوں سے بھر پور تھا جو کبڈی کا بہترین کھلاڑی تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اُس کے جسم میں سپرنگ لگے ہوئے ہیں جو زندگی کی بڑی سے بڑی مشکل میں بھی مقابلہ کر نے کا آرٹ جانتا تھا جس کی کبڈی طاقت پھرتی کی پورے علاقے میں دھوم مچی ہو ئی تھی جس نے بچپن سے جوانی تک اپنی جوانی توانائی کو سنبھال رکھا تھا جس کا نام جیت تھا وہ شکست کے نام سے واقف نہیں تھا اُس نے کبھی ہار نہیں مانی تھی بلکہ اُس کی ہمت و استقلال کی وجہ سے جیت کی دیوی نے ہمیشہ اُس کے قدموں کو چوما تھا جس کو اپنی جوانی طاقت کا اتنا خیال تھا کہ باداموں کی بوریاں کھا جاتا چمچوں سے مکھن اور دیسی گھی کھا جاتا جس نے اپنی جوانی طاقت کا مذہب کی طرح خیال کیا تھا آخر اِس کی جوانی کدھر گئی ٹائیگر اُس کو اُس کی طاقت چستی پھرتی کھیل کی اعلیٰ مہارت کی وجہ سے کہا جاتا تھا کبڈی کا غیر معمولی کھلاڑی ہونے کے علاوہ وہ دوسرے کھیلوں میں اپنی جسمانی پھرتی کی وجہ سے ہمیشہ صف اول میں ہی نظر آتا تھا کسی بھی کھیل میں غیر معمولی پر فارمنس کے لیے جس طاقت پھرتی چستی کی ضرورت ہوتی ہے ٹائیگر اِن نعمتوں سے خوب مالا مال تھا منہ زور جوانی اور طاقت کے باوجود ٹائیگر شرمیلی باحیا لڑکیوں کی طرح اپنی جوانی طاقت کی حفاظت کر تا تھا اُس کے لیے ساری دنیا کی لڑکیاں اُس کی بہنیں تھیں اُس کی آنکھ میں سب عورتوں کے لیے ادب شرم و حیا تھی کو ئی بھی عورت اُس کے سامنے آتی تو اُس کی نظریں زمین میں دھنس جاتیں ۔تہجد کے وقت اُٹھ کر نوافل ادا کرنے کے بعد مشکل ترین جسمانی ورزشیں کر کے اپنی پھرتی کو قائم رکھتا تھا طاقت منہ زور جوانی کو سنبھالنا عام گندم کھانے والے مردوں کے بس کی بات نہیں ہے یہ اولیا ء اﷲ کا شیوہ ہے جوانی کی تند و تیز سرکش موجوں کو کوچہ تصوف کے مسافر ہی کنٹرول کر تے ہیں وہ تزکیہ نفس کے کڑے سخت مجاہدوں سے جوانی کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالتے ہیں ٹائیگر نے شرم و حیا کردار کی چادر اوڑھ لی تھی پھر سخت ترین ورزشوں سے جوانی کے سیلاب کو کنٹرول کر تا تھا مجھے اِس کی سب سے اچھی بات یہ لگتی تھی کہ طاقت کا پہاڑ ہونے کے باوجود وہ عاجز تھا تکبر غرور اُس کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا جوانی جب کسی عام انسان پر بھی آتی ہے تو اُس کے اندر جارحیت انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی ہے پھر جوانی کے زور میں انسان زبان سے نہیں ہاتھ سے بات کر تا ہے لیکن ٹائیگر نے کبھی بھی اپنی جوانی کو اِسطرح استعمال نہیں کیا تھا کھلاڑیوں میں جو سپورٹس مین شپ ہوتی ہے ٹائیگر اِس سے بھی مالا مال تھا ہمیشہ مثبت بات کر نی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا اگر ایسی صورتحال میں بھی صلح صفائی کی بات کر تا۔ گاؤں کا طاقت ور پھر تیلا ترین انسان ہو نے کے باوجود وہ بے ضرر حقیر عاجز انسان کی طرح زندگی گزارتا تھا اُس کا مثبت رویہ زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی نظر آتا تھا اُس نے بڑی سے بڑی مشکل میں بھی کبھی ہار نہیں مانی تھی وہ ہر بات مشکل کا حل نکالنا جانتا تھا اُس میں حسد بغض غرور تکبر بلکل نہیں تھا وہ خوشیاں بانٹنے کا ہنر جانتا تھا ایک دلفریب شفیق مسکراہٹ ہمیشہ اُس کے چہرے پر رقص کر تی نظر آتی وہ اپنی جوانی طاقت کو انجوائے کر تا تھا خدا کی موجود نعمتوں کا بھرپور طریقے سے شکر ادا کر تا تھا بات بات پر کانوں کو توبہ کے انداز میں ہا تھ لگاتا تھا کبڈی کے میدان میں جب بھی داخل ہوتا زمین کو چھو کر کانوں کو ہا تھ لگا کر آسمان کی طرف اشارہ کر کے معافی مانگتا تھا زندگی طاقت جوانی کے رنگوں کا شاہکار تھا وہ لیکن آج وہ غربت پریشانی بد حالی کی شکستہ تصویر نظر آرہا تھا اُس کی حالت زار دیکھ کر مجھے دکھ ہوا میں اُس کو لے کر ایک جگہ بینچ پر بیٹھ گیا اُس کی طرف بھر پور گہری نظروں سے دیکھا اور بولا یا ر تم کو کیا ہو گیا ہے تم تو ایسے نہ تھے تمہار ے جسم آواز حرکتوں سے تو پر جوش زندگی کی لہریں ہر وقت خارج ہو تی تھیں یہ تم کو کون سا روگ لگ گیا ہے کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا کہ یہ تم وہی ٹائیگر ہو جو ہماری محفلوں کی جان تھا جو ہمالیہ جیسے مسئلوں کو چٹکیوں میں اڑا دیتا تھا جو ہار کے لفظ سے آشنا نہیں تھا لیکن تم تو ہاری ہو ئی تصویر نظر آرہے ہو تو وہ بولا یار تم دوست ہو تمہارے سامنے اپنا پیٹ ننگا کر نے لگا ہوں ورنہ کبھی بھی اپنا دکھ نہ بتا تا جب تک جوانی طاقت بحال تھی تو میلوں مقابلوں پر کبڈی کے مقابلوں میں حصہ لیتا رہا پھر جب جوانی کی شام قریب آگئی تو بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے فیکٹری میں ملازمت کر لی آپ جانتے ہو میں کوئی اچھا طالب علم نہیں تھا تعلیم ادھوری چھوڑ کر دن رات کبڈی اور جسمانی ورزشوں میں لگا رہتا تھا اِس لیے زیادہ تعلیم نہ ہو نے کی وجہ سے اچھی سرکاری نوکری حاصل نہ کر سکا اِس لیے فیکٹری میں نوکر ی کر لی پہلوان تھا چھ بچے پیدا کر لیے پانچ سال پہلے پہلوانوں کی خاص بیماری شوگر نے بھی مُجھ سے دوستی کر لی کبڈی مقابلوں میں حصہ لینا چھوڑ ا تو کمائی بھی بند ہو گئی میں جو دن رات ہر وقت اپنے جسم کا خیال رکھتا تھا مالی تنگی کی وجہ سے اپنے جسم پر خرچہ کر نے کی بجائے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے لگا بیٹیوں کی شادی اور جہیز کے لیے کمیٹیاں ڈال کر زیورات بنانے شروع کئے ۔دن گزر رہے تھے لیکن جب کرونا کی وبا آئی تو فیکٹری بند ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھ گیا اور جمع پونجی کو خرچ کر نا شروع کر دیا جب جمع پونجی ختم ہوئی تو تھوڑے سے زیورات جو بچیوں کے لیے بنوائے تھے وہ بیچ کر پیٹ کی آگ بجھانے لگے اب وہ بھی ختم ہو گئے ہیں جوانی ڈھل چکی اب نہ میں کبڈی کھیل سکتا ہوں نہ ہی کوئی اور ذریعہ آمدنی ہے یا ر یہ جو مہنگائی ہے اِس نے میری کمر توڑ دی اِس نے ٹائیگر کو مار دیا ہے میں جو ساری زندگی مشکل ترین حالات کا مقابلہ کر تا رہا اِس مہنگائی نے مجھے شکست دے دی ریاست مدینہ کے دعوے دار جو دن رات دعوے تقریریں باتیں کہانیاں سناتے ہیں اپوزیشن کی لوٹ مار کے قصے سناتے ہیں اُ ن کی بے حسی عوام کش پالیسیوں کی وجہ سے میرے جیسے بے شمار ٹائیگر کیڑے مکوڑوں کی طرح بے بسی سے رینگ رہے ہیں کوئی ہمارامدد گار وسیلہ نہیں ہے پھر وہ دیر تک مہنگائی حکمرانوں کی بے حسی پر اپنا اور میرا دل جلاتا رہا اُس کی بے بسی کرب اندرونی دکھ اُس کی آنکھوں میں پانی بن کر تیرتا رہا میری آنکھیں بھی بھیگتی رہی پھر ٹائیگر جپھی ڈال کر چلا گیا اور میں سوچھنے لگا موجودہ مہنگائی اور ظالمانہ نظام پتہ نہیں روزانہ کتنے ٹائیگر جیسے بہادروں کو غربت کے اندھے غار میں دھکیل رہا ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.