عشق رسول

پچھلے چند سالوں سے ملک میں جسطرح سےمسلمانوں پر ظلم وستم اورجبر کی داستانیں بنائی جارہی ہیں اسطرح سے مسلمانوں کو اذیتوں کے جال میں پھنسایا جارہا ہے۔اس پر مسلم قائدین کی خاموشی بھی اس ملک کے لوگوں نے دیکھی ہے۔ خاص طور سے ان لوگوں کی ان اہل علم قائدین کی جو کبھی کانگریس کی حکومت میں اراکین راجیہ سبھا، رکن پارلیمان، ایم ایل سی وچیرمین وغیرہ رہے ہیں۔ جنہوں نے کانگریس کے دورے حکومت میں افطار پارٹیاں وعید ملن کی دعوتیں کی ہیں۔ جنہوں نے کانگریس ودیگر سیکولر سیاسی جماعتوں کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو کوئی لات بھی مار دیتا تو مسلمانوں کو سڑکوں پر اتر کر اپنی غیرت کا مظاہرہ کرنے کیلئے للکارتے تھے ۔ جب کوئی مسلمانوں پر انگلی اٹھاتا توایوانوں میں اترکر سرزنش کرتے اور حکومتوں کا تختہ پلٹنے کی وارننگ دیتے تھے ، لیکن آج حالات اسکے برعکس ہوچکے ہیں جب دوست کو اچھی بات سے سمجھانے کا وقت تھا تو اس وقت سڑکوں پر احتجاج کرتے تھے اورجلسوں کے ذریعہ حکومتوں کی مخالفت کرتے تھے۔ مگر آج جب دشمن سامنے کھڑا ہو اہے اورکھلے عام نہ صرف مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے بلکہ تمام کائنات کی افضلین شخصیت سب کے پیشوا ومعلم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی کوئی توہین کررہا ہے تو دبے الفاظ میں مذمت مذمت کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ کوئی نبی ﷺکی شان میں گستاخی کرنے والے کو قتل کرتے ہوئے غازی بن رہا ہے تو وہ ممالک جن کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ نبی ﷺکی شان میں گستاخی کرنے والوں کو کررہ ارض سے اس ملک کے نقشے کو مٹادیتے ، لیکن افسوس صدافسوس آج جو مسلم ممالک ہیں وہ تو یہودیوں کے تلوے چاٹ چاٹ کر انکی خوشنودی کررہے ہیں لیکن ان مسلمانوں کو کیاہو اجو اس ملک میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا فتویٰ دے کر اپنے سینوں پر گولیاں کھانے کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ ان شہداء کی نسلوں کو کیا ہوا جن کے آباواجداد کی لاشتیں دہلی سے لیکر لاہو ر تک کے سڑکوں پر لٹکے ہوئے تھے۔ بزدلوں ! جاہلوں !اپنی آل اولاد کو بچانے کیلئے کیوں حکمت کا نام دے رہے ہو، کیوں اپنے آپ کو اس دنیاکے قائم شہریوں میں شمار کرتےہو، کیا نبی ﷺکی شان تمہارے لئے اتنی کم ہوگئی ہے کہ علی الاعلان نبی ﷺ کے دشمنوں کا ساتھ دینے کی تائید کررہا ہو۔ یقیناً میں اورآپ جمہوری ملک میں ہیں۔ اس جمہوری ملک میں مسلمانوں کو بھی اپنی دین کی پاسداری کرنے اوراپنے نبیﷺ کی عزت کو بحال رکھنے کی اجازت ہے جتنی کہ رام کی عزت کرنے اور رام مندر کے فیصلے کو قبول کرنے کیلئے گنجائش ہے۔ ہمارے نبی ﷺ سب سے اعلیٰ ہیں یہ ہمارا عقیدہ ہے تو اس اعلیٰ ترین شخصیت کیلئے کمترین رہنمائوں کی اطاعت کیوں کی جارہی ہے۔ مانا کے ہم نبیﷺ کے ادنیٰ غلام ہیں لیکن کیا ایک ادنیٰ غلام نبیﷺ کی شان میں آواز بلند نہیں کرسکتا۔ فلسطین میں رہنے والے ظلم وستم کی بات لیکر آپ سڑکوں پر اُتر آتے ہیں ۔ یوم قدس کے موقع پر سڑکوں پر اتر آنا ہماری اورآپ کی شان رہی ہے۔ آمد رسول ﷺ کے یوم میں جلوس نکالنا ہماری عظمت رہی ہے۔ نبی ﷺ کی شان میں جلسے منعقد کرنا ہماری پہچان رہی ہے۔ سیرت کی کتابیں تقسیم کرنا ہماری ذمہ داری رہی ہے۔ نبیﷺ کے نام پر پکوان کھلانا ہمار ی تہذیب رہی ہے تو کیا توہین رسالت پر آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا ہم ہماری نسلوں کو یہی درس دے رہے ہیںکہ نبی کریم ﷺ کی توہین کرنے والے گستاخوں کے ساتھ نرم رویہ اختیا رکریں اورانکی خاموشی کےساتھ تائید کریں۔ اگر ایسا ہے تو ہماری نظر میں یہ قوم بزدل قوم ہے ۔ میں ادنیٰ سا صحافی ہوں لیکن للکارتا ہوں ان علماء کو جو چیخ چیخ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر عظمت مصطفیٰ ﷺکو بیان کرنے کیلئے ہزاروں روپیوں کی زادراہ لیتے ہیں۔ ہزاروں روپیوں کی ائیر ٹکٹ لیکر دین کا پیغام عام کرنے کیلئےایک جگہ سے دوسری جگہ دوڑتے رہتے ہیں۔ اگر واقعی میں یہ عاشق رسول ہیں تو وقت آگیا ہے کہ مسلمان دین کی بقاء اور نبی کریمﷺ کی شان میں قانونی طور پر ان ممالک اور سیاسی لیڈروں کا بائیکاٹ کریں ، جو گستاخ رسول ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں سے بھی ہمارا سوال ہے جو سوشیل میڈیا اوراردو اخبارات میں مذمت مذمت ، مخالفت، مخالفت کے اخباری بیانات جاری کرنے کو ہی کیا عشق رسولﷺ کہا جاتا ہے ؟۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.