زندگی میں کچھ واقعات انسا ن کو ہلا کر رکھ دیتے
ہیں لیکن بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اﷲ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے
انسان لاکھ کوشش کے باوجودرب کے فیصلوں کو تبدیل نہیں کرسکتا گزشتہ روز صبح
سویرے جب بستر پر ہی اپنا موبائل فون آن کیا تو نجی نیوز چینل کے رپورٹر
سمیع خان کی وفات کی خبر پڑھ کر جسم پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا ہو خبر ایک
ساتھی کی طرف سے چند منٹ پہلے ہی لگائی گئی تھی خبر کی تصدق کے لیے میاں
احمد رشید سے فوری رابطہ کیا توجیسے ہی میاں احمد کی آواز کان سے ٹکرائی تو
مجھے خبر کے سچ ہونے کا یقین ہوگیا سمیع خان سے پہلی ملاقات 2014میں سینئر
ساتھی کامران سکندر اور جاوید سکندر کے ذریعے ہوئی سٹی پریس کلب اوکاڑہ میں
آئے روز ملاقات ہوتی رہتی تھی 2015میں پریس کلب کے الیکشن میں ان کے ساتھ
قریبی تعلق بن گیا اس کے بعد احترام کا ایسا رشتہ قائم ہو ا کہ ہمیشہ اس کی
طرف سے پہلے سے زیادہ ہی محبت ملی اﷲ کی قدرت نے ایسی میٹھی آواز اورحسن
اخلاق دیا تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات نے سمیع خان کو
ایسی صفات سے نواز ا تھا کہ گھر والے ، دوست ، کارباری حلقہ کے لوگ اور
صحافت کی دنیا کے ساتھی سب بہت محبت کرتے تھے وہ ہمیشہ محفل کی جان ہوا
کرتا تھا اس کی غیر موجودگی میں حفیظ اﷲ خان ایڈووکیٹ سے اکثر ملاقات ہوتی
تو سمیع خان کی بات ہر صورت ہوتی ،شعبہ صحافت میں انہوں نے 6سال میں 60سال
کا تعلق اور مقام بنایا۔ اگر اس کے ادارے کا کوئی ساتھی دوسرے شہر سے آتا
تو اس کی خدمت کے لیے پیش پیش ہوتے خانیوال سے طاہر نسیم اور ندیم مغل آئے
تو سمیع خان بھی اپنے بڑے بھائی خرم شہزاد خان کے ہمراہ آئے ہوئے تھے مجھے
ملنے کے بعد انہوں نے جو الفاظ کہے تھے وہ اس کے ساتھ تعلق کی حسین یاد بن
کر سینے میں رہیں گے ،مثبت صحافت نے اس کو بہت جلد عوامی حلقوں میں مقبول
کردیا تھا حق بات پر ڈٹ جانا اور عام آدمی کی آواز بن کر رپورٹنگ کر نا
ہمیشہ اس کا اصول تھا ہر کسی سے ایسا تعلق کہ ہر کوئی کہتا کہ سمیع خان
میرے زیادہ قریب ہے ، ان الفاظ اور وقت کو کیسے بھولا جا سکتا ہے کہ جب چند
روز قبل میاں احمد رشیدکی سالگرہ کی تقریب جی ٹی روڈ پر رائل شیش محل میں
منعقد ہوئی تھی تقریب میں سیاسی شخصیات ،وکلاء ،پولیس افسران اور صحافیوں
کی کثیر تعداد موجود تھی شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے راقم تقریب میں سب سے
آخر میں شریک ہو ا تھاجس طرح سمیع خان نے وہاں خوش آمدید کہا اور دوستوں کو
دوبارہ جمع کر کے کیک کاٹا کھانے کی میز پر کئی بار آکر میزبانی کی ایک ایک
لفظ سے اپنا پن اور چاہت نظر آتی تھی تقریب میں ایک ساتھ یادگارگروپ فوٹو
بھی بنے اس وقت کیا علم تھا کہ یہ ملاقات سمیع خان کی دوستوں سے آخر ی
ملاقات ثابت ہو گی اور اس کے محبت بھرے الفاظ یادیں بن جائیں گے۔ جب چند
روز قبل سمیع خان کے بیمار ہونے اور شیخ زید ہسپتال لاہو ر میں زیر اعلاج
ہونے کا علم ہوتے ہی جب فون کیا تو خرم شہزاد خان سے بات ہوئی بعد میں
انہوں نے سمیع خان سے بات کروائی اوسی طرح ہی محبت بھرے الفاظ میں دعا صحت
کا کہا شعبہ صحافت میں صحافیوں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم کا حصہ ہونے کی
وجہ سے بے شمار صحافیوں کی خوشی غمی پر جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے ہر نماز
جنازہ میں مرنے والے کے گھر والے تو روتے ہی ہیں لیکن میں نے تین صحافیوں
کے نماز جنازہ میں دوستوں اور چاہنے والوں کو بھی روتے دیکھا ہے جن میں
پہلا نماز جنازہ حجر ہ شاہ مقیم میں ہمارے محسن دوست مرزا محمد ارشد فریدی(
مرحوم) کا تھا دوسرنمازا جنازہ کمالیہ میں ریجنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان
کے سیکرٹری جنرل رائے سجاد حسین خاں کھرل( مرحوم) کا تھا اور تیسر ا
نمازجنازہ سمیع خان ( مرحوم) کا تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ہر
آنکھ نم تھی ضلع اوکاڑہ میں مرزا محمد ارشد فریدی (مرحوم) کے بعد سمیع خان
(مرحوم) کے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں صحافیوں نے شرکت کی ہے۔ مو ت ہر
انسان کو آنی ہے لیکن آخر ی سفر میں ہر دوست آپ کے اچھے ہونے کی گواہی دے
تو اس سے بہتر انسان کے لیے کیا ہو سکتا ہے سمیع خان کا دکھ گھر والوں کے
لیے تو ہے ہی لیکن شعبہ صحافت میں بھی اس کے کردار اور جرات کو ہمیشہ یاد
رکھا جائے گا۔ماپے تینوں گھٹ روون گے ۔۔۔بہتے روون گے دلاں دے جانی ۔۔۔۔۔
|