ستمبر ۱۱

نوٹ۔۔۔۔۔
۱۱ ستمبر ۲۰۱۲ کو کراچی میں ہونے والے سانحے کے پس منظر میں یہ کہانی لکھی گئی۔
کوشش کی ہے کہ اس تحریر کے ذریعہ عوام کو یاد دلایا جائے کہ کس قدر بربریت کا مظاہرہ کیاگیا اور اس سانحہ کو حادثے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا وقت نے پس پردہ حقائق بےنقاب کر دئیے۔۔۔

اسد بوجھل قدموں سے قدرے لنگڑاتا ہوا پاپوش نگر قبرستان میں داخل ہوا
وہ چلتا ہوا ایک چھوٹی سی قبر کے پاس رک گیا یہ اس کے ۳ ماہ کے معصوم بیٹے کی قبر تھی بیٹے کی قبر کے ساتھ ہی اس کی وفا شعار بیوی کی قبر بھی موجود تھی
جس کے کتبے پر لکھا تھا
صباحت اسد زوجہ اسد احمد علی تاریخ پیدائش ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۸
تاریخ وفات ۱۱ ستمبر ۲۰۱۲
اس نے دونوں قبروں کو صاف کیا ساتھ لائی ہوئی گلاب کی پتیاں قبروں پر ڈالیں اور پھر دعا کے لئیے ہاتھ اٹھا لیے
دعا مانگنے کے بعد وہ وہیں بیٹھ گیا
آنسو اب بھی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے گو ان دونوں کو بچھڑے۸ برس بیت چکے تھے اورآج ان کی آٹھویں برسی تھی اتنا عرصہ کافی ہوتا ہے غم بھلانے کے لئیے
مگر وہ آج بھی بلک بلک کر رو رھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

منگل۱۱ستمبر ۲۰۱۲
اسد بستر پر ہی تھا جب اس کی بیوی صباحت نے آواز لگائی یار جلدی کرئیں میں تیار بھی ہوگئی ہوں اور آپ اٹھ کر نہیں دے رہے
اسد نے کروٹ لی اور بولا یار آج چھٹی کر لیتے ہیں دل نہیں چاھ رہا جانے کا مجھےاور سونا ہے
صباحت نے چادر کھینچی اور مسکراتے ہوئے بولی چلیے بس ۵ منٹ میں تیار ہو جائیے
چھٹی کی گنجائش نہیں بادل نخواستہ اٹھنے لگا تو اس کی نظر صباحت کے کپڑوں پر پڑی یہ اس کا پسندیدہ سوٹ تھا میرون اور فون کلر کا سوٹ جو اس نے صباحت کو اسکی سالگرہ پر دیا تھا اس کا موڈ خوشگوار ہو گیا
تھوڑی دیر بعد دونوں ناشتہ کر رہے تھے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اسد نے صباحت سے مخاطب ہو کر کہا یار ایک بار گھر کا مسلئہ حل ہو جائے پھر میں تم کو نوکری نہیں کرنے دوںگا
اچھا اچھا یہ بات تو تم بہت بار کر چکے ہو
انشااللہ جلد ہم اپنا مقصد حاصل کر لئیں گے تو پھر مجھے نوکری کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی
گھر کے کام کاج کے بعدبھی بہت سارا وقت ہوگا میرے پاس پھر میری ساری توجہ عاشر پر ہوگی
وہ دونوں ایک ہی فیکٹری میں کام کرتے تھےانکی شادی کو ۲ سال ہوئے تھے صباحت شادی سے پہلے ہی سے اسی گارمینٹس فیکٹری میں کام کرتی تھی جبکہ اسد کو ایک سال ہوا اس گارمینٹس فیکٹری میں کام کرتے ہوئے پہلے وہ کورنگی میں واقع ایک ڈینم فیکٹری میں کام کرتا تھا
صباحت ایک پڑھی لکھی دوراندیش لڑکی تھی
اس نے ہی اسکی ملازمت کے لئیے بات کی تھی تا کہ دونوں ایک ہی جگہ کام کرئیں
ساتھ آنا جانا اور دن بھر کا ساتھ رہے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ بچے کی پیدائش کے بعد اسکو اس فیکٹری میں یہ سہولت موجود ہے کے وہ اس کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہےفیکٹری انتظامیہ نے ان دودھ پیتے بچوں کے لئیے ایک جگہ مختص کی ہوئی تھی جو اپنی ماوں کے ساتھ فیکٹری آتے تھے ا
ور جب ننھا عاشر اس دنیا میں آیا تو وہ بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ فیکٹری جانے لگا
۲سے ۳ ماہ کے بعد عاشر کے لئیےکچھ نا کچھ انتظام کرنا تھا ورنہ صباحت کو نوکری چھوڑنی پڑتی بحرحال ابھی کچھ وقت باقی تھا
وہ جس گھر میں رہتے تھے وہ اسد کےمرحوم والد نے ۱۹۸۰ میں بنوایا تھا یہ ایک ۱۲۰ گز پر بنا ہوا سنگل اسٹوری گھر تھا جو مناسب دیکھ بھال نا ہونے کی وجہ سے خستہ حال ہو چکا تھا جگہ جگہ سے پلستر اکھڑ رہا تھا دیواروں میں جا بجا دراڑیں پڑ چکی تھیں
وسائل نا ہونے کے سبب اسد گھر کی دیکھ بھال نہیں کرسکا پھربہنوں کی شادی اوروالدہ کے انتقال کے بعد اسد نے ۲ سال اس گھر میں تنہا گذارے تو گھر کا اور برا حال ہوگیا
جب اسد نے شادی کا فیصلہ کیا تو شادی سے پہلے اس نے بجٹ کم ہونے کی وجہ سے صرف بہت ضروری مرمت کے کام کروائے اور معمولی سا رنگ و روغن کر والیا
بہت جلد اسکے کروائے ہوئے کام کی قلعی اترنا شروع ہوگئی اور گھر کی خستہ حالی نمایاں ہوتی چلی گئی
بقول صباحت گھر بھی اس کے بالوں کی طرح آہستہ آہستہ جھڑ رہا تھا
انھوں نے ایک دو ٹھیکداروں سے تخمینہ لگوایا تو اندازہ ہوا کے یہ پورا اسٹرکچر توڑ کر دوبارہ بنوانا پڑے گا اور تقریبا چار سے ۵ لاکھ کا خرچہ آئے گا وہ بھی اس صورت میں کہ دروازے کھڑکیاں پرانے والے ہی لگائے جائیں ۔
صباحت نے جوڑ جمع کرنا شروع کردیا
ننھا عاشر ان دونوں کی جان تھا وہ محض ۳ ماہ کا تھا اور ایک صحت مند بچہ تھا
میاں بیوی کے تعلقات مثالی تھے اس میں صباحت کا بھرپور کردار تھا وہ اسد کی پسند نا پسند کا خیال رکھتی تھی سادگی اس کا شعار تھا اعلیٰ ذوق رکھنے کے باوجود اس نے اسد سے نباہ کیا اور اس کا بھرپور ساتھ دیا
دوسری طرف اسد بھی بہت خیال رکھتا تھا چھٹی کے دن بیوی کا ہاتھ بٹاتا اور کہیں نا کہیں گھمانے پھرانے بھی لے کر جاتا رشتہ داروں کے یہاں بھی دونوں میاں بیوی کی بہت عزت تھی
اس طرح انکی ذندگی گذر رہی تھی
اس روز معمول کے مطابق وہ دونوں گھر سے نکلے عاشر صباحت کی گود میں تھا
اسد نے بائک اسٹارٹ کی اور فیکٹری کے لئیے روانہ ہو گئے
دونوں آنے والے وقت سے بے خبر تھے
فیکٹری پہنچ کر پارکنگ میں بائیک کھڑی کر کے اسد حسب معمول صباحت کو اسکے ڈپارٹمینٹ تک چھوڑنے گیا وہ سارٹنگ ڈیپارٹمینٹ میں کام کرتی تھی جبکہ اسد کوالٹی کنٹرول میں تھا اسکا کام تیار کپڑوں کی جانچ کرنا تھا
اس فیکٹری کے تیار کردہ ڈینم ، ریڈی میڈ گارمنٹس ، اور ہوزری یورپ اور امریکا ایکسپورٹ کئیے جاتے تھے
KIK Textilien جرمنی کی ایک فرم انکے تیار کردہ ملبوسات کی بہت بڑی خریدار تھی
وہ دونوں اپنے اپنے کام میں لگے رہے اس دوران صباحت کئی باراپنے بیٹے عاشر کےپاس دودھ پلانے گئی
اسد اور صباحت نے لنچ حسب معمول ساتھ ہی کیا صباحت نے اسد کو بتایا کہ آج سات بجے کا تک کام ہے واپسی پر امیّ کے طرف ہوتے ہوئے جائیں گے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے
اسد کا سسرال گلبہار میں تھا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
لنچ کے بعد اسد ایڈمن بلاک کے قریب سے گذر رہا تھا کہ اس نے سنا شائد فیکٹری مینجر فون پرکسی کو کہہ رہا تھا کہ عزیز صاحب {عبدالعزیز فیکٹری کے مالک} نے منع کردیا ہے وہ اتنی رقم نہیں دے سکتے ہاں لگا دو آگ نہیں دے سکتےاسد تیز قدموں سے وہاں سے نکل گیا
عصر کی نماز پڑھ کراسد کو کچھ گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی وہ تھوڑی دیر کے لئیے جائے نمازپرہی لیٹ گیا اس نے وقت دیکھا ۵:۵۰ ہورہے تھے
ابھی اس کو لیٹے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے اسکو محسوس ہوا کہ کہیں کچھ جل رہا ہے وہ فورا اٹھا اور گراونڈفلور کی طرف بڑھنے لگا جلنے کی تیز بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی جو بڑھتی جا رہی تھی اب اسکو بھگدڑ نظر آئی لوگ چلا رہے تھے آگ لگ گئی آگ لگ گئی
جب وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا تو اسکے اوسان خطا ہو گئے ہر طرف آگ کے شعلے اور دھواں تھا اسی دوران لائٹ بند ہو گی
کوئی اس سے زور سے ٹکرایا اس نے دیکھا لکڑی سے بنا میزنائن فلور مکمل طور پر آگ کے شعلوں کی زد میں ہے
وہ بے تحاشہ دوڑا اسکی بیوی اور بچہ گراونڈ فلور پر موجود تھے ان کو بچانا تھا وہ دوڑتا ہوا سارٹنگ ڈیپارٹمینٹ پہنچا وہاں ہڑبونگ مچی ہوئی تھی وہ زور زور سے صباحت کو آواز دینے لگا مگر اس قدر شور تھا کہ اس کی آواز اس شور میں گم ہوگئی دھواں بھرتا جا رھا تھا کچھ نظر نہیں آرہا تھا وہ پاگلوں کی طرح ادہر ادہر بھاگے جا رہا تھا
کہ اچانک اسکو صباحت نظر آگئی
وہ قریب پہینچا صباحت حواس باختہ تھی اسکی گود میں عاشر تھا اسد نے اسکا ہاتھ پکڑا اور گیٹ کی طرف جانے لگا صباحت مسلسل بولے جارہی تھی اللہ میرے بچے کو بچالے
اسد یہ کیا ہو گیا دیکھو عاشر کا دم گھٹ رہا ہے
اسد دیوانہ وار دروازے کی طرف جا رہا تھا وہاں پہنچ کر اسکو اندازہ ہوا کے کچھ گڑبڑ ہے
لوگ چلا رہے تھے دروازہ باہر سے بند تھا
یا اللہ اب کیاکرئیں وہ واپس پلٹا صباحت ہمت کرو ہمیں چھت تک جانا ہوگا دروازہ بند ہے ہم باہر نہیں جاسکتے
وہ سیڑھیوں کی طرف بھاگے ہر طرف چیخ پکار مچی ہوئی تھی کہ اچانک آگ کے شعلے ہر طرف سے بلند ہونے لگے آگ کی تپش اور دھو ئیں دونوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا
اس فیکٹری میں ۱۳۰۰ کے قریب ورکرز کام کرتے تھے ۳ منزلہ اس بلڈنگ میں باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا جو کہ باہر سے بند تھا تمام کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھی
کیا دردناک اور وحشتناک منظر ہوگا
کیا گذر رہی ہوگی ان انسانوں پر جنہیں اس جلتے ہوئے تندور میں ذندہ چھوڑ دیا گیا تھا
جب اسد پہلی منزل پر پہنچا تو اس نے صباحت سے کہا عاشر کو مجھے دو صباحت
عاشر کو گود میں لیتے ہی اسد کو اندازہ ہو گیاکے عاشر کو کھو چکے ہیں وہ لوگ
وہ چلتا جارہا تھا اور عاشر کو جھنجھوڑے جا رہا تھا
صباحت بڑی امید سے اسد کا منہ دیکھ رہی تھی کہ اب وہ کہے گا کے عاشر بالکل ٹھیک ہے
ان کو رکنا پڑا آگے آگ نے ان کا راستہ بند کردیا تھا اسد نے عاشر کو منہ کے ذریعہ سانس دینے کی کوشش کی مگرکوشش بےسود رہی ۳ماہ کا ننھا سا بچہ اس قدر دھواں اور آگ کی حدت کس طرح برداشت کر سکتا تھا
اس نے مایوسی سے صباحت کی طرف دیکھا
صباحت ہمیں ہر حال میں یہاں سے نکلنا ہوگا جب ہی ہم اپنے بچے کو اسپتال پہینچا سکیں گے
ہمت کرو ہمیں دوڑتے ہوئے آگ سے گزرنا ہوگا اس نے دھوئیں سے بچنے کے لئیے منہ پر رومال لپیٹا ہو تھا جبکہ صباحت کے منہ پر اسکا دوپٹہ لپیٹ رکھا تھا مگر اس کی مدد سے وہ آگ کی تپش سے نہیں بچ سکتے تھے
وہ دوڑتے ہوئے آگ کے لپیٹوں سے لڑتے ہوئے تیسری منزل تک پہنچے صباحت جھلس چکی تھی آگ کی تپش نے اسکو جلا کر رکھ دیا تھا
اسد بھی بہت زیادہ جھلس چکا تھا مگر اس کو اپنے زخموں کی کوئی فکر نہیں تھی
زندگی کی کششش نے اسکی ہمت پست نا ہونے دی تھی سامنے سے آتے ۲ لڑکے اسد سے ٹکرائے ایک لڑکے نے اسد کو پہچان لیا
اسد بھائی ہم لوگ پھنس گئے ہیں دروازہ باہر سے بند ہے
کھڑکیوں میں سلاخیں لگی ہیں
اسد نے صباحت کی طرف دیکھا اور بولا اللہ ہمیں یہاں سے نکالے گا وہ مدد کرے گا ہماری
تم لوگ کس طرف جا رہے ہو؟ وہ بولا کوئی ایسا اوزار تلاش کر رہے ہیں جس سے کھڑکی توڑ سکیں وہ آگے بڑھ گئے
اسد اِدہر اُدہر دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا صباحت مسلسل کھانس رہی تھی دھواں اس کے پھیپڑوں میں بھر چکا تھا آنکھیں لال بھبوکا ہو رہی تھیں
حالت تو اسد کی بھی بہت بری ہورہی تھی مگر اسکو صباحت کی فکر تھی کہ کسی طرح اس کو اس جہنم سے نکال کر لے جائے
اچانک اس کو واش روم کا بورڈ نظر آیا وہ صباحت کو کھینچتا ہوا اس طرف لے گیا یہ اسٹاف واش روم تھا اندر داخل ہوتے ہی تازہ ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا
یہ ہوا اس کھڑکی سے آرہی تھی جو واش بیسن کے عین عقب میں موجود تھی وہ کھڑکی کی طرف بڑھا اس نے باہر کی طرف دیکھا ایک ہجوم باہر جمع تھاسب کی نظریں اوپر کی طرف ہی تھیں اسد کو فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی نظر آئیں
امید کے دیئے اس کی آنکھوں میں روشن ہوئے باہر کا منظر دیکھ کر باہر جانے کی خواہش اور زیادہ بڑھ گئی
اس نے صباحت کی طرف دیکھا وہ نیم بیہوشی کے عالم میں تھی آنکھیں پھٹی ہو ئی تھیں چہرہ اور اسکا جسم جگہ جگہ سے جھلس چکا تھا واش روم کو محفوظ پا کر ایک بار پھر اس نے عاشر کو جھنجوڑا اس کے چہرے پر پانی چھڑکامگر عاشر میں جان باقی نہیں تھی اسد کو یقین ہو گیا تھا کہ اسکا معصوم بچہ اس دنیا میں نہیں رہا
اسد پاگلوں کی طرح صباحت کو جھنجوڑتا رہا
صباحت ہمت نا ہارنا
تمکو ذندہ رہنا ہے اٹھو دیکھو یہاں دھواں نہیں آگ بھی نہیں ہم بچ جائیں گے
مگر صباحت کے لب خاموش تھے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے لخت جگر کو دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔۔
اسد نے ایک فیصلہ کیا وہ یہاں سے تنہا نکل کر باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈے گا یا ریسکیو اہلکاروں کو اپنی طرف متوجہ کر گا تا کہ اپنی اور صباحت کی جان بچا سکے
اس نے صباحت کو بازوں سے پکڑا اور کہا صباحت میں مدد لیکر آتا ہوں تم ہمت کرنا یہاں سے باہر نانکلنا مگر صباحت خاموش آنکھوں سے بس ایک ٹک اسے دیکھتی رہی
صباحت پلیز جواب دو میری بات کا
تم کو ہمت کرنی ہے میرے لئیے
پلیز اٹھو دیکھو ہمیں ذندہ رہناہے ایک دوسرے کے لئیے
صباحت نے عاشر کی طرف دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
میرا بچہ زندہ نہیں رہا میرے ہاتھوں میں مر گیا میں نہیں بچا سکی اسد
یہ کیا ہو گیا یہ قیامت کیوں آگئی بتاو مجھے
مگر اسد کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا
اسد کاکلیجہ پھٹ رہا تھا مگر اس نے صباحت کو ایک با پھر جھنجھوڑا اورکہا میری بات سنو میں آرہاہوں تھوڑی دیر میں تم نے میرا انتظار کرنا ہے
صباحت نے کہا اسد جلدی آنا میرے پاس ہمت نہیں انتظار کرنے کی
اسد کو پتہ تھا اب اس کو کیا کرنا ہے وہ دوڑتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوا ہر طرف دحوئیں کے گہرے بادل تھے کمرے میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا اسد نے موبائل فون کی ٹارچ کی مدد سے اندر کا جائزہ لیا
اس کو الماری نظر آگئی اس کو پتہ تھا اس میں اوزار ہوں گے
یہاں لفٹ میٹینس کا سامان موجود ہوتا تھا
اس نے الماری کھولی وہاں صرف ایک پلاس اور ایک اسکریو ڈرائیور ہی تھا باقی سامان غائب تھا شائد اس سے پہلے کوئی اور سامان نکال کر لے گیا تھا
اس نے وہ دونوں چیزیں اٹھائیں اور باہر کی طرف دوڑ پڑا
اس کو شدید کھانسی کا دورہ پڑا مگر وہ رکا نہیں اب اس نے آوازوں کا پیچھا کرنا شروع کیا
جلد وہ وہاں پہنچ گیا جہاں ۳۰ سے ۳۵ لوگ کھڑکیوں سے لٹکے ہوئے تھے
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ باہرسے کوئی ان لوگوں کی مدد کر کے بحفاظت اتار کیوں نہیں رہا
مگر یہ وقت نہیں تھا سوالوں کے جواب لینے کا وہ دوسری جانب دوڑا وہاں بھی یہی صورتحال تھی
ہر طرف یہی صورتحال تھی کچھ لوگ کھڑکیوں سے لٹکے ہوئے تھے اورکچھ نیچے کھڑے انکو ہدائیت دئیے جارہے تھے
اس نے ایک کھڑکی سے لٹک کر باہر کا جائزہ لینے کی کوشش کی مگر اسکو کامیابی نہیں ہوئی
اچانک اسکو واش روم کی کھڑکی کا خیال آیا وہ فورا واپس جانے کے لئے دوڑ پڑا
واش روم پہنچ کر اس نے صباحت کی طرف دیکھا وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی اس نے عاشر کو سینے سے لگایا ہوا تھا
صباحت کی حالت بہت خراب تھی دونوں ہاتھ بری طرح جھلس کر سیاہ ہو رہے تھے
اس میں سے خون رس رہا تھا
اس نے صباحت کو کہا میں یہ کھڑکی توڑ کر باہر نکلوں گا مدد کے لئیے لوگوں کو متوجہ کروں گا
تم دیکھنا کوئی نا کوئی ہمیں اس مصیبت سے نکال لے گا
صباحت چپ چاپ اس کی طرف دیکھتی رہی
اسد نے اسکریو ڈرایور کھڑکی کی جھری میں پھنسایا اور پلاس سے اس پر ضرب لگانا شروع کردی
کچھ دیربعد وہ تھک گیا مگر کوئی خاص کامیابی حاصل نا ہوئی محض ایک چھوٹا سا سوراخ بن گیا
وہ کوشش میں لگا رہا مگر تھکان کے باوجود ذندہ باہر نکلنے کی آرزو اس کو ہمت دیتی اور وہ پھر زور لگانا شروع کردیتا
جب اس نے دیکھا کہ اسطرح کھڑکی توڑنا ناممکن ہے تو اس نے دوبارہ جا کر کوئی بڑا اوزار تلاش کرنے کے بارے میں سوچا
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نےصباحت کی ہلکی سی آوازسنی
وہ پانی مانگ رہی تھی
صباحت ابھی میں تم کو پانی پلاتا ہوں یہ کہہ کر اس نے واش بیسن کا نل کھولا اور اپنے چلو میں پانی لیا اور صباحت کے ہونٹوں سے لگایا اسطرح کئی بار اس نے صباحت کو پانی پلایا۔۔۔۔۔۔
صباحت میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں تم ہمت رکھنا اسد نے صباحت سے مخاطب ہو کر کہا
اور صباحت کے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ واش روم سے باہر نکلا
ان کی بار وہ دوسری منزل کی طرف دوڑا اس نے جھک کر نیچے کی طرف دیکھا تو آگ ہی آگ اس کو نظر آئی
دوسری منزل پر بھی آگ لگی ہوئی تھی اس نے کئی لاشوں کو دیکھا جو مسخ ہو چکی تھیں یہ سب دم گھٹنے سے بیہوش ہوئے اور پھر آگ کی تپش نے انکو جلا کر کوئلہ کر دیا
وہ ہر طرف نظریں دوڑا رہا تھا اسی دوران اس کی نظر ایک بدقسمت لاش پر پڑی ہوئی ٹھی جس کے مردہ ہاتھوں میں ایک بڑا ہتھوڑا تھا جس کی مدد سے وہ یقینا کھڑکی توڑنے کی کوشش میں ہوگا مگر دم گھٹنے کی وجہ سے کامیاب نا ہو سکا
اسد نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ہتھوڑا اس مردے کے ہاتھ سے لے لیا
وہ واپسی کے لئیے مڑا مگر اسی دوران ایک زوردار آوازکے چھت پر لگی لائیٹس نیچے آگرئیں اسد زخمی ہونے سے بال بال بچا اب اس نے وقت ضائع کیے بغیر اوپر کی طرف دوڑ لگائی
واش روم میں پہنچ کر اس نے صباحت کی طرف دیکھا تو لرز کر رہ گیا وہ بہت زور زور سے سانس لے رہی تھی اس نے صباحت کا سر اپنی گود میں رکھا اور آوازیں دینے لگا
مگر صباحت کی آنکھیں بند تھیں اس نے کوئی جواب نہیں دیا
اس کو سانس لینےمیں شدید دشواری پیش آرہی تھی اس نے کچھ کہنا چاہا مگر صرف لب ہلےاسد کی سمجھ میں نہیں آیا
صباحت نے پورا زور لگا کر اسد سے کہا مجھے میرے بیٹے کے قریب دفن کرنا
اسد نے کہا میں تم کو کچھ نہیں ہونے دوں گاصباحت ہمت کرو تم کو زندہ رہنا ہے ہم یہاں سے ساتھ واپس جائیں گے
اسد بولتا رہا مگر صباحت ہمیشہ کے لئیے چپ ہو چکی تھی
اپنے معصوم بچے کے لاشے کو اس نے اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا
وہ آنکھیں جو اپنے بچے کے لئیے بہت سے خواب بنتی رہتی تھیں بے نور ہو چکی تھیں
اسد بلک بلک کر روتا رہاکوئی نا تھا جو اس کو ہمت دلاتا اس کو دلاسے دیتا گلے لگاتا بیوی اور بچے کی لاش کے ساتھ بیٹھا اسد شائد اپنے حواس کھو بیٹھتا کہ اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ تو ابھی زندہ ہے اب اس کو ہی اپنی بیوی اور بچے کو ان کی آخری آرام گاہ پہنچانا ہے لحد میں اتارنا ہے
یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے آنسو پوچھے اور اٹھ کھڑا ہوا
اس نے جنونیوں کی طرح کھڑکی پر ہتھوڑے سے ضرب لگانا شروع کی
تھوڑی ہی دیر میں کھڑکی ٹوٹ کر نیچے جا گری
نیچے کھڑے لوگوں کی توجہ تیسری منزل کی کھڑکی کی طرف ہوئی
جہاں سے انھوں نےاسکو جھانکتے ہوئے دیکھا
اسد کو بے پناہ شور سنائی دے رہا تھا مگر اس کے اندر جو شور تھا اس سے سب بے خبر تھے
اسد نے زور لگایا اور وہ کھڑکی پر چڑھ گیا نیچے ایک ۳ فٹ کا چھجہ تھا جس پر اس نے ایک پاوں رکھا اور پھر اتر گیا
وہ چاروں طرف کا جائزہ لیتا رہا مگر اس کونیچے بنا چھلانگ لگائے اترنے کا کوئی امکان نطر نا آیا
وہ بے بسی کی تصویر بنا اس چھوٹے سے چھجے پر کھڑا تھا نیچے ہجوم بھی بے بس تھا
بات صرف اسکے نیچے جانے کی ہوتی تو وہ چھلانگ مار دیتا مگر اسکو تو اپنی بیوی اور بچے کی نعش بھی بحفاظت باہر نکالنی تھی
اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور گڑگڑایا اللہ میری مدد فرما
شائد یہ قبولیت کا وقت تھا
کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کے ایم سی سی کی ایک بڑی سی اسنارکل کا رخ اسی طرف ہے جس طرف وہ کھڑا ہے
کچھ دیر میں اسنارکل کا اگلا حصہ جس پرایک ٹرالی لگی ہوئی اوپر اٹھنا شروع ہوئی اور تھوڑی دیر مِیں عین اس تک پہنچ گئی تو وہ دوبارہ کھڑکی پر چڑھا اور واش روم میں کودا پھر اپنے لخت جگر کو صباحت کی گود سے لیا اور کھڑکی تک پہنچا نیچے کھڑے لوگ حیران تھے کہ وہ کہاں گیا
اس نے عاشر کی نعش کو ایک ہاتھ سے اٹھایا اور پھر کھڑکی سے باہر آیا اس نے عاشر کی نعش ٹرالی میں رکھ دی اور ہاتھ کے اشارے سے اسنارکل آپریٹر کو بتانے کی کوشش کی کہ اور بھی کوئی موجود ہے وہ پھر تیزی سے کھڑکی سے اندر داخل ہوا اور صباحت کی نعش کو اٹھایا اور کھڑکی تک لے آیا
اس نے ایک ہاتھ سے صباحت کو سنبھالا اور کھڑکی سے باہر آیا پھر دونوں ہاتھوں سے صباحت کو کھنیچنا شروع کیا مگر ناکام رہا نیچے کھڑے ریسکیو عملے کو اندازہ ہوگیا کے وہ اکیلےیہ کر نہیں پائے گا تو انھوں نے اسنارکل میں موجود سیڑھی کے ذریعہ ۲ ریسکیو اہلکاروں کو اس کی مدد کے لئیے بھیجا
تھوڑی دیر بعد وہ اپنی بیوی بچے کی نعش کے ساتھ ایدھی ایمبولینس میں اسپتال کی طرف جارہا تھا
آنسو اسکی آنکھوں سے چھلک رہے تھے
اسپتال پہینچ کر اسکو ایمرجینسی میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے فورا اس کا چیک اپ شروع کردیا اسکو فورا آکسیجن لگا دی گئی تا کہ پھیپڑے جو دھوئیں کی وجہ سے کثیف ہو چکے تھے صاف ہوسکیں اور اس کو سانس لینے میں آسانی رہے
اسد کی دائیں ٹانگ آگ سے شدید متاثر ہوئی تھی جبکہ ہاتھ پر بھی شدید زخم آئے تھے۔۔۔۔
اسد اب اس گھر میں نہیں رہتا
اس نے وہ گھر بیچ کر سرجانی ٹاون میں ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا گھر میں ہی اس نے چھوٹی سی دکان کھول لی تاکہ گزر اوقات ہوتی رہے
آج بھی لوگ اس سے اس حادثے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو وہ اداس ہو جاتا ہے
اس کی ذندگی تعبدیل ہو چکی ہے بہنوں کے اصرار کے باوجود اس نے شادی نہیں کی
جولائی اور اگست 2013 کے درمیان جرمن فرم نے ایک معاہدے کے تحت تقریبا 380،000 روپے دئیے فی خاندان تقسیم کئیے
بعدازاں ، جرمن فرم نے معاہدے سے اس وقت دستبرداری اختیار کرلی کہ جب ایک تحقیقاتی رپورٹ سے یہ پتہ چلا کہ یہ آگ حادثاتی نہیں تھی بلکہ آتش گیر حملہ تھا ، جو فیکٹری مالکان کی جانب سے بھتہ دینے سے انکار پر سیاسی جماعت کے کارندوں کی جانب سے کیا گیا تھا ۔
ان ظالموں نے مرکزی دروازہ باہر سے بند کر کے ۱۳۰۰ ذندہ انسانوں کو آگ میں جلانے کی کوشش کی تھی

264انسان جان سے گئے جن میں نوجوان لڑکے لڑکیاں گود کے معصوم بچے اور ان کی مائیں بھی شامل تھیں لاتعداد زخمی ہوئے بہت سے افراد معذور ہوگئے اوراس سانحہ کے ذندہ بچ جانے والے بہت سے لوگ ذہنی مریض بن گئے
یہ اس سانحے کا شکارصرف اُن۳ لوگوں کا نوحہ نہیں ہے بلکہ ان تمام معصوم لوگوں کا نوحہ ہے جو اس اندوہناک سانحے کا شکار ہوئے
۲۳ستمبر ۲۰۲۰ کواس سانحے کے آٹھ سال بعد عدالت نے ۲ قاتلوں کو موت کی سزا سنائی۔

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 63484 views "I write to discover what I know.".. View More