زندگی کا روگ ، کردار کی موت !

دیکھو آنکھوں کے حلقے کی گہرایوں کا انت!
ضمیر کی محرومی اور دل کے اندھیروں کا انت !


تو بات کچھ یوں ہے :
بشیر زمانے کے دکھ دنیا کے رکھ رکھاؤ کے لیے دل میں پیوند کر کے کالو کے پاس جاتا ہے ، چونکہ کالو سے اُنس ہے اس لیے آج بشیر دکھ کو پیوند کرنا ضروری نہیں سمجھتا اور کالو کے سامنے اپنے دل کے ٹکڑوں کی پوٹلی کھول دیتاہے ، کالو جو کے خدا سے حقیقت میں ڈرتا ، دشمن کو بھی کبھی غلط نصحیت نہیں کرتا ، اپنے دوست کی یہ حالت دیکھ کر افسردہ دل ہو گیا، پوچھنے لگا ،کیا ہوا ہے ؟ بشیر کیوں آنکھوں کی پتلی کو تنگ کرتے ہو ، کیوں دل پر پہاڑ جیسا بوجھ اٹھاۓ ہوۓ ہو ؟
آج تم دوست کے پاس آۓ ہو ، دل کے بوجھ کو بانٹو گے نہیں؟؟؟
بشیر کی آنکھیں جو کہ عمر کی خستہ حالی کی گواہی دے رہی تھیں ، پریشان تھیں ، عمر کے تجربوں سے گھیری ہوئ زندگی، اب معاشرے کی ناانصافی کے بوجھ سے لُڑک رہی تھی !
بیزاری نے دل کو کافی عرصے پہلے ہی مار دیا تھا جسکے قبرستان کا کسی کو پتا نہ تھا ،روح جسم کی کوٹھری میں جی تو رہی تھی، لیکن اپنے آزاد ہونے کا انتظار بھی کررہی تھی، کالو بشیر کے دَرد کو سمجھتا تھا ، سمجھتا بھی کیسے نہ ؟ ایک ہی اسکا بیٹا ، اچھے گریڈز سے ڈگر ی لیے بیٹھا تھا اور نوکری کا کوئ نامو نشان نہیں مل رہا تھا !
کالو سمجھتا تھا اس کے دل کی بےچینی کو ۔۔
بشیر نے دل کے زخموں کو کالو کے سامنے عیاں کر دیا کہنے لگا ہمارے معاشرے میں
با کردار مرر رہے ہیں ،پھانسی گلے میں ڈالے ، اندھیرے کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں ایسے لگتا ہے آخری سانس کی بازی پر بیٹھے، بسترِ مرگ پر مریض کی طرح پڑے ہوۓ ہیں اور بچے وصیت کے انتظار میں کھڑے ہیں اور دوسری طرف بے کردار کو آفرین مل رہی ہے!!
کہیں ایسے کم ظرف لوگ بھی دیکھے ہیں ؟ جو اندھیروں کا سواگت اندھیروں سے کرتے ہیں اور روشنی کو اپنی بے حرمتی سمجھتے ہیں
کیوں کالو ؟ یقین نہیں ہوتا؟ تو دیکھو معاشرے کے کالے اندھیروں کی طرف جہاں ڈگریاں بھی سفارش کی محتاج ہیں ، جہاں مصنف کو بھی کچھ اخبار میں پبلش کرانا ہے تو reference اچھی لانی ہوتی ہے ، دیکھو ان بے کردار لوگوں کو جو کسی کا کام اپنے نام پر پبلش کراتے ہیں تاکہ اخبار کی زینت بنی رہے !
کیا انکا ضمیر شور بھی نہیں مچاتا؟ کیا انکو زندگی محروم سی نہیں لگتی ؟
کالو! ضمیر مر رہے ، کردار مر رہے ہیں اور افسوس کی بات دل بے چین بھی نہیں ہوتے !!
دیکھو نوجوانوں کو! جو کہ سمجھتے ہیں کے کامیابی پیسے کا نام ہے!
ہاں ،ہاں! دیکھو آنکھوں کے حلقے کی گہرایوں کا انت!
ضمیر کی محرومی اور دل کے اندھیروں کا انت !

کالو ، یہاں جزبات بھی کاروبار بن گۓ ہیں اب لوگ رشتے بھی کاروبار کی طرح کرتے ہیں اور پھر غمگین بھی ہیں !
بندہ پوچھے ،جب تم لوگ رشتے بھی کاروبار کی طرح کرتے ہو تو پھر رشتوں میں محبت کہاں سے ہونی ہے ؟ قربانی کا تصور وہاں پیدا ہونا تو دور کی بات ہمدردی کا دَرد ملنا بھی مشکل ہے ،
دیکھو ان ماں کی دُکھتی ہوئ آنکھوں کو جو خون کے آنسوں بہا رہی ہیں ، دیکھوں بوڑھے باپ کے ہونٹوں کو جو دُکھ کی کہانی خاموشی سے سنا رہے ہیں، دیکھو سفید پوش انسان کی بےبسی کو جس پر امراء کے پیسے رقص کر رہے ہیں ۔
یہاں کس کو پڑی ہے کردار کی سب پسے اور کامیاب ہونے کے نشے میں چور ہیں ، ہر چیز کو خریدنا چاہتے ہیں ، کامیابی کے زور پر ہر چیز کو اپنا بنانا چاہتے ہیں، پھر چاہے وہ چیز بے جان ہو یا جاندار انسان ہو یا جانور ، ۔۔کالو جب موت سے پہلے موت آجاۓ تو وہاں قبر سے پہلے قبریں دلوں میں بن جاتی ہیں ، بوڑھاپے سے پہلے کمریں ٹوٹ جاتی ہیں ، وہاں زندگی زندگی نہیں ،موت سے بھی بد ترین بن جاتی ہے ، اور وہ موت کردار کی موت ہے ، انسان کی سوچ کی موت ہے!!!!!!

Sadia Ijaz Hussain
About the Author: Sadia Ijaz Hussain Read More Articles by Sadia Ijaz Hussain: 21 Articles with 24554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.