|
|
اگر کسی سے پاکستان کی سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر
کیا ہو تو یہ ناممکن ہے کہ وہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی سے واقف نہ ہو قمیض
تیری کالی یا اے تھیوا مندری دا تھیوا جیسے مسحور کن گیتوں کی آواز ان کے
کانوں تک ضرور پہنچی ہو گی- اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے
دوران ایک گانا جو سب کی زبان پر رہا ' جب تو آئے گا عمران ' تھا اتنی بہت
ساری مقبولیت اور ہزارہا گانوں کے خالق عطا اللہ کو نام سے تو سب ہی جانتے
ہیں- مگر اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں
نے زندگی کی کن کن صعوبتوں کا سامنا کیا- |
|
ابتدائی زندگی |
میاںوالی کے علاقے عیسیٰ خیل سے تعلق رکھنے والے عطا
اللہ کا تعلق نیازی خاندان سے تھا مگر خاندان کے بائيکاٹ کے سبب ان کے لیے
اپنے نام کے ساتھ نیازی لگانے کی ممانعت ہے- اس وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ
نیازی کی جگہ عطا اللہ عیسی خیلوی لگاتے ہیں اور اسی نام سے مشہور بھی ہیں- |
|
اپنے علاقے کے عام سے اسکول میں میٹرک تک کی تعلیم حاصل
کی اس دوران اسکول کے مختلف پروگراموں میں حمدیہ اور نعتیہ کلام پڑھ کر اور
مختلف گائکی کے مقابلوں مین حصہ لیتے رہے- مگر ان کے والد نہیں جانتے تھے
کہ ان کے بچے کا یہ شوق آئندہ آنے والی زںدگی میں اس کا جنون بن جائے گا-
کالج کی تعلیم کے دوران اپنے والد کی آٹا چکی میں ان کے ساتھ کام بھی کرتے
رہے اور ہاتھ بھی بٹاتے رہے مگر گلوکاری کا یہ شوق بار بار باپ بیٹے کے
تعلقات کے آڑے آتا رہا باپ گلوکاری کو میراثيوں کا پیشہ قرار دیتا تو بیٹا
اس کو روح کی غذا مانتا- اس ٹکراؤ میں کئی بار نوبت مار پیٹ تک بھی آگئی
یہاں تک کہ تنگ آکر عطا اللہ نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا- |
|
|
|
تن کے کپڑوں اور کاندھے پر ایک چادر ڈال کر جب وہ گھر سے
نکلنے لگے تو ماں نے چھپ کر اپنی بچت سے بچائے ہوئے کچھ پیسے بیٹے کی جیب
میں ڈال کر بہت ساری دعاؤں کے سائے میں اسے رخصت کر دیا- |
|
کراچی کے شب و روز
|
1972 میں عیسیٰ خیل سے جب کراچی آئے تو پیٹ کی بھوک نے
روح کی غذا کی لذت کو بھلا دیا اور عطا اللہ مزدوروں کے ساتھ ایک چھوٹے سے
کمرے میں دن بھر مزدوری کرتے اور رات میں اپنی آواز سے دوسرے مزدوروں کا دل
بہلاتے- تین سال بعد بہن کے مرنے کی خبر سن کر بے ساختہ عیسیٰ خیل لوٹے مگر
ان کے اور ان کے والد کے تعلقات میں کوئی فرق نہ آیا تھا اور اب انہوں نے
کراچی کے بجائے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا اور داتا کی نگری میں قسمت
آزمانے کا سوچا- |
|
داتا کی نگری کی نوازشیں
|
1978 ان کی زںدگی کا یادگار سال ثابت ہوا اس سال ویڈیو
پاکستان بہاولپور میں ان کو پہلا بریک ملا اور ان کی آواز میں گانا ریکارڈ
کروایا گیا اور یہیں سے ان کی آواز کو سن کر نیلام گھر کراچی کے ایک شو میں
بھی ان کو گانا گانے کا موقع دیا گیا- |
|
ان کی آواز جب آڈيو اسٹوڈیو رحمت گراموفون کے مالک
چوہدری رحمت علی تک پہنچی تو وہ اس ہیرے کی چمک دمک دیکھنے کے لیے بے تاب
ہو گئے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے عطا اللہ تک پہنچے اور 1979 میں ان کی آواز میں
ایک دو نہیں بلکہ چار آڈیو والیم ریکارڈ کروا بیٹھے اور اس کے بعد شہرت
کامیابی عزت دولت کی برسات کا سلسلہ شروع ہو گیا- یہاں تک کہ عطا اللہ اب
تک 600سےزیادہ آڈيو ریکارڈ کرواچکے ہیں جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے- |
|
|
|
محبت کی کہانی |
عطا اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے زیادہ تر
گانے سرائیکی زبان میں ہیں اور ان کے گانوں کی سب سے اہم خاصیت ان کی آواز
کا وہ درد ہے جو کہ محبت کرنے والے لوگوں کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے
- لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کی آواز کا یہ درد درحقیقت محبت کی ناکامی کے
سبب ہے مگر اس حوالے سے آج تک انہوں نے کبھی کھل کر نہیں کہا تاہم ان کا یہ
ماننا ہے کہ محبت کسی بھی فن کار کی زندگی کا سب سے اہم موڑ ہوتا ہے- |
|
عطا اللہ نے اپنی زںدگی میں پانچ شادیاں کیں جن میں سے
چوتھی شادی اداکارہ بازغہ سے کی ان سے ان کے چار بچے ہوئے- دو بیٹے سانول
اور بلاول ہیں جب کہ دو بیٹیاں لاریب اور فاطمہ ہیں سب بچے انگلینڈ میں پلے
بڑھے ہیں اور اب سانول موسیقی کے شعبے میں اپنے والد کے ساتھ ہیں- اس کے
بعد انہوں نے پانچویں شادی ایک گھریلو خاتون سے کی اور حالیہ دنوں میں
پاکستان میں اسی کے ساتھ رہائش پزیر ہیں - |