|
|
پاکستان میں خواجہ سراؤں کو آج بھی اپنی شناخت اور اپنی
پہچان کے لئے ایک جنگ لڑنی پڑتی ہے جو اس جنگ سے بھی زیادہ مشکل اور تکلیف
دہ ہے جو ایک عورت یا ایک مرد کو اپنے حقوق کے لئے لڑنی پڑے۔۔۔کیونکہ پہلے
تو انہیں کوئی پہچان ہی نہیں دیتا۔۔۔اور پھر تعلیم اور بنیادی سہولیات تو
پھر دوسرے نمبر پر آجاتی ہیں۔۔اس صورتحال میں بھی اگر کوئی خواجہ سرا اپنے
حق کے لئے لڑے اور خود کو ایک مقام پر پہنچائے تو معاشرے کے لئے ایک بہت
بڑی مثال ہے۔۔۔ |
|
|
|
ایک ایسی ہی مثال ہے نشاء راؤ۔۔۔نشا پاکستان کی پہلی
خواجہ سرا وکیل ہیں۔۔۔جب نشاء شروع میں کراچی کی سڑکوں پر بھیک مانگا کرتی
تھیں تو انہیں شروع سے ہی پولیس والوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔۔۔انہیں ایک عجیب
خوف تھا کیونکہ پولیس والے بہت بدتمیزی سے بات کیا کرتے تھے اور کافی تلخ
ہوتے تھے خواجہ سراؤں کے ساتھ۔۔۔ |
|
اس صورتحال میں نشاء کو ان کے ایک استاد نے مشورہ دیا کہ
وہ وکالت پڑھنا شروع کریں۔۔یوں نشاء اس امتحان سے گزرنے کے لئے تیار
ہوگئیں۔۔۔پہلے سال میں ہی انہوں نے باقاعدہ اپنی پڑھائی اور اپنی بھیک
مانگنے کا ٹائم ٹیبل بنایا۔۔۔جس میں وہ صبح آٹھ سے بارہ بیک مانگتیں اور دو
بجے شام کی کلاسیں لینے جاتیں اور پانچ بجے گھر آتیں۔۔۔یوں نا تو پڑھائی پر
اثر ہوا اور نا ہی بنیادی ضروریات پر۔۔۔ |
|
|
|
نشاء کا کہنا ہے کہ سٹی کورٹ میں نا صرف وکیل بلکہ ججز
بھی ان سے بہت نرمی سے پیش آتے ہیں اور اب ان میں خود اعتمادی میں بھی
اضافہ ہوا ہے اور وہ کافی خواجہ سراؤں کے لئے بھی کیسز لڑ چکی ہیں۔۔ |