جعل سازی

شاید بعض چیزیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں، بس اپنا رُوپ بدل کر دوبارہ سامنے آجاتی ہیں اور بالکل نئی معلوم ہوتی ہیں، ایسی ہی ایک خبر پچھلے دنوں سامنے سننے میں آئی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان بھر میں 40 فیصد سے 50 فیصد ادویہ جعلی بن رہی ہیں۔مجرم پکڑے جاتے ہیں مگر قانونی اور انتظامی کمزوریوں کے سبب گرفتار افراد سزا سے بچ جاتے ہیں۔یہ الفاظ کسی اور کے نہیں بلکہ جناب وفاقی وزیر داخلہ کے ہیں جو انہوں نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں کہے۔

21 ستمبر 2008ءکو بھی اسی سلسلے میں ایک خبر آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایف آئی اے نے کھارادر کراچی کے علاقے ڈینسو ہال میں چھاپہ مار کر ڈھائی کروڑ روپے مالیت کی جعلی دوائیں برآمد کرلیں۔

اور اب تازہ خبر ملک کے بڑے اخبارات میں بڑے طمطراق کے ساتھ اشتہار کی صورت چھپی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جعلی ملاوٹ شدہ اورمضر صحت ادویات کا مسئلہ روز بروز قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ خبر کراچی اسٹاف رپورٹر کی طرف سے کچھ یوں ہے:

پاکستان میں پہلی بارایک ملٹی نیشنل فارما کمپنی نے سینٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں غیر معیاری قرار دی جانے والی ٹیبلٹ ڈسپرول (پیراسیٹا مول)کو واپس لینے کی ہدایت جاری کر دی۔اور ڈاکٹروں ، کیمسٹ اور فارما سسٹ سے کہا ہے کہ مذکورہ دوا کی فروخت فوری بند کر کے کمپنی کو واپس کرد یں۔ کراچی میں اس ٹیبلٹ کی مقدار 4کروڑ 90لاکھ بتائی جاتی ہے جو اسپتالوں اور میڈیکل اسٹوروں پر عام دستیاب ہے۔اس ٹیبلٹ کے نمونے کیمیائی تجزیے کے لیے رواں ماہ میں پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئرانیشی ایٹو کے گودام سے حاصل کیے گئے تھے جو کیمیائی تجزیے کے لیے سینٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری بھیجے گئے تھے۔ کیمیائی تجزیہ کے بعدڈاکٹر عبید علی کے دستخط کے بعد جاری ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ مذکورہ ٹیبلٹ غیر معیاری ہے۔

آپ نے خبر ملاحظہ کی.... کتنے لوگوں نے اس خبر کو سرسری پڑھا ہو گا اور کتنے لوگوں نے اس کی سنگینی کو محسوس کیا ہو گا!

جب تک کمپنی کی طرف سے دوا کو واپس لیا گیا ہو گا۔ نہ جانے اس بیج کی کتنی ٹیبلٹس فروخت ہو چکی ہوں گی اور معصوم لوگوں نے اسے بخار اور درد کے علاج کے طور پر استعمال کیا ہو گا۔ان کا بخار اور درد تو دور ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن دوا کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے کتنے ذیلی اثرات ان کو بھگتنا پڑیں گے اس کی ذمہ داری حکومت سمیت کسی بھی ادارے نے نہ کبھی سمجھی اور نہ دور دور تک اس کے امکانات ہیں!

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے تقریباً بارہ پندرہ سال پرانی کہ اخبار میں خودکشی کی کوشش کا ایک واقعہ شایع ہوا تھا جو واقعے کی سنگینی سے ہٹ کرعوام میں ایک لطیفہ بن کر رہ گیا تھا.... شاید اکثر لوگوں کو یاد ہو۔ واقعہ کچھ یوںتھا کہ ایک نوجوان لڑکی نے گھروالوں سے جھگڑے کے بعد گھر میں رکھی زہریلی دوا (شاید کیڑے مار دوا )پی لی تھی ۔ جب اس لڑکی حالت غیر ہونے لگی تو گھر والے اسپتال لے کر بھاگے۔ایمرجنسی میں اس کو فوری طبی امداد دی گئی تو غیر متوقع طور پر وہ لڑکی ہوش میں آگئی۔بعد میں جب اس دواکی جانچ کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس میں اصل دوا کی مقدار صرف دس پندرہ فیصد تھی باقی جعلی آمیزہ تھا۔ قدرت کولڑکی کی زندگی منظور تھی،سو بچ گئی۔ یوں یہ لطیفہ عام ہواکہ آج کل تو خودکشی کرنے کے لیے زہر بھی اصلی نہیں ملتا!

بہرحال اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ کچھ پتا نہیں چلتا کہ اصل دوا کون سی ہے اور نقلی کون سی؟ جب تک کسی لیبارٹری سے تصدیق نہ کرالی جائے، معاملہ سوال بنا رہتا ہے۔ اس پر ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔ یہ بھی کسی اخبار میں آیا تھا جو کچھ یوں تھا کہ کوئی صاحب مختصر عرصے کے لیے بیرون ملک جارہے تھے۔ انہوں نے اپنی بیماریوں کے پیش نظر ڈاکٹر سے ادویہ لکھوائیں اور ساتھ لے گئے ۔ وہ وہاں جاکر دوائیں استعمال کرتے رہے تو فائدے کی بجائے مرض بڑھ گیا۔ موصوف اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کرکے واپس آگئے۔ ڈاکٹر صاحب سے شکایت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ ساری کی ساری دوائیں جو اس دورے کے پیش نظر، زیادہ خریدلی گئی تھیں، جعلی ہیں۔ لیبارٹری میں معلوم ہوا کہ ان میں اصل اجزا یا تو پانچ تا دس فیصد ہیں۔ یا بالکل بھی نہیں ہیں، صرف ان کا رنگ، ذائقہ وغیرہ اصل ادویہ جیسا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟.... خدا جانے.... لیکن یہ واقعہ اپنے سیاق و سباق میں بالکل حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا ہے اور تازہ رپورٹ تو اس کی مکمل تصدیق کرتی ہے۔ اس سارے جائزے سے کم سے کم یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ ہمارے بچپن سے لے کر اب تک اس شعبے میںمعیار کی صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور اس کے برعکس قیمتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ چنانچہ جو دوا ہمارے بچپن میں صرف پانچ دس روپے میں مل جاتی تھی وہ آج کم از کم ڈیڑھ سو سے دو سو کی ہے!

نئے ٹیکسوں کے بعد تو اطلاع ہے کہ اکثر دواؤں کی قیمتوں میں 200 فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہو جائے گا۔جعلی اور مہنگی ادویات کے بارے میںگو ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں لیکن یہ موضوع ہرگز ایسا نہیں ہے کہ اس سے سرسری گزر جایا جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آدمی بھوکا رہ لیتا ہے، سر چھپانے کو کچھ نہ ہو تو چند چیتھڑے کسی میدان میں تان کر گزارا کر لیتا ہے لیکن جب اس کے پیارے ‘ اس کے بچے بیمار ہوں تو ان کی دوا کے لیے اپنا خون پسینا بہا کر اور نہ جانے کیا کیا جتن کر کے چند پیسے اکٹھے کرتا ہے اور پھر اس خون پسینے کی کمائی سے جو دوائی ہاتھ میں آتی ہے وہ نہ صر ف کوئی فائدہ نہیں دیتی بلکہ مضر صحت ملاوٹی اجزا کی وجہ سے اکثر جان کے درپے ہو جاتی ہے....

یہ کتنا بڑا المیہ ہے؟پھر عذاب نہ آئیں گے تو کیا ہو گا؟ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174667 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More