قارئین عشق کا نام تو آپ نے سُنا ہی ہوگا اور مقام تو اس
سے بھی زیادہ پہچانتے ہوں گے۔عشق کا پہلا معرکہ حضرت آدم علیہ السّلام کی
اولاد ہابیل اور قابیل کے درمیان چھڑا جس کا اختتام دنیا کے پہلے قتل پر
ہوا۔اسکی تعریفیں بھی مختلف فقہاۓ نظر کی آراء میں مختلف ہیں۔ مثلاً صوفیاء
کرام یا اہل تصوف اسے انسان کی معراج قرار دیتے ہیں اور عشق کرنے والوں کو
خدا کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔انھوں نے عشق کی اصل خوشنودی خداوندی کو
قرار دیا ہے۔اہل رومان یا شاعر حضرات مجازی عشق کو بھی انسان کی حقیقی خوشی
قرار دیتے ہیں۔مجازی عشق سے مراد عورت اور مرد کا عشق ہے۔عشق وقوع پذیر
ہونے کی نشانیاں بھی مختلف زمانوں میں مختلف ہی رہی ہیں، مثلاً پہلے زمانوں
کی داستانوں میں سنتے تھے کہ دوردراز کے علاقوں میں رہنے والے شہزادوں اور
شہزادیوں کو خوابوں میں اجنبی سا سراپا دیکھ کر عشق ہو جاتا تھا۔پھر وہ
اپنا دن رات ایک کر کے محبوب کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے تھے۔یاپھر کسی کے
حسن کے چرچے سن کر بھی کوئی نہ کوئی پکا اور سچا عاشق نازل ہو جاتا،وقت
کےساتھ ساتھ عاشقوں کی قسمیں بھی بدلتی گئیں، مثلاً پہلے زمانوں میں لافانی
عاشق پاۓ جاتے تھے۔جو غالباََ اس دنیا پر ان مٹ نقوش چھوڑ گئے، اور جن کے
بارے میں اقبال یوں فرماتے ہیں؛
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
ان کے بعد باری آتی ہے"رومانی"عاشقوں کی،جن کو خراج تحسین پٹھانے خان گا کر
یوں پیش کرتے ھیں؛
میڈا عشق وی توں
میڈی جان وی تُوں
اس جماعت عاشقاں کے کچھ تو دوررس اثرات تو غالب تھے جو کہ بالآخر ماننا ہی
پڑتے تھے۔اس کے بعد باری آئی اختر شیرانی عاشقوں کی،جن کے روحِ رواں خود
اختر شیرانی تھے۔بقول ان کے؛
کبھی سلمیٰ کے رومان حسیں کے تذکرے کیجئے
کبھی عذرہ کے افسانے کو عشق رائیگاں لکھئے
کبھی پروین کی مرگ عاشقی پر فاتحہ پڑھئے
کبھی شمسہ کے زہرآلود ہونٹوں کا کا بیان لکھئے
دوسرے الفاظ میں اختر نے اپنے ہم جماعتوں کو یہ پیغام عام کیا کہ ایک عشق
آگر ناکام ہو بھی جائے تو دوسرے کی طرف راہ ناپ لینی چاہیئے،آخر کو اتنی
لمبی زندگی ہے،چار، پانچ کی گنجائش تو ہونی ہی چاہیئے۔
اس کے بعد تانتا بندھ گیاچائینی عاشقوں کا ،ادھر اگلا ٹوٹا نہیں،ادھر نیا
ہوا نہیں،بلکہ کبھی کبھار تو عشق پر عشق دھر لیا جاتا ہے۔اسی جماعت نے بچپن
کے سنے سنائے اس شعر کو پھوں پھاں کر کے ہوا میں اڑا دیا؛
چاندنی چاند سے ہوتی ہے ستاروں سے نہیں
محبت ایک سے ہوتی ہے ہزاروں سے نہیں
اور اسی جماعت کے پیروکار وں کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ہمارے
شاعر حضرات مذاقا ہی صحیح مگر کہنے پر مجبور ہوئے؛
چاندنی چاند سے ہوگی تو ستاروں کا کیا ہوگا
محبت ایک سے ہوگی تو ہزاروں کا کیا ہوگا
اگر بات کی جائے پاکستانی عاشقوں کی،یہ متوالے تو عاشقوں کے فرقوں میں جدید
سے جدید مانے جاتے ہیں۔
ان کے اصلی دل تو ان کے پاس ہیں نہیں،وہ تو انڈیا والوں نے خوبصورت،خوبصورت
اداکارئیں دکھا کر لوٹ لیے ہیں ۔کمبخت اس قدر ظالم سماج ہیں کہ ہمارے
چرواہوں کے دل بھی نہیں چھوڑے،اب دل تو پاس ہیں نہیں،ان لوتھڑوں کا کیا
ہے۔جس کا من چاہے لے لے۔ ابھی حالیہ دنوں کا ذکر ہے،کسی سلسلے میں مجھے "
پولی کلینک" اسلام آباد جانا ہوا،وہاں کی لیٹرینوں میں جگہ جگہ نمبر لکھے
ہوئے تھے۔ مثلاً میں اقراء ہوں۔میں بہت ہی خوبصورت ہوں۔میں نمرہ ہوں،میں
تبسّم ہوں وغیرہ وغیرہ۔اب آپ ہی بتائیے ایسے عاشقوں کو بھلا کیا القاب دیا
جائے،یہ شعر ان کے کرتوتوں کی صحیح نمائندگی کرتا ہے؛
"لکھ آئے تھے ہسپتالوں کی لیٹرینوں تک جو نمبر اپنا
نہ آئی کسی محبوب کی مس کال بھی"
پچھلے دنوں ایک شادی میں جانا ہوا،وہاں دولہے میاں اپنے روئے روئے اور
دھوئے دھوئے منہ شریف کے ساتھ تشریف آور تھے۔اور خواتین اس کے متعلق نہایت
دلچسپ انداز میں محو گفت و شنید تھیں۔ایک نے کہا،ہائے ہائے یہ تو رو رہا ہے
بیچارہ۔کہیں آنکھ میں کچھ چلا تو نہیں گیا؟ دوسری نے مسکاتے چسکی بھری،"
عاشق ہے بیچارہ اور عاشق تو روتے ہی رہتے ہیں"۔تیسری نے حیرانی اور پریشانی
کے ملے جلے انداز میں اپنا ماتھا ٹھنکا،"ہائے ہائے پھر بیاہ کیوں رچا رہا
ہے"؟
دوسرے نمبر والی نے باوثوق انداز میں منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،" پرانے
عشق کو باسی کرنے کےلئے"۔پھر تینوں نے یکجا بلند و بانگ قہقہ لگایا۔میں نے
تینوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،اور یہ پرانا عشق باسی کب تک ہو جائے گا؟ ان
میں سے دوسرے نمبر والی نے ہی جواب دیا،
انشاء اللّٰہ کل تک۔پھر کھلکھلاتےہوئے اپنی ساتھی خواتین کے ہاتھوں پر ہاتھ
مارے۔
پچھلے سال ہمارےپڑوس میں ایک شخص بیمار بیوی کے علاج کےلئے اسپتال
گیا،تیمارداری کےلئے بیٹی کو ساتھ لے گیا،پانچ دن بعد عین واپسی کے وقت اس
کی جوان سال لڑکی غائب ہو گئی۔چھ ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد معلوم پڑا کہ
ان پانچ دنوں میں محترمہ پر کسی اور تیماردار کا عشق وارد ہو گیا تھا اور
پھر وہ گھر واپسی کا انتظار کیے بنا اسپتال سے ہی بھاگ گئی۔اب ایسے عشق کو
کیا عنوان بخشا جائے۔" جدید" یا " جدید سے جدید تر" خیر ابھی تو دنیا جاری
وساری ہے اور بقول اقبال کے؛
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
بہرحال اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ایس_ کے_ نیازی،پپلاں
|