میں ہیرو بننا چاہتا تھا لیکن --- پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے نامور فنکار خالد بٹ کی جدوجہد کی داستان

image
 
خالد بٹ کا شمار پاکستانی شوبز انڈسٹری کے ان عظیم فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس شعبے میں اپنا نام پیدا کرنے کے لیے سخت محنت کی- خالد بٹ کو ان فنکاروں کی فہرست میں رکھنا غلط نہ ہوگا جن کی موجودگی نے پاکستان ٹیلی وژن کے سنہری دور کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنایا-
 
خالد بٹ پنجابی اور اردو کے متعدد ڈرامہ سیریل میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں جن میں قابلِ ذکر جنجال پورہ٬ سورج کے ساتھ ساتھ٬ حمام٬ بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ٬ لنڈا بازار٬ قسمت اور جی ٹی روڈ شامل ہیں-
 
خالد بٹ نے 1970 میں فلم کے شعبے میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے لاہور کا رخ کیا کیونکہ وہ ہیرو بننا چاہتے تھے لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ ان کی وضع قطع ہیرو والی نہیں ہے-
 
خالد بٹ کہتے ہیں کہ “ میں ہیرو بننا چاہتا تھا لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں وحید مراد کی طرح پرکشش نہیں ہوں جبکہ میں 5 ماہ تک کسی فلم یا ڈرامہ میں کردار کے حصول کی کوشش کرتا رہا لیکن سب بےکار رہا- لیکن پھر میں فلموں کا ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر بن گیا اور میں نے یہ کام 10 سال کیا جب کہیں جا کر مجھے چند اشتہاروں میں اپنی فنکاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا“-
 
image
 
“ لیکن جب فلم انڈسٹری بحران کا شکار ہوئی لوگوں سے اپنی رقم نکلوانے کے لیے بھیک مانگنی پڑتی تھی جو مجھے پسند نہیں تھا- اس لیے میں نے ڈرامہ انڈسٹری کا رخ کیا اور وہاں رقم وقت پر مل جاتی تھی“-
 
“ پہلی بار عارف وقار نے میرا آڈیشن لیا جس میں انہوں نے مجھے ایک ہی لائن کو 5 مختلف انداز میں پڑھنے کو کہا جو میں نے کر دکھایا- جس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے سیریل کے لیے منتخب کر لیا -اور یوں میں اپنے پہلے ہی ڈرامہ سیریل میں ہیرو کے طور پر متعارف ہوا اور یہی میری پہچان بھی بنی“
 
سینیر فنکار خالد بٹ خیام سرحدی کے ساتھ تھیٹر پلے میں بھی اپنی اداکاری کا مظاہرہ کیا لیکن جب ان اسٹیج ڈراموں میں غیر اخلاقی ڈانس کو شامل کیا گیا تو خالد بٹ نے تھیٹر سے کنارہ کشی اختیار کر لی-
 
خالد بٹ کا ماننا ہے کہ ایک اداکار کو کبھی بھی اپنے آپ کو ایک ہی کردار سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لیے اپنی جدوجہد کے دوران خالد بٹ چھوٹے چھوٹے کرداروں کو اہم سمجھتے ہوئے پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کیا-
 
image
 
خالد بٹ کہتے ہیں کہ “ میں پی ٹی وی دور کی ریہرسل کو بہت یاد کرتا ہوں کیونکہ اس وقت بہت زیادہ ریہرسل ہوتی تھی- لیکن اب رات کو کال موصول ہوتی ہے کہ صبح سیٹ پر پہنچنا ہے- اس کے علاوہ اب اچھے اسکرپٹ کی بھی کمی ہے- آج کے اسکرپٹ صرف بدعنوان ثقافت کو جنم دے رہے ہیں- ہم ایسے مردوں اور عورتوں سے ہیرو اور ہیروئن بناتے ہیں جو غیر ازدواجی تعلقات رکھتے ہیں“۔
 
خالد بٹ نے جتنا کام کیا انتہائی معیاری اور اعلیٰ درجے کا کیا جس کی ایک مثال ہم گزشتہ سال پیش کیے جانے والے ڈرامے جی ٹی روڈ میں بھی دیکھ سکتے ہیں- اس ڈرامے میں خالد بٹ نے متوسط گھرانے کے ایک ایسے باپ کا کردار ادا کیا جس نے محنت سے بیٹوں کی پرورش لیکن بڑھاپے میں یہی اولاد جائیداد کی خاطر نافرمان ہوتی نظر آتی ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: