مشرقی بحیرۂ روم میں انقرہ پرغیرمعمولی دباؤہے اوراسے
مستقبلِ قریب میں الگ تھلگ پڑجانے کے خدشے کابھی سامناہے،تاہم اگراس کی
حکمتِ عملی کامیاب رہی تویونان کی حکمتِ عملی بیک فائربھی کرسکتی ہے۔یونان
کے وزیراعظم کاریاکوزمٹسوٹاکس نے حال ہی میں جرمن اخبار
’’فرینکفرٹرالگنامائن زائٹنگ‘‘میں اپنے ایک مضمون میں ترکی کومشرقی بحیرۂ
روم کے خطے میں معاملات کوخراب کرنے والاملک بتاتے ہوئے یورپی یونین
کیلئےایک بڑاخطرہ بھی قراردیا۔یونانی وزیراعظم نے اردگان کوایک ایسی شخصیت
کے روپ میں پیش کیاجواپنے مفادات کی تکمیل کیلئےکچھ بھی کرسکتی ہے جبکہ یہ
حقیقت کے سراسرمنافی ہے ۔سب سے بڑھ کریہ کہ یونانی وزیراعظم نے پناہ گزینوں
کے پانچ سال پرانے مسئلہ چھیڑکریورپی یونین میں دائیں بازوکی انتہا پسندی
اوراسلاموفوبیاکوہوادینے اورمعاملات کوالجھانے کے سواکچھ نہیں۔
یونانی وزیراعظم نے یہ بھی لکھاکہ ترکی نے2020ءکے اوائل میں پناہ گزینوں
کویونان بھیجاتاکہ فضاکشیدہ کی جاسکے،اور دوسری طرف لیبیاسے ایک بحری
معاہدہ بھی کیااوریہ کہ معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتاکیونکہ ترکی جغرافیائی
طورپرلیبیاکا ہمسایہ نہیں۔کاریاکوزمٹسوٹاکس نے ترکی پر1974ءسے قبرص کے
شمالی حصوں پرقابض رہنے کاالزام بھی عائدکیا۔یونانی وزیراعظم یہ بھول گئے
کہ انہوں نے رواں سال کے اوائل میں یونان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے
پناہ گزینوں کودیکھتے ہی گولی مار دینے کاحکم دیاتھااوریہ وہی ہیں جنہوں نے
ترکی اوریونان کے درمیان واقع ایسے تمام جزائرپرعسکری موجودگی یقینی بنانے
کی کوشش کی ہے، جنہیں1923ءکے معاہدۂ لوزین اور1947ءکے معاہدۂ پیرس کے تحت
عسکری موجودگی سے پاک رکھاجاناہے۔
یونان کی ریاست اپنے زیرتصرف قبرص اورعالمی طاقتوں کوعلاقے میں فوجی اڈے
قائم کرنے پراکساتی ہے،عہدِعثمانیہ کی تعمیرکی ہوئی مساجد کوبیت الخلا میں
تبدیل کرتی ہے،ایتھنزمیں مسجدقائم کرنے کی مخالفت کرتی ہے اورمغربی تھریس
کے ترکوں پرزوردیتی ہے کہ وہ اپنی شناخت چھوڑکرمغربیت میں گم ہوجائیں۔ویسے
معاہدۂ پیرس کے تحت مغربی تھریس کےترکوں کومکمل عالمی تحفظ حاصل ہے۔یہ وہی
یونانی قائدین ہیں،جوپناہ گزینوں کوشدید غیر انسانی حالات میں رکھنے کی
وکالت کرتے ہیں اورآیاصوفیہ کودوبارہ مسجدمیں تبدیل کیے جانے پرترکی
کاپرچم نذرِآتش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
یہاں اس نکتے کی وضاحت بھی لازم ہے کہ یونانی قبرصیوں کی جانب سے جزیرے میں
آبادترکوں کاقتلِ عام روکنے کیلئے 1974 ءمیں ترکی کی طرف سے کیے گئے
آپریشن کویونان کی کورٹ آف اپیل نے1979ءمیں بالکل درست قراردیاتھا۔مزید
برآں، ترکی نے رواں سال کے اوائل میں پناہ گزینوں کیلئےاپنی سرحد یورپی
یونین کومشتعل کرنے کیلئےنہیں کھولی تھی بلکہ اس کا مقصدبرسلزکواحساس
دلاناتھاکہ شام کے معاملے میں اس کے فیصلے اور اقدامات انتہائی ناموافق
تھے۔ساتھ ہی ساتھ یورپی یونین کوبھی یاددلاناتھاکہ اس نے اپنے حصے کے
فنڈفراہم نہیں کیے،جس کے نتیجے میں پناہ گزینوں کابوجھ ترکی کوتنہا برداشت
کرنا پڑاہے۔
اب یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ جرمن اخبارمیں یونان کے وزیراعظم کامضمون
سیاسی مقصدکے تحت تھایعنی اس لیے کہ جرمنوں کی حمایت حاصل ہو سکے۔یونانی
قبرص کے صدرنکوس اینسٹاسیاڈیس نے بھی حال ہی میں جرمن اخبار”ڈائی ویلٹ” میں
ایک مضمون لکھاتھا،جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یونانی قبرص کی
انتظامیہ کومشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں ترکی کے ہاتھوں جرائم کاسامناہے
جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔یونان کےوزیراعظم نے اپنے مضمون میں بعض تکنیکی
اصلاحات دانستہ استعمال کیں تاکہ معاملے کوالجھاکرپیش کیاجائے۔اس سے ان کے
اندازِقیادت کابھی اندازہ لگایاجاسکتاہےاوریہ بھی دیکھاجاسکتاہے کہ وہ کس
حدتک دھوکادینے پریقین رکھتے ہیں۔ یونان مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں گزشتہ
چندماہ سے فرانسیسی صدرایمانئیول میکرون،امریکا،اسرائیل اوریونانی قبرص کی
انتظامیہ کے ساتھ مل کرخفیہ کھیل میں مصروف ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہراورترکی میں2016ءکی ناکام فوجی بغاوت کے
بعدامریکا’’عظیم ترمشرقِ وسطیٰ‘‘کے حوالے سے اپنے منصوبے کوعملی جامہ
پہنانے میں ناکام رہاتھا۔واشنگٹن اب ٹرمپ انتظامیہ کی’’ڈیل آف دی
سینچری‘‘کے ذریعے پورے خطے کی نئے سرے سے ڈیزائننگ چاہتاہے۔ اس حوالے
سےٹرمپ کوامن کے نوبل انعام کیلئےنامزد بھی کیاجاچکاہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ یہ
خبرذرابھی حیرت انگیزنہیں۔مشرق وسطیٰ کیلئےنئے امن منصوبے کے تحت پہلے
مرحلے میں فلسطین کاالحاق کیاجا چکاہے۔اس کے بعدخطے کے چندبڑے ممالک نے
امریکاکے واضح اثرورسوخ کے تحت مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت
بھی تسلیم کیاہے۔اپنے سیاسی مقاصدکے تحت اورموسادکے منصوبوں کے ساتھ
اسرائیلی حکومت بلقان،خطۂ خلیج اورشمالی افریقاکوجیتناچاہتاہے۔دلچسپ
اورحیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ تینوں خطے ماضی کی سلطنتِ عثمانیہ کاحصہ تھے۔
متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اسرائیل کوباضابطہ طورپرتسلیم کرلیاہے۔اب
خلیج کی دیگرریاستیں بھی ایساہی کریں گی اور ممکنہ طورپرسربیا اورکوسووبھی
خلیجی ریاستوں کے نقشِ قدم پرچلنے والے ہیں۔خلیج فارس اوربلقان کے خطے کی
ریاستیں امریکاکی بات ماننے پرمجبورہیں کیونکہ یورپی یونین نے بالعموم اور
فرانس سے مفادات کے ٹکراؤکے بعدجرمنی نے بالخصوص دونوں خطوں
کونظراندازکیاہے۔اسرائیل اب اس خطے میں کھل کرسامنے آرہاہے۔وہ اپنی سیاسی
وعسکری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئی شناخت چاہتاہے اورنئی حکمتِ عملی
کے تحت اس خطے میں زیادہ اثرورسوخ بھی چاہتاہے۔اسرائیل خطے کے مسلم ممالک
سے تعلقات کومعمول کی سطح پرلاکرثابت کرناچاہتاہے کہ فلسطین کوضم کرکے وہ
کچھ غلط نہیں کررہا۔دوسری طرف اسرائیل سابق سلطنتِ عثمانیہ کے پرچم تلے
رہنے والے علاقوں میں ترک اثرونفوذختم کرنااورخطے کے ممالک کوترکی کے مقابل
کھڑاکرکے اسے الگ تھلگ کرناچاہتاہے۔
اسرائیلی قیادت،امریکا،یونان،یونانی قبرص کی انتظامیہ اورکسی حدتک مصرکی
مددسے جوکچھ بھی کرنے کے موڈمیں ہے،وہ یونانی وزیراعظم کے جرمن اخبارمیں
شائع ہونے والے مضمون سے بھی بالکل واضح ہے۔خطے کے ممالک سے تعلقات معمول
پرلاکراسرائیل ذرائع نقل وحمل اورلاجسٹکس کے حوالے سے نئے روٹس تلاش
کررہاہے۔اسے ایک بڑی مارکیٹ میں اپنامال بیچنے کاموقع بھی ملے گااورسب سے
بڑھ کریہ کہ علاقائی بالا دستی کااس کاخواب کسی حدتک شرمندۂ تعبیرہورہے
گا۔مشرقی بحیرۂ روم کے خطے سے اسرائیل جوقدرتی گیس حاصل کرتاہے،اس کی
فروخت کیلئے اسے خطے میں کئی ممالک سے معمول کے تعلقات درکارہیں۔ترکی
اورلیبیاکے درمیان معاہدہ طے پاجانے کے بعداسرائیل اب ایسٹ میڈپائپ لائن کے
ذریعے قدرتی گیس کی ترسیل نہیں کرسکتا۔
اگرحکمتِ عملی کامیاب رہے تواب اسرائیل علاقائی طاقت بن کرابھرسکتا ہے
اورشام ولبنان میں اپنے اثرات کادائرہ وسیع کرسکتا ہے۔یوں ان ممالک میں
اپنے کٹردشمن ایران کی موجودگی کی صورت میں جوخطرات موجود ہیں اُن سے زیادہ
خوف کھانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اسرائیل ایک طرف ایران کومشرق وسطیٰ
میں اپناسب سے بڑادشمن ٹھہراکراوردوسری طرف ترکی کو(سلطنتِ عثمانیہ کے
احیاکی دیوانگی کے الزام تلے) اکیسویں صدی میں مشرقی بحیرۂ روم کی
جیوپالیٹکس کاسب سے بڑا ہدف بناناچاہتاہے۔اس حوالے سے اسرائیل کے خفیہ
ادارے موساد نے گمراہ کن رپورٹس کوپھیلاناشروع کردیاہے۔ترکی کے بارے میں بے
بنیادطورپرکہاجارہاہے کہ وہ مصرکےعلاوہ بلقان کی ریاستوں کے گردگھیرا تنگ
کرنا چاہتا ہے۔
فرانس نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ یورپی یونین کوامریکاکے مضبوط ترین حریف
کی حیثیت سے سامنے لائے۔فرانس نے ایک طرف توانگریزی سے دوررہنے کی روش
اپنائی ہے اوردوسری طرف وہ علاقائی طاقت کی حیثیت بھی اختیارکیے ہوئے
ہے۔افریقاکے جوممالک فرانس کی نوآبادی رہ چکے ہیں ، ان میں فرانس نے
مالیاتی معاملات میں اپنی بات منوانے کی کوشش کی ہے اوراس میں بہت حدتک
کامیاب بھی رہاہے۔معاہدۂ شمالی بحراوقیانوس کی تنظیم نیٹوکے متبادل کے
مدمقابل کے طورپر مشترکہ دفاعی نظام کے منصوبے’’دی پرمیننٹ
اسٹرکچرڈکوآپریشن‘‘(پیسکو)کے ذریعے فرانس یورپی یونین کو ایک واضح نئی شکل
دیناچاہتاہے۔اب اگراس عمل میں جرمنی داؤپرلگتاہے تولگ جائے۔فرانس نے مشرقی
بحیرۂ روم کی نشاندہی کرکے ایک ایسی مشترکہ یااتحادی فوج تیارکرنے کی
ضرورت پرزوردیاہے،جوکسی بھی خرابی کوتیزی سے دورکرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
ترکی چونکہ نیٹوکارکن ہے،اس لیے فرانس اچھی طرح جانتاہے کہ وہ ترکی کے خلاف
کوئی ایکشن نہیں لے سکتااوریہ بھی کہ ترکی کوبین الاقوامی معاہدوں کے تحت
خاصااستحکام حاصل ہے اوریہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ ترک فوج
خاصی مضبوط اورمستعدہے۔ترکی کوعشروں سے جاری لڑائی میں پی کے کے جیسی
دہشتگردتنظیم کے خلاف فتح یقینی بنانی ہے۔اس دہشتگردتنظیم کومغربی طاقتوں
کی واضح حمایت ومدد حاصل ہے۔
فرانسیسی قیادت نے بھی ماضی کوذہن سے کھرچ کرپھینکانہیں ہے۔اگست میں جب
لبنان کی بندرگاہ پردھماکے ہوئے تھے تب فرانس نے آگے بڑھ کر میڈیامیں
خودکونجات دہندہ کے طورپرپیش کیا۔تب فرانس کی استعماری سوچ بے نقاب ہوئے
بغیرنہ رہ سکی۔فرانس لبنان میں داخل ہوکر اسرائیل کے سخت حریف
بشارالاسدکوزیراثرلیناچاہتاہے تاکہ حزب اللہ ملیشیاکوکنٹرول کرکے لبنان
سمیت پورے خطے میں ایران کااثرونفوذکم کیاجاسکے۔ساتھ ہی ساتھ وہ خطے میں
یورپی یونین کی فوج تعینات کرکے ترکی پربھی دباؤبڑھاناچاہتاہے۔
اس سلسلے میں پہلاقدم طیارہ بردارجہازچارلس ڈیگال کومشرقی بحیرۂ روم میں
تعینات کرکے یونان اوریونانی قبرص کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کااہتمام
اوریونانی قبرص کے نزدیک فریگیٹس کی مستقل تعیناتی ہے۔فرانسیسی صدرمیکراں
نے حال ہی میں اپنی ایک تقریرمیں کھل کر کہاکہ وہ اردگان کوالگ تھلگ
کرناچاہتے ہیں۔یہ بات انتہائی لغواورفرانس کی برتری پسندذہنیت کی عکاس ہے۔
سب سے بڑھ کریہ کہ فرانس قبرص کے علاقے میں بھی دکھائی دینے کی کوشش
کررہاہے جبکہ وہ قبرص کے معاملے میں ضامن کادرجہ رکھتاہے نہ اس کی سمندری
سرحدقبرص سے ملتی ہے۔امریکا کی طرح فرانس کابھی اس خطے کے معاملات سے کچھ
لینادینانہیں۔یونان اوریونانی قبرص چونکہ یورپی یونین کے ارکان ہیں اس لیے
صرف یورپی یونین اس خطے کے معاملات درست کرنے کیلئےکچھ کرسکتی ہے۔میکراں
اورجرمن چانسلراینگلا مرکل کے درمیان پالیسی کے حوالے سے شدید اختلافات
پائے جاتے ہیں،اس لیے یورپی یونین کیلئےفی الحال مشرقی بحیرۂ روم کے حوالے
سے کوئی جامع پالیسی متعین کرنا ممکن نہیں۔فرانس اس معاملے میں اپنے مفادات
کے تحت کوئی علاقائی پالیسی یقینی بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہاں، فرانس کی
امنگیں خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ضرورہیں توپھرحل
کیاہے؟
یہ حقیقت تواب واضح ہے کہ امریکا،اسرائیل،فرانس،یونان اوریونانی قبرص مل
کرترکی کواس کے تمام حقوق سے دست بردار کرکے الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں
اورساتھ ہی ساتھ مشرقی بحیرۂ روم کے قدرتی وسائل میں اس کے حصے کی بھی نفی
کرنا چاہتے ہیں۔ترکی کے سامنے تین راستے ہیں۔
پہلا راستہ: ترکی کومصرکے ساتھ سمندری حدودکامعاہدہ کرلیناچاہیے۔اردگان
کاکہناہے کہ مصری خفیہ ادارے نے بتایاہے کہ مصرکی قیادت ایسے کسی بھی
معاہدے کیلئےتیارہے۔یہ معاہدہ دونوں ممالک کیلئےسودمندثابت ہوگا۔
دوسراراستہ:روس اورایران کی مددسے شام کے بحران کاجامع اورقابلِ قبول حل
تلاش کیاجائے اوردمشق سے تعلقات معمول پر لائے جائیں۔
تیسراراستہ:روس،ترکی اورایران کوباہمی تعاون شام تک ہی نہیں بلکہ مشرقی
بحیرۂ روم تک بھی پھیلاناپڑے گا،بالخصوص توانائی اورسلامتی کے حوالے سے۔
اگرترکی نے معاملات کوڈھنگ سے نمٹانے کی کوشش نہ کی توعالمی برادری میں الگ
تھلگ پڑجانے کاخدشہ بھی ہے،جیسا کہ 1915ءمیں آرمینائی الزامات کے تحت
ہواتھا۔یہ الزامات بھی مغرب کے گھڑے ہوئے تھے۔اگرترکی کامیاب
ہوکرابھراتومشرقی بحیرۂ روم میں گریک کامیڈی کاخاتمہ ہوگااورگریک ٹریجڈی
کوراہ ملے گی۔
|