تحریر: حافظ عثمان علی معاویہ(صدر پاسبان بزم قلم)
چند روز قبل فرانسیسی صدر ایما نوئل میکروننے اپنے ایک بیان میں کہا
کہاسلام پوری دنیا میں بحران پیدا کرنے والا مذہب بن گیا ہیاس کے بعد فرانس
کی سرکاری عمارت پر نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کے نعوذ باﷲ گستاخانہ
خاکے نصب کیے گئے۔اہل فرانس کے اس قبیح عمل سے ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے دل
کو ٹھیس پہنچی ہے، اہل ایمان کے جذبات سے کھیلا گیا ہے، مومنین کے دلوں کو
چھیلنی کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ کوئی نیا نہیں بلکہ آئے دن حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں۔کبھی الفاظ کی صورت میں،کبھی تحریر
کی صورت میں اورکبھی اسی طرح گستاخانہ خاکوں کی صورت میں۔ لیکن بد قسمتی سے
اس بدبخت کو اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں با عزت بیرون ملک
بھیجنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ہر شخص جانتا
ہے۔مسلمانوں کا یہی رویہ مٹھی بھر کفار کے حوصلے مزید بلند کرتا ہے، مزید
انہیں جرات اور بہادری پیدا کرنے میں معین و معاون ثابت ہوتا ہے۔ملک
پاکستان ہو یا عالمی انسانی حقوق کی ترجمان تنظیمیں اگر گستاخ رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم کو سر عام سزا دے دے تو کسی میں آئندہ گستاخی کرنے کی جرات پیدا
ہی نا ہوگی۔
دشمنان اسلام ہوں یا دشمنان نبی وہ ہمیشہ کے لیے ناکام و نامراد ہو کے رہیں
گے ان کا کوئی نام و نشاں باقی نہیں رہے گا، اسی بات کو اﷲ کریم نے اپنی
مقدس و پاکیزہ لاریب کتاب میں ارشاد فرمایا کہ " یقیناً آپ کا دشمن ہی
ہمیشہ بے نام و نشاں رہے گا۔(سورہ کوثر آیت نمبر 3)اور دنیا نے دیکھا رسول
اﷲ کی گستاخی کرنے والے دشنمان اسلام کا آج دنیا میں کوئی نام لینے والا
نہیں۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعد از نبوت کی زندگی دیکھیں جنہوں نے
تکلیفیں دیں، دشمن بنے، گستاخی کی ان کا کیا حشر ہوا، آج بھی دشمن رسول کا
یہی حال ہوگا انشاء اﷲ بس ہمارا ایمان مضبوط ہو جائے۔ اس حالیہ واقع بعد
ملک پاکستان کے وزیر اعظم خان صاحب کو چاہیے تھا کہ فرانسیسی سفیر ملک سے
نکال دیتے لیکن مجال ہے خان صاب نے ایسا کیا ہو، بلکہ خان صاب نے اپنے ٹویٹ
جو انہوں نے 7ربیع الاول کو کیا تھا اس میں لکھا "فرانسیسی صدر کو انتہاء
پسندوں کو موقع نہیں دینا چاہیے تھا" خان صاحب آپ تو ملک کو ریاست مدینہ
بنانے کے دعویدار ہیں، کیا ریاست مدینہ کا والی ایسا ہوتا ہے جو آقا کی
گستاخ آسیہ ملعون کو فرانس بھیج دے؟، کیا ریاست مدینہ کا والی گستاخوں سے
تعلقات قائم رکھتا ہے؟خان صاحب آپ مسلم ممالک کو خطوط لکھیں گے یا یہ بھی
بولنے کی حد تک ہے، آپ کسی کے لیے بھلا کچھ نا کریں لیکن ریاست مدینہ بنانے
والے نبی کے گستاخوں کو ضرور ان کے انجام تک پہنچائیں۔
ایک طرف گستاخیاں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف ملک عظیم کے وزیر دفاع ہندووں
کے مندر میں جا کے تکہ لگواتے ہیں، گھنٹہ بجاتے ہیں اور ان کے ساتھ اظہار
یکجہتی کرتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتاکہ آپ کی یہ اظہار یکجہتی حضور کے
دیوانوں کے ساتھ ہوتی۔ کم از کم آپ اپنے عہدے کا تو خیال رکھیں ۔اسی طرح
وطن کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں ایک سلیکٹڈ اور جعلی حکومت کے خلاف ایک
صف میں اکھٹے ہو کر جلسے،جلوس،احتجاج اور شہر شہر دھرنے دے سکتے ہیں اور
اپنا حق لینا فرض سمجھتے ہیں کیا ہی خوب ہوتا کہ آپ سب ملکر ملک گیر احتجاج
اور دھرنے دیتے،حکومت اور اعلیٰ افسران فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے نکلنے
پر مجبور کت دیتے ہیں،آج بھی وقت ہے تمام سیاسی و ذاتی اختلافات کو پس پردہ
ڈال دیا جائے اور رسول پُر نور کی ذات اقدس کے لیے جمع ہو جائیں ،مجھے قوی
امید ہے آپ ایسا ضرور کریں گے اور ویسے بھی یہ مہینہ آقا کی آمد کا ہے
گستاخ کوکیفر کردار تک پہنچا دیں اور مدنی آقا کی شفاعت کے مستحق بن جائیں۔
فرانس میں یہ چھوٹا موٹا واقع رونما نہیں ہوا بلکہ گلی گلی، کوچہ کوچہ،
بازاروں میں پوسٹر لگائے گے ہیں ہمارے لیے کس قدر افسوس کی بات ہے ہم ہاتھ
پہ ہاتھ دھرے تماشائی بنے ہوئے ہیں، یوں لگتا ہے کہ مائیں سلطان صلاح الدین
ایوبی، محمود غزنوی، محمد بن قاسم، امیر تیمور اسی طرح کے دیگر بہادر جننے
سے بانجھ ہوگئی ہیں؟ ہماری غیرت ایمانی کا جنازہ نکل چکا ہے؟ ہمارے دل محبت
رسول سے خالی ہوگئے ہیں؟ یا ہم دشمنوں کے اس عمل میں برابر کے شریک ہیں ۔
ضرور سوچیں!کیا ہمیں نبی مکرم سے نام کی محبت ہے؟یا پھر محبت صرف اسی کا
نام ہیکہ ربیع الاول کے مہینہ میں آمد رسول کے جشن منائے جائیں، گلی گلی،
کوچہ کوچہ اور بازاروں کو لائٹس سے روشن کیا جائے، محبت میں انسان مر تو
سکتا ہے لیکن محبوب پہ آنچ نہیں آنے دیتا، ہماری محبت میں کھوٹ ہے ،ذرا
رسول امین کے فرمان میں اپنی محبت کا جائزہ تو لیں ۔
حدیث رسول کا مفہوم ہے:’’تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو
سکتا جب تک اس میں اپنے مال، جان، اولاد اور والدین الغرض ہر چیز سے زیادہ
محبوب نہ ہو جاوں ‘‘۔
آج بھی کچھ نہیں ہوا اگر ہم لڑ نہیں سکتے، اتنے اختیارات نہیں ہیں تو کم از
کم ہم فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں ،خود بھی کریں اور ساتھ
دوسروں کو بھی خریدنے اور بیچنے سے منع کریں۔اس میں مبالغہ نا ہوگا کہ اگر
تمام مسلم ممالک ایک جگہ جمع ہوجائیں تو دنیا دیکھے گی کہ گستاخ رسول کو
اپنے منہ کی کھانے پڑے گی ۔میری تمام مسلمانوں سے درخواست ہے محمد عربی کے
لیے جمع ہو جائیں اور اپنی محبت کو عملی طور پر دیکھائیں۔ گستاخوں کے خلاف
جلوس نکالیں ہمارا یہ عمل ان شاء اﷲ فرانسیسی صدر "ایما نوئل میکرون "کو
تمام مسلمانوں سے علی الاعلان معافی مانگے پر مجبور کر دے گا۔
|