وہ میری امیدوں کا ہیڈ کورارٹر

 مسلمانوں کی موجودہ پستی اور ان کی موجودہ ذلت وخواری اور ناداری پر دل دکھتا ہے اوروہ کون سی آنکھ ہے جو ان کی غربت، مفلسی ، بیر رز گاری پرآنسو نہ بہاتی ہو ، حکومت ان سے چھنی دولت سے یہ محروم ہوئے، عزت ووقار ان کا ختم ہوچکا زمانہ کی ہر مصیبت کا شکار مسلمان بن رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر دو ستو فقط رو نے او ر دل دکھانے سے کام نہیں چلتا بلکہ ضروری ہے کہ اس کے علاج پر خود مسلمان قوم غور کر ے۔جب جب اپنے مرکز سے مسلم امۃ نے روگرادانی کی ندامت اس کا مقدر بنی ۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق

حالانکہ حق وسچ یہی ہے کہ اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے دامنِ رحمت میں انسانیت کی فلاح کا جامع اور مربوط نظام سمیٹے ہوئے ہے۔ انسان کو اشرف المخلوق کا فخریہ اعزاز بھی اللہ تعالیٰ نے اس لیے دیا ہے کہ یہ زمین پر قدرت کا حسین ترین شاہکار ہے۔ انسان کو خالقِ کائنات نے سارے شرف اور اعزازات سے اس لیے نواز رکھا ہے کیونکہ یہی اس کا ’راز دارِ محبت‘ اور کائناتِ ارضی پر اللہ کی نیابت کا امین ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ذریعے ہر دور میں بہترین نظامِ تعلیم و تربیت سے نوازے رکھا حتیٰ کہ حضور ختم الرسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ ’’مجھے اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘

اخلاقِ حسنہ کی یہ تعمیر و تشکیل محض حصولِ علم سے ممکن نہیں بلکہ علم کے ساتھ عملِ صالح اور اُسوۂ حسنہ کی مکمل اتباع سے مشروط ہے۔ اسلام نے انسان کے اس بنیادی جوہرِ تربیت کو پروان چڑھانے کے لئے جو مکمل اور جامع نظام عطا فرمایا ہے اس کا اہم ترین ادارہ مسجد ہے۔ مسجد ہی اسلام کے نظامِ تربیت و روحانیت کی تشکیل کا مرکزی مقام ہے۔

مساجد کی تعمیر اسلامی ثقافت کا امتیاز بھی ہے اور اس کے روحانی نظام میں موجود نظم اور طہارت کی علامت بھی۔ مسجد اسلامی سوسائٹی میں باہمی اِحترام، خیر خواہی، اِجتماعیت اور محبت الٰہی کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعدمیری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کے چین نانائے حسین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ داخل ہونے کے فوراً بعد سب سے پہلے مسجد قبا کی تعمیرفرمائی اور پھر جب مدینہ پاک میں اللہ پاک کے حکم پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستقل قیام کا فیصلہ فرمایا صحابی رسول سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں عارضی قیام کے دوران اپنے اور اپنی ازواجِ مطہرات کے رہائشی حجروں سے بھی پہلے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعمیر فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تا دم وصال اسی مسجد کو اپنا مرکزی دفتر، دار الحکومت، دار القضاء، مرکز تعلیم و تربیت اور دیگر سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا محور بنائے رکھا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اسی سنت مطہرہ پر عمل فرمایا۔ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اسلام نے نماز جیسی اعلیٰ ترین عبادت کی طرح ان تمام سیاسی، سماجی، تربیتی، تعلیمی اور عدالتی امور کی انجام دہی کو بھی دینی فرائض سمجھتے ہوئے برابر اہمیت اور اوّلیت دی ہے۔
 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542419 views i am scholar.serve the humainbeing... View More