دنیا بھر میں ذیابیطس سے بچاؤ کا عالمی دن 14 نومبر کو
منایا جاتا ہے، یہ فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے جنہوں نے انسولین
ایجاد کی، اس طرح اس دن اس عظیم ماہر طب کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے،
مگر اس دن کا بنیادی مقصد ذیابیطس کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ شوگر کی
بیماری سے ہر4 سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اس بیماری کی وجہ
سے ہونے والی اسی فیصد اموات کا تعلق غریب اور درمیانی طبقہ سے ہے۔ پاکستان
ان ممالک میں شامل ہے، جہاں ذیابیطس کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھرمیں تقریباً 46 کروڑ30 لاکھ لوگ ذیابیطس
کا شکارہیں۔ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے باعث پاکستان چوتھے نمبر
پر آگیا ہے۔ماہرین نے ذیابیطس پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کے ذریعے
شوگری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ لازم قرار دے دیا۔ڈ بلیوایچ او نے کہا
ہے کہ ایک دن میں انسان کی ضرورت 5 سے 10 چمچ چینی ہوتی ہے۔موٹاپے اور دل
کی بیماریوں کی بڑی وجہ بھی میٹھے کا غیرضروری استعمال ہے۔پاکستان میں
تقریبا 17.1 فیصد نوجوانوں میں ذیابیطس کامرض پھیل چکا ہے ۔آئی ڈی ایف اور
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے شوگر کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح کے پیش
نظر عوام میں شوگر سے بچاؤ اور بروقت علاج کے لیے عام آگہی پیدا کرنے کیلئے
پہلی بار 1991 کو شوگر کا عالمی دن منایا تھا۔شوگر عالمی دن پر طبی ماہرین
لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ یہ کن عام وجوہات سے ہوتی ہے اور
اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔
طبی ماہر ین کے مطابق شوگر کی بنیادی وجوہات’’موٹاپا‘‘غیر صحت مندانہ طرزِ
زندگی (Sedentary LifeStyle)۔خاندان میں شوگر کے مرض کا عام ہونا (Family
History)۔غیرمتوازن غذا (Non-Healthy Food)۔بڑھتی ہوئی عمر۔بلڈ پریشر (Hypertension)۔خون
میں چکنائی کا عدم توازن (Dyslipidemia) ۔ بارے وجوہات، اسباب، تحفظ اور
باقاعدگی سے علاج کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے ہم ایک ایسے دور میں
زندگی گزار رہے ہیں، جہاں غیر متعدی امراض (Non-Communicable Diseases) سے
فوت ہونے والوں کی تعداد متعدی امراض سے فوت ہونے والوں سے زیادہ ہے، یاد
رہے کہ غیر متعدی امراض میں شوگر سرفہرست ہے۔یاد رہے یہ شرح 1998میں شائع
ہونے والے پہلے سروے سے 22 اعشاریہ 4 فیصد زیادہ ہے، ایک خطرناک پہلو جو اس
سروے میں سامنے آیا وہ "Pre-Diabetes" مریضوں کا ہے، جن کی شرح تقریباً 15
فیصد ہے، یعنی Pre-Diabetes وہ مریض ہیں جو شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کے
قریب ہیں اور اگر یہ ان عوامل (Risk Factor) پر توجہ نہیں دے گے تو آنیوالے
چند سالوں میں شوگر کے مرض مبتلا ہوجائیں گے۔
گزشتہ سال طبی سروے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ شوگر کی وجہ سے ہر 5سیکنڈز
کے بعد دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک فرد اپنی جان کھو بیٹھتا ہے۔شوگر ایک
ایسا مرض ہے جو کم و بیش جسم کے ہر نظام کو متاثر کرتا ہے، اس کے اثرات فرد
سے لے کر معاشرے تک محیط ہیں، شوگر جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی لحاظ سے
انسانی معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے، ڈاکٹر اور مریض کے بعد معاشرے میں
خاندان پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مریض اور مرض دونوں کے
حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔خاندان شوگر کے انفرادی کنٹرول (Diabetes
Self Management Education) میں اہم کردار کرسکتا ہے، تاہم خاندان کے افراد
کی جانب سے شوگر کے بارے میں کم علمی اور خاندان کی خستہ معاشی حالات کی
وجہ سے خاندان بھی شوگر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔خاندان میں
شوگر کے بارے میں مناسب علم ہونے کے باعث ایسے افراد کی نشاندہی اور تشخیص
بر وقت عمل میں لائی جاسکتی ہے جو شوگر میں مبتلا ہونے کے شدید عوامل (Risk
Factors) اپنے اندر رکھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ادویات ، فیسیں اور ٹیسٹ مہنگا ہونے کے
باعث بہت سارے افراد علاج سے محروم رہ جاتے ہیں، یہ حکومت اور معاشرے کی
مشترکہ ذمہ داری ہے کہ صحت کے وسائل اسی حساب سے خرچ کئے جائیں۔ شوگر کی
تشخیص ہوتے ہی اس کا بروقت علاج کرنا چاہیے۔ نارمل غذا ، روزانہ ورزش اور
روزمرہ امور بھی تبدیلی شوگر کا مرض 58 فیصد کنٹرول کرسکتا ہے۔ ہمارے
معاشرے میں بیماری کا علاج اس وقت کروایا جاتا ہے جب وہ سنجیدہ ہوجائے،
عمومی طور پر بیماریوں کی حساسیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ایشیاء اور
پاکستان یورپ میں صحت کی حفاظت کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں جبکہ اس شعور میں
پاکستانی اپنے ہمسایوں سے بھی پیچھے ہیں۔ مقامی سطح پر بیماریوں کے حوالے
سے شعور اجاگر کرنا چاہیے، علماء کرام کی مدد اور معاشرے میں آگاہی فراہم
کرکے بھی ذیابطیس جیسی بیماریوں کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
|