ایک مسیحا کہیں جسے ۔۔!

کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتوں نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ،جبکہ وائرس کی پہلی لہر میں حکومت کی سطح پر ایک ناختم ہونے والا خوف پیدا کرکے عوام سے سراسر زیادتی کی گئی ۔میڈیا اور میڈیکل کے شعبے سے وابستہ لوگوں کی اکثریت نے پروپیگنڈے میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑی ۔لیکن خوش آئند بات یہ رہی کہ راولپنڈی اسلام آباد میں ایک’’ مسیحا ‘‘ایسا بھی تھا کہ جس نے لوگوں میں ’’خوف‘‘ختم کرنے کے لیے خود کو وقف کیے رکھا ۔انہوں نے اپنی تحریروں ،تقریروں اور ٹی وی چینلز پر کرونا کے حوالے ہونے والوں پروگراموں میں دنیا کے مختلف ممالک میں وائرس سے متاثرہ افرادکی ہلاکتوں کا انتہائی خوبصورتی اور اعداد وشمار کے ساتھ تجزیہ اور عوام میں شعور آگاہی کا ایک ایسا فریضہ ادا کیا ہے جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں ۔راولپنڈی کے ’’عبدالستار ایدھی ‘‘اور ’’انصار برنی ‘‘کا خطاب پانے والے ڈاکٹر جمال ناصر کا کرونا کے دوران کردار کسی اعزاز سے کم نہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ پہلے ہی معاشی مشکلات سے دوچار ہیں ۔اکثر لوگ دو وقت کی روٹی تک کو ترستے ہیں ۔علاج معالجہ کے لیے یہ لوگ دو روپے کی پیرا سیٹامول تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ایسے میں کرونا سے بچنے کے لیے ’’لاک ڈاؤن‘‘بھی پریشانیوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے ۔کرونا کے حوالے سے ان کی مثبت مہم کی وجہ سے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد حتیٰ کہ ان کے کلاس فیلوز، دوست احباب بھی بسا اوقات نالاں نظر آتے لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنی مثبت سوچ کی حامل مہم کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔ ہم ان کی سوچ سے ہزار اختلاف کریں لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جا سکتا ہے کہ شفاء من جانب اﷲ ہے ۔علاج لازم ہے ،احتیاط بھی ضروری ہے لیکن کسی قسم کا ’خوف‘‘انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔’خوف‘‘ کی کیفیت مستقبل میں ذہنی و دماغی امراض کا سبب بن سکتی ہے ۔

کروناوائرس کی پہلی لہر سے متاثرہ افراد اور شرح اموات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گذشتہ 8سے 9ماہ میں پاکستان میں ہونے والی تقریباً7ہزار اموات آبادی کے لحاظ سے کوئی زیادہ نہیں ۔اور اہم بات یہ ہے کہ جتنے لوگوں کی موت واقع ہوئی ۔ان میں بھی 5ہزارکے قریب کینسر، امراض قلب ،الرجی ، گروہ اور سانس کی بیماریوں میں مبتلاافراد کی رہی اور جنہیں عالمی سطح پر اپنے مقاصد کے لیے کرونا کا شکار دکھایا گیا ۔

کہتے ہیں کہ ڈاکٹر یا مسیحا وہ کہ جس کی دلجوئی سے انسان کا آدھا مرض دور ہو جائے ۔کسی بیمار کے دل کی تسلی کے لیے ڈاکٹرز حضرات کا رویہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔مریض زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوتو تو تب بھی ڈاکٹر مایوسی والی بات زبان پر نہیں لاتے ۔اور موجودہ مادہ پرستی اور نفسا نفسی کے دور میں ایسے ڈاکٹرز کی بھی وطن عزیز میں کمی نہیں کہ جو لالچ کی وجہ سے بیمار پر دھیان نہیں دیتے ۔ان کی دلجوئی پر توجہ نہیں دیتے لیکن عظیم ہیں وہ ڈاکٹر جو خدمت انسانیہ کے جذبے سے سرشار ہو کر دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں ۔ وہ مرد و خواتین ڈاکٹرز جنہوں نے کرونا کے مریضوں کا علاج ایک فرض،ایک جہاد سمجھ کر کیا اور اسی وجہ سے موت کو گلے لگا لیا ۔ان کی قربانیاں تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔

سلام اِن مسیحاؤں ۔سلام ڈاکٹر جمال ناصر کو کہ جنہوں نے دامے، درمے، سخنے اور قدمے دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصدبنا رکھا ہے ۔بیشک! کوئی انسان مکمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی فرشتہ بن سکتا ہے لیکن فرشتہ صفت ہونا بھی انسانی عظمت کی دلیل ہے ۔ڈاکٹر جمال ناصر کی لیب پر امیر و غریب کو ٹیسٹ کی سہولت حاصل ہے ۔بہت سے بااثر لوگوں کو ’’فری ٹیسٹ‘‘کی سہولت میسر ہے ۔لیکن ایک اہم بات کہ جس کا تذکرہ نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی لیب پر غریب و نادار افراد کے لیے بھی رعایتی ٹیسٹ کی سہولت دے رکھی ہے اور اس بارے اپنے سٹاف کو واضح ہدایت دے رکھی ہے کہ ہماری لیب سے کوئی ضرورت مند مایوس نہیں لوٹنا چاہے ۔اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یہاں بڑے بڑے مالدار لوگ مجھ سے’’ فری ٹیسٹ ‘‘کرواکر چلے جاتے ہیں تو غریب کو کیوں نہ یہ سہولت دی جائے اور بقول ڈاکٹر جمال ناصر ،’’ جن کا کوئی نہیں ہوتا، اُن کا خدا ہوتا ہے‘‘ ۔اس لیے میری لیب سے کوئی غریب بغیر ٹیسٹ کروائے نہیں جانا چاہیئے ۔اﷲ کا خاص کرم ہے کہ بیسوں غریب و امیرلوگ اس لیب سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ لیب بلاشبہ شہر کی ایک ایسی سٹیٹ کا درجہ پا چکی ہے کہ جس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ۔لیب کا معیار بھی اپنی مثال آپ ہے۔

اب ایک مرتبہ پھر کرونا کی دوسری لہر کی شدت سے عوام کو ڈرایا جا رہا ہے ۔بلاشبہ کروناابھی ختم نہیں ہوا ،اس لیے ہمیں حکومت اور عالمی ادارہ صحت کی جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کرنا چاہئے ۔بیماریاں تو زندگی کا حصہ اور اﷲ کی طرف سے ایک آزمائش ہوا کرتی ہیں، ایک بات اہم ہے کہ کرونا کا خوف ہمیں اپنے دل و دماغ پر سوار نہیں کرنا چاہئے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت کرونا سے قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے شعور آگاہی مہم کو مثبت انداز میں جاری رکھے ،ملکی معاشی صورتحال کو ابتری اور ’’سفید پوش‘‘گھرانوں کو معاشی بحران سے بچانے کے لیے ’’لاک ڈاؤن‘‘کو بھی مخصوص علاقوں تک محدود رکھا جانا چاہئے ۔کرونا کی پہلی لہر کے دوران ملک میں جس طرح ’’لاک ڈاؤن‘‘ کیا گیااُس کے اثرات سے ابھی تک لوگ نہیں نکل پائے۔ معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے ۔اس لیے ہم سب کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130317 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.