تحریر: مہوش کرن ، اسلام آباد
وہ اٹھے اور پوچھا ’’کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی۔؟‘‘ جواب ملا ’’نہیں، سب آپ
کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘وہ کھڑے ہوئے لیکن بخار کی شدت سے بیہوش ہو گئے۔
کچھ دیر بعد ہوش آیا تو پھر پوچھا ’’کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی۔؟‘‘ جواب ملا
’’نہیں، سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ وہ پھر سے کھڑے ہوئے مگر پھر سے
بیہوش ہو گئے۔جب ہوش آیا تو پھر اپنا سوال دہرایا ’’کیا لوگوں نے نماز پڑھ
لی؟‘‘جواب دیا گیا’’نہیں سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ اور بخار کی تیزی
سے وہ پھر بیہوش ہوچکے تھے۔ بخار بھی اتنا شدت والا کہ اس کی حدت اتنی جتنا
کہ جلتا کوئلہ۔
اب کہ جب ہوش آیا تو دو ساتھیوں کو بلایا اور ان کے کندھوں پر خود کو گرا
کر، گھسٹتے ہوئے نماز کے لیے گئے۔ اسی لیے جاتے جاتے آخری الفاظ تھے ’’نماز
اور عورتیں‘‘۔ یہ سوال تھا میرے پاک نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی (صلی اﷲ
و علیہ وسلم) کا اور جواب دینے والی میری پیاری اماں عائشہ(رضی اللٰہ و
تعالیٰ عنہ) تھیں۔ کندھے پر سہارا دینے والے دو صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
تھے۔ واﷲ ہم حق ادا نہیں کر سکے۔ کسی ایک چیز کا بھی، نمازیں ہم میں سے کسی
کی بھی درست نہیں، سوائے اس کے کہ الا ماشاء اﷲ اور عورتوں کو ہم نے کیا
دیا اور ان سے کیا لیا یہ بتانا شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔ اس معاشرے اور
مردوں نے عورتوں کے ساتھ جو کیا سو کیا لیکن عورتوں نے خود اپنے ساتھ کیا
کیا؟
کس افراتفری میں نماز کی ادائیگی ہوتی ہے، دنیا جہان کی ہر بات کی فکر
دورانِ نماز لاحق ہوتی ہے۔ ہم آج تک اپنی نماز کو درست نہیں کر سکے حالانکہ
اس کا تعلق براہِ راست ہماری اپنی ذات سے ہے۔ دیگر اوقات میں اگر ارادہ
کریں بھی مگر جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہی سارے ارادے دھواں بن کر اْڑ جاتے
ہیں اور ہم روتے ہیں مردوں کے رویے کو؟ یہاں تک کہ عورتیں کھڑی ہو جاتی
شوہروں کی تربیت کرنے کے لیے حالانکہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ باپ اور
بھائی کو تو کسی حد تک سمجھایا جا سکتا ہے لیکن شوہر کے ساتھ تو بہت غیر
محسوس طریقے سے بلا واسطہ سکھانے کا رویہ رکھنا پڑتا ہے۔ وہ بھی ضروری نہیں
کہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ شوہر کے ساتھ اصل معاملہ دعا کا ہوتا ہے بس یہی ایک
واحد ہتھیار ہے جس سے گھروں میں سکون رہتا ہے ورنہ عورتیں اپنے شوہروں کے
خلاف کمر کَس لیتی ہیں اور گھر میدانِ جنگ بن جاتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو مشکل ایک دفعہ آ جائے اس سے کوئی فرار ممکن
نہیں، جب تک کہ اﷲ سبحان و تعالیٰ نہ چاہیں، شوہر کے لیے دعا کریں لیکن
وہیں پر بیٹے کی صحیح تربیت کریں۔ ایک گھر میں سنت رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم)
کی بنیادوں پر اگر اولاد کی تربیت ہوگی تو ان شاء اﷲ رحمت و برکت پورے گھر
پر نازل ہوگی، نہیں تو آپ کے کنبے پر نازل ہوگی، اور کچھ نہیں تو کم از کم
اللٰہ تعالیٰ آپ کی محنت اور سچی لگن تو ضرور دیکھیں گے۔ تو کبھی نا کبھی
اور کسی نہ کسی صورت میں اجر ضرور ملے گا۔
آج ہم روتے ہیں کافروں کے بنائے ہوئے گستاخانہ خاکوں کو، دشمنوں نے ایسی
سازش رچی کہ ہر کس و ناقص کو ہمارے عظیم دین اور عظیم رسول کے بارے میں
اپنی بولیاں بولنے کا موقع مل گیا۔ مانا اس حرکت کی سنگینی اپنی جگہ اور
ناموس رسالت کی پاسداری اپنی جگہ۔رسول خاتم النبین حضرت محمد (صلی اﷲ علیہ
وسلم) پر میری جان، مال، اولاد، ماں باپ سب قربان لیکن کیا بس یہی ایک غلط
کام اور گستاخی جو کسی اور نے کی اْن کی ذات کی شان کے خلاف ہے؟ اور وہ
تمام گستاخیاں جو ہم بذات خود صبح و شام کرتے ہیں اْس کا کیا جواز ہے؟
ٹی۔وی یا سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا، جب اکھٹے ہوں تو بے مقصد باتیں
کرنا، کھانوں میں غیبت اور چغلی کا تڑکا لگانا، اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے پر
طنز کرنا، ہنستے ملتے جلتے مگر دل میں بدگمانی پالنا، پردے، حجاب، داڑھی کو
کھیل سمجھنا، حقوق اﷲ و حقوق العباد سے غیر سنجیدگی برتنا، پانچ وقت کی
نماز کی پابندی تو دل و جان سے کرنا لیکن کوئی نئی فلم، ڈرامہ یا سیزن بھی
ضرور دیکھنا، بات بات پر بڑوں، بزرگوں اور والدین سے الجھنا، اپنی
پریشانیوں کا غبار چھوٹوں پر نکالنا۔ اور بھی بہت کچھ ہے صفحے ختم ہو جائیں
لیکن ہماری کوتاہیاں نہیں۔
و اﷲ ہم ابھی بھی رک سکتے ہیں، پلٹ سکتے ہیں کیونکہ توبہ کا دروازہ ابھی
بند نہیں ہوا۔ آخری سانس تک یہ در کھلا ہے۔ جلدی کریں ابھی اس جسم میں جان
ہے کہیں دیر نہ ہو جائے۔ کون روزِ قیامت اس عظیم شفاعت سے محروم ہونا چاہے
گا؟ایسا گستاخ ہے کوئی؟ جو تمام عمر اس درجے کی گستاخی کرتا رہے اور امید
رکھے کہ روزمحشر آپ (صلی اﷲ و علیہ وسلم) کے مبارک ہاتھوں سے جامِ کوثر نوش
کرے۔ ارے بڑے بڑے لوگ ہوں گے اس دن جو بازی لے جائیں گے اور ہم دیکھتے رہ
جائیں گے۔
یاد رکھیں عورت اگر دین سے فیضیاب ہوگی تو وہ اپنی نسلیں سنوار سکتی ہے۔
مانا بہت مشکل ہے، لیکن نا ممکن تو نہیں ہے نا۔ گھریلو حالات بدلیں گے کوشش
تو کریں، صدقِ دل سے دعا تو کریں اور کچھ نہیں تو یَومْ الدِین حجت تو تمام
کر سکیں گے کہ ہم نے اپنی سی کوشش کی تھی۔ جیسے وہ فاختہ جس نے اپنی چونچ
میں پانی بھر کر حضرت ابراہیم کے لیے جلائے گئے الاؤ کو بجھانے کی کوشش کی
تھی اگر یہ سوچ کر بیٹھ جاتی کہ اتنے سے پانی سے کیا ہوگا اور آتشِ نمرود
کو بجھانے کی کوشش نہ کرتی تو روزِقیامت اسے کیا فائدہ ہوتا؟ بات تو نیت
اور کوشش کے درجے کی ہے، مقدار کی نہیں۔
خدارا میری اس سوچ کو یہ نہ سمجھا جائے کہ ہمیں فرانس اور ایسے ممالک کی
مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ کرنا چاہیے بالکل کرنا چاہیے بلکہ اور
بھی بہت کچھ کرنا چاہیے۔ میں تو اپنی کمسن و ناقص رائے میں یہ کہنا چاہتی
ہوں کہ انفرادی طور پر اور بحیثیت امت بھی ہمارا تو روز و شب رسول پاک (
صلی اللٰہ علیہ وسلم) کی حرمت کی پاسداری کے لیے سرکردہ عمل ہونا چاہیے۔
|