امریکہ کو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب ترین
ملک سمجھا جاتا ہے۔ چار سال قبل وہاں کے جمہوری نظام نے بڑے ارمانوں سے
اپنے سربراہ منتخب کیا اور پھر جو کچھ ہوا اسےدیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی۔
آخر ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی مختلف تو جیہات ہیں لیکن قرآنی حکیم کی روشنی
میں معلوم ہوتا ہے: "بےشکانسانبڑاظالمناشکراہے"۔ عام آدمی کا یہ وصف چھپا
رہتا ہے لیکن جو صاحب اقتدار ذرائع ابلاغ کا مرکز ہو اور اس کی حرکات
وسکنات کیمرے کے توسط سے عوام تک پہنچنے لگیں تو دنیا کو پتہ چل جاتا ہے کہ
:"بےشکانسانکھلمکھلاناشکراہے"۔ یعنی وہ اپنے ظلم و جبر پر شرمسار ہونے کے
بجائےالٹاببانگ دہل مخالفین کا تمسخر اڑاکر ان کی تضحیک کیے چلا جاتا ہے۔
یہ کمزوری ا ٓگے چل کراس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ ارشادِ قرآنی
ہے: "انسان ہلاک ہو وہ کتنا ناشکرا ہے"۔ ظلم و ناشکری کی بنیادی وجہ اس کے
اندر پایا جانے والاکبرو غرورہے۔ تکبر کے سبب انسان اپنی حقیقت سے غافل
ہوجاتا ہے جبکہ ارشادِ حق ہے:’’"انسان (حقیر) نطفے سے پیدا کیا گیا، پھر
یکایک وہ جھگڑالو بن بیٹھا"۔
قرآن حکیم میں توجہ دہانی کے لیے سوال کیا گیا ہے:"اے انسان! تیرے شفیق
ربسے کس چیز نے تجھے فریب میں رکھا ہے، جس نے تجھے پیدا کیااور درست اور
مناسب بنایا ۔جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دی اور ڈھالا"۔ اللہ تبارک و
تعالیٰ نے انسانی ناشکری کی وجہ یہ بتائی کہ :"یہ اس لئے ہوا کہ تم نے اللہ
کی آیتوں کو مذاق بنالیا اور تمہیں حیاتِ دنیا نے مبتلائے فریب کردیا"۔
اللہ سے غافلانسان کو آگاہ کیا گیا کہ:"دنیا کی زندگی صرف دھوکے کا سامان
ہے" فریب ِ دنیا میں مبتلا ابن آدم کو خبردار کیاجاتا رہا کہ :"تمہیں حیاتِ
دنیا فریب میں نہ ڈال دے اور تمہیں شیطان اللہ سے دھوکہ نہ دے دے"۔ خود
فریبی کا شکار ہوکرخسارہ اٹھانے والے لوگوں کی بابت خالق کائنات فرماتا ہے
:"لیکن تم نے خود کو فتنے میں ڈال دیا اور انتظار کیا اور تمہیں جھوٹی
آرزوؤں نے فریب خوردہ بنا دیا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور شیطان نے
تمہیں اللہ کے بارے میں فریب میں ڈال دیا"۔
یہ تو تھی ماضی کی صورتحال لیکن فی الحال عزت و وقار کے ساتھ قصر ابیض سے
نکلنے کے بجائے عدالت سے رجوع کرنے کی وجہ قرآن عظیم میں یہ ہے کہ : "جب
ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ
نااُمید، ناشکرا ہوجاتاہے اور جب ہم اسے پریشانی کے بعد نعمت چکھاتے ہیں تو
وہ ضرور کہتا ہے کہ میری پریشانیوں دور ہوگئیں اور اِترانے اور فخر کرنے
لگتا ہے" ۔ ایسے شخص کو اپنی غلطی کا احساس اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ :"اور
جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹے، بیٹھے اور کھڑے (ہر حالت میں) ہم کو
پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے
ہمیں کسی تکلیف میں پکارا ہی نہ ہو، ایسے ہی اِسراف پسندوں کے عمل ان کے
لئے خوشنما بنا دیئے جاتے ہیں"۔خود پسند آدمی کی ناکامی کا انجام یہ بتایا
گیا ہے کہ:’’"اور جب اسے پریشانی ہو تو مایوس ہوجاتا ہے" یہی بات تفصیل کے
ساتھ اس طرح فرمائی گئی :"اور ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں تو اس
کی وجہ سے اِترانے لگتا ہے اور اگر اپنے کرتوت کی وجہ سے اسے ذرا سی تکلیف
پہنچتی ہے تو یکایک نااُمید ہوجاتا ہے" فی الحال اس کیفیت میںمبتلا امریکی
صدر بھول چکا ہے کہ :"جو بھی مصیبت زمین یا تمہارے اوپر سے آتی ہے وہ زمین
کے پیدا ہونے سے پہلے ایک کتاب میں محفوظ ہے بے شک یہ اللہ پر آسان ہے تاکہ
تم سے جو چیز چھن جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جو (چیز) تمہیں دے اس پر
اتراؤ نہیں اور اللہ خود پسند مغرور کو قطعا ً پسند نہیں فرماتے"۔ اس حقیقت
کے منکر لوگ پہلے حزن و ملال کا شکار ہوتے ہیں پھر ذلیل رسوا بھی ہوجاتے
ہیں۔اس مشاہدہ ہورہا ہے۔
|