روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا

روم کا ظالم و سنگدل بادشاہ گہری سوچ میں گم تھا۔دربار میں اس قدر سناٹاچھایا تھاکہ سوئی گرنے پر بھی گونج سنائی دیتی۔درباری اس خوف میں مبتلا تھے کہ نجانے اب کونسی آفت آنے والی ہے۔کیونکہ جب بھی حاکم روم سوچ کی وادیوں میں گم ہوتا اس کے بعد ضرور کوئی انسانیت سے عاری ‘ظلم کا کھیل اہل روم کا مقدر بن جاتا۔

یکایک محل میں گرج دار و بے رحم آواز گونجی ”میں روم کو تعمیر کرواﺅں گا۔کیا؟درباریوںششدہ رہ گئے؟
ایک درباری نے جسارت کر کے پوچھا”جناب عالی روم تو پہلے ہی فن تعمیر کا شاہکار ہے جس پر دنیا رشک کرتی ہے‘مزید تعمیر کا کیامطلب؟

”مزید تعمیر نہیں ‘اس کو تہس نہس کر کے روم کو از سر نو تعمیر کرواﺅں گا“بادشاہ نے اپنی بات واضح کرتے ہوئے جواب دیا

ایک دربان نے سرگوشی کی ”عوام کہاں جائے گی“۔الغرض تمام مصاحبوں نے بادشاہ کو اس خونی کھیل سے روکنے کی ازحد سعی کی۔لیکن بادشاہ اپنی ضد پر قائم رہا۔اور درباریوں کو دھمکاتے ہوئے کہا”اگر کسی نے اس بات کی مخالفت کی تو اسے بغاوت تصور کیا جائےگا“۔

اس کے بعد بادشاہ نے اپنی خصوصی آرمی کو ہدایت کی کہ شب کی تاریکی میں روم کے گلی کوچوں میں آگ لگا دی جائے ۔تاکہ روم جل کر خاکستر ہو جائے۔

بادشاہ کے حکم کی من وعن تعمیل کی گئی ۔آگ لگنے کے بعد چند ہی لمحات میں عوام بدحواس ہوگئی۔لوگ عمر بھر کا سرمایہ بھلا کر اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کی سعی ناکام کرنے لگے۔ہر سو نفسانفسی کا عالم چھاگیا۔آہ و بکااور چیخ و پکار نے روم کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔شاید اس سے بڑی خونی رات اہل روم نے نہ دیکھی ہوگی۔کسی کا باپ ‘کسی کا بیٹا‘کسی کاسہاگ‘کسی کی بہن اور کسی کے معصوم بچے آگ کی نذر ہوگئے۔اپنی آنکھوں کے سامنے اپنوں کو تڑپتے اور جلتے دیکھا گیااور لوگ فریاد کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ہر آشیاں لٹ گیا‘ہر بستی برباد ہوئی۔ادھر روم میں قیامت صغری بپا تھی اور ادھر محل میں تاریکی کا راج تھا۔محل کے تمام دروازے کھول دیئے گئے تھے۔تاکہ بادشاہ روم کی بربادی اور لوگوں کی اذیت سے لطف اندوز ہوسکے۔منظر کے لطف کو دوبالا کرنے کیلئے محفل موسیقی بھی سجی ہوئی تھی ۔اور بادشاہ خود بانسری بجارہاتھا۔

آگ جب محل تلک پہنچی تو بادشاہ خفیہ راستے سے فرار ہوگیا۔اور روم جل کر راکھ ہوگیا۔

روم کی تباہی کے بعد بادشاہ نے از سر نو تعمیر کے لیئے خزانہ پانی کی مانند بہایا۔لیکن اب باقی ماندہ رعایا بپھر چکی تھی ۔اس میں مزید ظلمت سہنے کی سکت نہ تھی۔
ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتے ہیں

عوام نے علم بغاوت بلند کیا۔بادشاہ کو یونان میں بغاوت کی شنید ملی تو وہ روم واپس آیااور عوام کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی۔لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔عوام نے محل کا محاصرہ کر لیا۔بادشاہ بمشکل جان بچا کر اپنے غلام کے ساتھ اس کے گاﺅں جاپہنچا۔مگر باغی وہاں بھی پہنچ گئے اور مکان کا گھیراﺅ کرلیا۔موت سر پر منڈلاتی دیکھ کر بادشاہ کے اوسان خطاء ہوگئے۔محض اپنی اذیت پسند فطرت کی تسکین کی خاطر بادشاہ نے ”میکسم تھیڑ“کی بنیاد بھی رکھی۔ جہاںفقط کرب ناک مناظر سے تسکین حاصل کرنے کے جذبے کے تحت روزانہ کئی انسانوں کو زندہ ذبح کیا جاتا تھا۔ ظلم و بربریریت کے ذریعے تسکین پانے والایہ انسان نما بشر خود کشی پر مجبور ہوگیا۔لیکن انسانوں کے جسموں کو اذیت پہنچا کر کیف حاصل کرنے والا جب خنجر اپنی گردن کے قریب لے گیا تو ہاتھ کانپنے لگ گئے۔جان دینا دشوار ہوگیا۔

بالاآخر بادشاہ کا وفادار غلام آگے بڑھا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے حاکم کی گردن میں خنجر پیوست کر دیا۔اس بادشاہ کا نام نیرو تھا۔مشہور انگریزی مقولہ ”روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجارہاتھا“اسی واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔نیرو تو مرگیالیکن اس کے گدی نشین آج بھی دنیا میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔

(عراق‘فلسطین‘بوسنیا‘افغانستان ‘چیچنیا‘کشمیر‘یہ سب نیرو ہی کی تسکین کی خاطر اجاڑے گئے ہیں)۔ موجودہ حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اگر خود کش دھماکوں‘ٹارگٹ کلنگ‘اغوا برائے تاوان‘ غربت ‘مہنگائی‘صوبوں کے غصب شدہ حقوق‘ملک کے طول و اطراف میں خود سوزیوں اور 2011کے عوام دوست بجٹ کے بعد اگر عوام بچ گئی تو پھر تما م بانسریوں کے سر ادھورے رہ جائیں گے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174792 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.