یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے استاد نما ریسرچر کے لئے
ایک بڑی خوشخبری ہے کہ صدر پاکستان جناب عارف علوی نے کمیٹی برائے انسداد
منشیات اور بہبود طلباکے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو
ہدایت کی کہ وہ مارچ 2021 تک ملکی جامعات میں منشیات کی روک تھام کے لئے
پالیسی مرتب کرے۔اجلاس میں وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود، وزیر انسداد
منشیات جناب اعظم سواتی، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری صاحبہ، چیرمین ایچ
ای سی، مختلف وزارتوں کے حکام اور بذریعہ وڈیو لنک مختلف یونیورسٹیوں کے
وائس چانسلر حضرات نے شرکت کی صدر مملکت نے کہا کہ طلبا کو منشیات کی لعنت
سے بچایا جائے اور انہیں صحت مند ماحول مہیا کیا جائے۔ صدر مملکت کے اس
ارشاد کے بعد اس پر فوری عمل کی ضرورت ہو گی اور اس اہم کام کو کسی کلرک یا
چھوٹے موٹے آفیسر پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ یہ آئندہ آنے والی نسلوں
کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ اس لئے اس انتہائی اہم کام کے لئے کسی سینئر کی
ضرورت ہو گی۔ گو آج کے دور میں ہمارے ادارے نسلوں کو بگاڑنے کے علاوہ کچھ
نہیں کرتے اوربگاڑ تو سینئر نے بھی پیدا کرنا ہے لیکن سینئر کے ہاتھوں تباہ
ہونے والی نسل کو یہ گلہ تو نہیں ہو گا کہ کہ انہیں کسی درجہ سوم یا چہارم
کے ملازم نے تباہ کیا ہے۔ بلکہ انہیں فخر ہو گاکہ کسی ڈین یا پرو وائس
چانسلر کے ڈسے ہوئے ہیں۔چنانچہ جب یہ نیا محکمہ وجود میں آئے گا تو ایک
اسامی ڈین کی ایک ڈائریکڑ کی اور چھوٹی چھوٹی کئی اسامیاں وجود میں آئیں
گی، روز گار کے لئے بہت سی اسامیاں پیدا ہوں گی۔ہو سکتا ہے کہ اس اہم کام
کے لئے کسی پرو وائس چانسلر کی خدمات کی ضرورت پڑے۔ لیکن صدر مملکت کے ایک
چھوٹے سے ارشاد سے بہت سوں کا بھلا ہو گا۔
پرو وائس چانسلر سے یاد آیا کہ لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں اس وقت
ایک پرو وائس چانسلر نما موجود ہیں۔ میں ایک دن کسی سلسلے میں اس یونیورسٹی
کے وائس چانسلر صاحب سے ملا۔ دو تین دن بعد اس کام کی پیش رفت کے بارے
پوچھنے دوبارہ گیا تو وی سی صاحب نے میٹنگ میں ہونے کے سبب ایک اور صاحب
کومیرے مسئلے کے حل کے لئے بھیج دیا، میں ان کے انداز سے سمجھا کہ پرائیویٹ
سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ پرو وائس چانسلر ہیں۔
اچھا ہے ملی جلی شخصیت ہو تو آپس میں جھگڑے کے اسباب نہیں بنتے۔ اب تو خیر
ہر شخص ہی جان گیا ہے کہ جھکنے میں ہی رفعت ہے۔نہ جھکنے والا رفعت پا ہی
نہیں سکتا۔ میں نے ایسے ایسے فنکار جھکنے والے دیکھے ہیں کہ جھکتے جھکتے
لیٹ جاتے ہیں مگر محسوس نہیں ہونے دیتے۔اب اس یونیورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ
چار پرو وائس چانسلر مزید رکھے جائیں گے۔ کل پانچ پرو وائس چانسلرجو
انتظامی امور، مالی امور، تعلیمی امور ، طلباامور اور ریسرچ کے امور دیکھیں
گے۔اچھا ہے یہ نظام ڈوب رہا ہے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے جو جتنا فائدہ اٹھا
سکے وہ بہتر ہے۔ تعیناتی کے لئے اب ریس جاری ہے۔ ہر ڈین اور سینئر ریسرچر
سر پر خدمات کا ٹوکرا اور ہاتھ میں وفاداری کا علم اٹھائے در وائس چانسلر
پر سجدہ ریز ہے ، دیکھیں ہما کس کے سر بیٹھتا ہے۔
بیسویں صدی میں چلے جائیں۔ اس دور میں وائس چانسلر بھی عجیب تھے۔ یونیورسٹی
کا سارا بوجھ اکیلے اٹھا لیتے تھے۔ تمام مسائل سے اکیلے نپٹ جاتے تھے۔
استاد بھی بہت اچھے تھے۔ ہر استاد اور ہر طالب علم کی بات بڑے غور سے سنتے
اور اس پر توجہ دیتے تھے۔وہ لوگ اپنی باری اور میرٹ پر تعینات ہوتے تھے۔ آج
ہر چیز ہائی برڈ ہے۔ آج کے ہائی برڈ وائس چانسلر اپنی ذات اور اپنی پسند کو
ہی میرٹ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ ممی ڈیڈی ٹائپ وائس چانسلر ہیں۔ چار پانچ
گھنٹے لگاتار کام ان پر بوجھ ہوتا ہے۔ یہ حوالوں سے آتے اور حوالوں سے جیتے
ہیں۔یہ استاد کم اور ریسرچر زیادہ ہیں اور ریسرچر آج کل خود کو بیوروکریٹ
کے ہم پلہ سمجھتے ہیں۔ بیوروکریٹ کے لہجے میں جو بساند ہوتی ہے اب وہ
ریسرچر کے اندر بھی سماتی جا رہی ہے۔ وہ استاد جس کے لہجے میں گلاب سی مہک
،باتوں میں شیرینی جیسی مٹھاس اور انداز میں ماں جیسی ممتا اور باپ جیسی
شفقت تھی اب نظر نہیں آتے۔ ایک چوکیدار نے مجھے پوچھا کہ سر کچھ گائیڈ کریں
بچی کو داخل کرانا ہے کونسا ڈیپارٹمنٹ بہتر ہے۔ میں نے کہا کہ جہاں تم کام
کر رہے ہواس ڈیپارٹمنٹ میں ہی داخلہ لے دو۔ ہنس دیا اور کہنے لگا کہ بظاہر
یہاں آٹھ دس انتہائی پڑھے لکھے اکیس اور بائیس گریڈ کے پرو فیسر ہیں۔ بڑا
ہنس کے ایک دوسرے کو ملتے ہیں۔ مگر سب ایک دوسرے کے بیری، ٹانگیں کھیےنچنے
میں یکتا اور بچوں کو پڑھانے پر بالکل تیار نہیں، صرف سیاست کرنے کی تنخواہ
لیتے ہیں۔کوئی پڑھانے والا آ بھی جائے تو یہ برداشت نہیں کر پاتے۔ میں یہ
سب دیکھتے اور جانتے اپنی بیٹی کو یہاں کیسے پڑھنے کے لئے لاؤں۔
پڑھانے والے تین طرح کے ہوتے ہیں، ریسرچر، معلم اور استاد۔ ریسرچر اگر کٹ
پیسٹ کی پیداوار نہیں تو اسے کسی بھی سبجیکٹ کے ایک چھوٹے سے حصے پر عبور
ہوتا ہے ۔ وہ ریسرچ کے لئے تو موزوں ہوتا ہے مگر پڑھانے میں دقت محسوس کرتا
ہے ۔ ایک معلم لٹریسی کے حوالے سے کسی حدتک ٹھیک ہے۔وہ مضمون کو جانتا ہے
اور اسے مضمون بچوں تک منتقل کرنا ہوتا ہے۔ اسے اس چیز کی پرواہ نہیں ہوتی
کہ بچہ سمجھنے اور جاننے کو تیار ہے یا نہیں وہ اپنا کام مکمل کرنا ہی کافی
جانتا ہے۔ ایسے لوگ کسی حد تک غنیمت ہیں لیکن یونیورسٹیوں میں بہت کم رہ
گئے ہیں۔ استاد ایک ایسا شخص ہے جو آپ کے اندر علم کی پیاس پیدا کرتا ہے ۔
جو آپ کو بصیرت اور بصارت دیتا ہے ۔ جو آپ کے اندر ایک پیار کی لو جگاتا
ہے۔ جستجو کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ آپ کو علم ہی نہیں ، علم کے زندگی پر اثرات
سے بھی آشنا کرتا ہے۔ وہ سراپا شفقت ہوتا ہے ، انتہائی قابل رسائی ہوتا ہے۔
اس کے الفاظ کی مہک روح تک محسوس کرتی ہے۔ وہ نام ،نمود اور مالی منعفت سے
بے نیاز ہوتا ہے۔ مگر ایسے پاگل لوگ مفقود ہیں یا برداشت سے عاری نئی نسل
نے انہیں یونیورسٹیوں سے دور کر دیا ہے۔
|