ماہِ مقدس کی یہ آخری شب تھی، اگلے روز ربیع الثانی
شروع ہو رہاتھا، کہ حکومت پنجاب نے ہفتہ ’’شانِ رحمتہ اللعالمینﷺ‘‘ منانے
کا اعلان کر دیا۔ربیع الاوّل میں یقینا اُن کی مزید کوئی اہم مصروفیات ہوں
گی، جن کی بنا پر متعلقہ مہینے میں ایسا نہیں کیا جاسکا۔ چلیں دیر آید ،
درست آید۔ ویسے بھی سرکاریں بااختیار ہوتی ہیں، جس کام کو جس وقت مناسب
جانیں، سرانجام دیتی ہیں، ہر کام کا جواز و جواب بھی اُن کے پاس ہوتا ہے۔
اس ضمن میں وہاں سے یہاں تک مراسلہ جاری ہوا ہے کہ’’۔۔۔ شہر کی تمام اہم
عمارات پر چراغاں کردیا جائے، پورا ماحول جگمگ کر اٹھے، سیمینار منعقد کئے
جائیں، اندرون اور بیرون ملک سے پائے کے دانشور اور مشائخ مدعو کئے جائیں،
محافلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا جائے،جن میں جید شعرا کو بلایا جائے، تحصیل کی
سطح سے لے کر صوبے کی منزل تک تقریری مقابلے کروائے جائیں، خطاطی کے
مقابلوں کا اہتمام کیا جائے، دستاویزی فلموں کا بندوبست ہونا چاہیے، نعت
خوانی کے مقابلے ہوں، محافلِ سماع برپا کی جائیں۔ تمام مقدس تقریبات و
معاملات پر اسناد تقسیم کی جائیں، نقد انعامات سے نوازا جائے۔۔‘‘ آپ اپنے
شہر میں شام کو گھر سے باہر نکلیں تو واقعی پورا ماحول جگمگ کرتا دکھائی دے
گا، کیونکہ ربیع الاول میں تو سرکار کا روایتی حکم تھا، اور لوگوں نے بھی
اپنی مرضی یا بساط کے مطابق چراغاں کیا تھا، یا محافل منعقد ہوئی تھیں، مگر
اب ہر شہر کی مقامی انتظامیہ کی کارکردگی کا معاملہ ہے، انہوں نے اپنی رِٹ
قائم کرنے کے لئے ہر صورت اپنے احکامات پر عمل درآمد کروانا ہوتا ہے۔
آقائے دوجہاں، ختم الرُسلﷺ کی شان مہ وسال کی قید سے آزاد ہے، گویا یہ نغمہ
گُل و لالہ کا نہیں پابند۔ہر موسم یاد منانے کا موسم ہے اور ہر مہینہ یاد
کرنے کا مہینہ ہے،چہ جائیکہ ایک ہفتہ منا کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو
جایا جائے، اور اپنے تئیں اطمینان کر لیا جائے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا۔
’’ہفتہ‘‘ منایا جانے کے عمل پر تنقید مناسب نہیں، مگر غور کرنے کے اور بھی
بہت سے پہلو ہیں، کہ اظہار محبت کے ہزاروں طریقے ہیں۔ مندرجہ بالا اعمال
وافعال اور مصروفیات سرآنکھوں پر، مگر کیا پورے ہفتے میں کسی موقع یا مقام
پر ’’عمل‘‘ کا تذکرہ بھی ہے؟ کیا بزدار سردار کی پنجاب کی سرداری میں یہ
حکم بھی دیا گیا ہے کہ اس ایک ہفتہ میں اپنے گھر، گلی ، کام کی جگہ صفائی
کا خاص خیال رکھنا ہے؟ کہ سرورِ کائناتﷺ کے فرمان کے مطابق یہ عمل نصف
ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ صوبائی حکومت نے یہ ارشاد بھی کیا ہے کہ مذکورہ
ہفتہ میں ہرکسی نے جھوٹ سے مکمل اجتناب کرنا ہے؟ یا وعدہ خلافی سے بچناہے؟
یا ہفتہ بھر وقت کی مکمل پابندی کرنا ہے؟ ایک ہفتہ دوسروں سے خوش اخلاقی سے
پیش آنا ہے؟ دوسروں کو بُرے نام سے نہیں پکارنا ؟ اپنے ہاتھ اور زبان سے
دوسروں کو تکلیف نہیں دینی؟ غیبت کرکے اپنے مردہ بھائی کا گوشت نہیں کھانا؟
حیا کا دامن تھامے رکھنا ہے؟ دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض کا خیال رکھنا
ہے؟ کیا یہ تمام اور ان جیسے اور بھی ہزاروں ارشاداتِ نبویﷺ موجود نہیں ہیں،
جن پر عمل ہونا چاہیے؟
کیا اِس ہفتے روالپنڈی سے راجن پور تک تمام افسران خوش اخلاقی اور فرض
شناسی سے کام کریں گے؟ کیا سائل دفاتر میں خواری اور ذلالت سے محفوظ رہیں
گے؟ کیا تمام دفاتر میں ایک ہفتہ کے لئے رشوت ستانی کو موخر کر دیا جائے گا؟
کیا سائلوں کو افسروں اور عملے کے ہاتھوں تکریمِ انسانی نصیب ہو سکے گی؟
کیا پولیس والے ایک ہفتے کے لئے تھانے آنے والوں پر غلط دباؤ ڈال کر رشوت
وصول نہیں کریں گے؟ کیا مظلوموں کی داد رسی ہو سکے گی؟ کیا ایک ہفتہ چھوٹی
بڑی عدالتوں سے عوام کو انصاف مہیا ہوگا؟ کیا تاجر ایک ہفتہ ذخیرہ اندوزی
اور ناجائز منافع خوری کو ملتوی کر دیں گے؟ کیا ہفتہ بھر پورے صوبے کے عوام
قانون پر عمل درآمد کرنے لگیں گے؟ کیا فضول خرچی اور نمود ونمائش ایک ہفتہ
کے لئے ختم کر دی جائے گی؟ کیا مساجد کی رونقیں بڑھ جائیں گی؟ کیا علماء
ایک دوسرے کے خلاف تفرقہ بازی اور نفرت کم کردیں گے؟ کیا حزب ہائے اقتدارو
اختلاف الزام تراشی اور گالم گلوچ قسم کی گفتگو کو ایک ہفتہ کے لئے خیر باد
کہہ دیں گے؟ کیا ایک ہفتہ کے لئے حکمران سادگی اپناتے ہوئے قومی خزانے کو
امانت تصور کریں گے؟ مندرجہ بالا تمام اور انہی جیسے اور بے شمار سوالات
جواب طلب ہیں، مگر جواب دینے والا کوئی نہیں۔
حکومت پنجاب کی طرف سے منایا جانے والا یہ ہفتہ چراغاں، تقریروں، سیمیناروں،
قوالیوں، نعت خوانیوں ، دستاویزی فلموں اور خطاطی وغیرہ کے ذریعے ’’شانِ
رحمتہ اللعالمینﷺ‘‘کو اجاگر کرے گا۔ یقینا یہ سب کچھ بہت سعادت اور خوش
بختی کی علامت ہے، مگر کیا عمل کے بغیر ہم منزلِ مقصود پا سکتے ہیں اور
اپنے آخری نبیﷺ کو راضی کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی بھی انسان کسی کی بات مانے
بغیر اُس سے محبت کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ یقینا ہر گز نہیں۔ توہم حوضِ کوثر
کے ساقی اور شافعﷺر وزِ جزا کے فرمودات پر عمل کئے بغیر صرف باتوں سے کس
طرح محبت کے دعویدار بن سکتے ہیں؟ کاش ہمارے بزدار سردار اور اُن کے سرکاری
مشیر مندرجہ بالا تمام سرگرمیوں کے ساتھ کچھ افعال پر عمل کی سرکاری تلقین
بھی کر دیتے۔کاش!!
|