عالمی یوم اطفال

 بچے قوم کا روشن مستقبل ہیں، بچوں کے حقوق کا تحفظ، بچوں کی فلاح و بہبود، بہترین تعلیم و تربیت کسی بھی قوم کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ نے20 نومبر کا دن بچوں کے عالمی دن کے طور پر نامزد کیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے بچوں کو درپیش مسائل کا سدباب اور تمام بچوں کی فلاح و بہبود میں بہتری لانا ہے تاکہ بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ اس دن سکول اور تعلیمی ادارے بچوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے خصوصی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، اور اساتذہ اپنے شاگردوں میں تحریک پیدا کرتے ہیں کہ وہ سوچیں کہ ان میں اور دنیا کے دوسرے بچوں میں کیا فرق ہے، اور وہ کس طرح خود کو تعلیمی و سماجی لحاظ سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ جبکہ والدین میں بچوں کی بہترین تربیت و پرورش کے لئے شعور بیدار کیا جاتا ہے کہ وہ ابتدائی عمر میں بچوں کوزیادہ سے زیادہ کھیل وسیر وتفریح کے مواقع فراہم کریں تاکہ ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما میں اضافہ ہو۔ اس دن بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام بھی سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھی بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام ہورہا ہے یا یہاں یہ سلسلہ صرف نعروں ،دعوؤں اور تقریروں تک ہی محدود ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں زیر تعلیم بچوں سے مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا جاتا کیا ہمارے ہاں بھی یہی صورت حال ہے؟ کیا ہم بچوں کو ان کی صحت اور تفریح کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں؟ کیا ہم چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر بچے کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں اوراس وقت تک لیتے رہیں گے جب تک ان کو بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں۔ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں ، بچے پھول کی مانند ہیں ان سے محبت سے پیش آناچاہیے، لیکن حقیقتاًکیا ہم اس قیمتی سرمائے کی قدر وقیمت سے واقف ہیں؟ اور ان کے بنیادی حقوق پور ے کر رہے ہیں؟ کیا ہم گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور اور مظلوم بچوں سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ جبکہ بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرناوالدین کا کام ہے ،جبکہ پڑھائی میں دلچسپی اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے،یہ اسی صورت ممکن ہے جب اساتذہ کرام بچوں پر خاص شفقت فرمائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کی ترقی اوربچوں کے حقوق کاقریبی تعلق ہے ایک تعلیم یافتہ اورمعاشی طور پربااختیار خاتون اپنے گھر، خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشرتی ومعاشی ترقی کے لئے بہتر طور پر کام کر سکتی ہے۔ عقل مند والدین اپنی اولاد کی تربیت پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں حسن خوبی اور سلیقہ سے پیارو محبت سے تربیت کرتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ بچوں کی حرکات و سکنات اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ان کا پسندیدہ مضمون کیا ہے؟ پسندیدہ کھیل کون سا ہے؟ فارغ وقت میں بچہ کیا کرتا ہے؟ والدین کے ساتھ اس کا تعلق کیسا ہے؟ بہترین تربیت کے حوالے سے بچے کی عمر کے لحاظ سے والدین کو باہم مشاورت ضرور کرنی چاہیے۔ بچوں کے تحفظ کے لئے گھروں اور معاشرتی ماحول کوبہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی نئی نسل کے روشن مستقبل کیلئے کام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے،ہمیں اپنے ملک میں بچوں کو وہ تمام بنیادی حقوق مہیا کرنے ہوں گے جن سے وہ محروم ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں، اور اکثر بچے اس لئے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے کہ سکولوں میں مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیاجاتا ہے گو کہ اس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن دیہی علاقوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ سزا بچوں میں اصلاح پیدا نہیں کرتی بلکہ پڑھائی سے بیزار کرتی ہے۔ بچپن سے ہی اگر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یقینا ان کا مستقبل روشن ہوگا اور اگر بچپن ہی سے مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جائے تو بچوں کی نہ صرف ذہنی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی بھی جاتی رہتی ہے۔جبکہ پاکستان میں اس وقت گھروں، چھوٹی فیکٹریوں، ہوٹلوں،کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دوسرے کاروباری مراکز میں بڑی تعداد میں بچوں سے مشقت لی جارہی ہے ،جہاں انہیں نہ صرف نہایت گندے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے بلکہ ان پر بے پناہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ ان بچوں کو بہت ہی کم اجرت دی جاتی ہے۔ جس عمر میں بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں کتابوں کی جگہ مختلف قسم کے اوزار ہیں جو کہ ان پھول جیسے بچوں کیساتھ سرا سرظلم ہے۔ معصوم بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کرنا اور چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف موثر کاروائی عمل میں لانا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔
 

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817349 views Journalist and Columnist.. View More