توہمات اور عورت

’’وہ تو ہے ہی منحوس ماری‘‘ یہ وہ جملہ ہے جو اکثر ہمیں عورتوں کے حوالے سے سننے کو ملتا ہے اس سے ملتے جلتے توہم پرستی سے بھرے جملے اکثر ہمارے گھروں میں بھی سننے کو ملتے ہیں زندگی کے اس خرابے میں لوگ خود کو کس طرح پامال کرتے ہیں اس کی ایک جھلک خود ہماری زندگی ہے اپنے گھروں میں اپنی ہی عورتوں کا وجودمنحوس سمجھا جاتا ہے، اور نحوست کے متعلق طرح طرح کی باتیں ہم نے پال رکھی ہیں جن کا تعلق عورت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ کوا منڈیر پر کیوں بولا، شیشے کا گلاس کیوں ٹوٹا، بلی نے راستہ کیوں کاٹا، غصے سے کیوں پکارا، ایسی ہی بے سروپا باتوں سے ہم نے عورت کو بے توقیر کر دیا ہے اور اپنی زندگی کو دشوار بنا لیا ہے ناچاہ کر بھی اس فنون باطل کے اسیر بنتے جا رہے ہیں۔ آپ نے روزمرہ زندگی میں ایسے جملے اکثر سنے ہوں گے جو ہماری خواتین کی ہی زبان سے ایک عورت کی تذلیل کا نشانہ ہوتے ہیں۔ بہت سے مرد عورتوں کو منحوس کہتے ہیں اور خواتین تو الا ماشاء اﷲ کوئی ایسی ہو گی جونحوست پر یقین نہ رکھتی ہو ۔ایک عورت ہی کیا خاندان کے خاندان توہمات کے شکار ہیں، ان توہمات کی وجہ سے عورت کی تذلیل کے ایسے واقعات منصۂ شہود پر آ چکے ہیں کہ شیطان بھی انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پے شادیانے بجاتا ہو گا کہ جو کام میرا تھا وہ تو اب حضرت انسان خود ہی سرانجام دیتا ہے کہتے ہیں کہ ہندوستان توہمات کی آماجگاہ ہے ان کا تو دھرم ہی توہمات اور رسومات پر قائم ہے مگر ان کی دیکھا دیکھی ہم مسلمان بھی اب اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے ۔

کچھ عرصہ ہوا بھارت کے مغربی بنگال کے ایک گاؤں میں چار سالہ بچی کی کتے کے ساتھ شادی کر دی گئی انجو نامی یہ بچی زرعی یونیورسٹی کے ایک ملازم سبھال کرمکار کی بیٹی تھی اور گاؤں موہن پور کی رہائشی تھی۔ عورت اور نحوست کی صدیوں پرانی توہماتی سوچ یونیورسٹی کے پڑھے لکھے والد کو بھی نہ بدل سکی ۔ بچی کی بیماری کو نحوست کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس کا جو علاج ہوا اس میں بھی عورت کی تذلیل ہی کی گئی۔ پنڈت نے کہا بچی پر بدروح قابض ہے اس کا علاج کتے سے شادی ہے یوں شادی طے کر دی گئی شادی کے موقع پر ’’دولہا‘‘ کتے کو نیلے اور سفید رنگ کے کپڑے پہنائے گئے اور اس کے ساتھ باراتی بھی خوب سج دھج کر آئے انسانی سوچ پر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ کتے کی شادی میں باراتی انسان تھے جبکہ دلہن سرخ بنارسی ساڑھی میں تھی۔ یہ تقریب مکمل انسانی شادی کا روپ دھارے تھی۔ اس موقع پر بارودی گولے بھی چلائے گئے، لڑکی کے باپ کا کہنا ہے کہ انجو کی کتے کے ساتھ شادی ضروری تھی کیونکہ وہ بدروحوں کے قبضہ میں ہے۔ وہ ابھی بہت چھوٹی تھی کہ اس نے اپنا ایک دانت توڑ لیا دو سال کی عمر میں اس نے بازو کے ساتھ بھی یہی کیا اس کے کچھ عرصہ بعد وہ قریباً ڈوب چلی تھی جبکہ پانچ ماہ پہلے باورچی خانے میں اس کی ٹانگ جل گئی، میرے خاندان کا خیال ہے کہ ان پراسرار واقعات کی وجہ انجو پر بدروحوں کا سایہ ہے، بتایا گیا ہے کہ انجو کے پردادا کے وقت بھی اس خاندان میں اسی قسم کی ایک شادی ہوئی تھی ۔ توہم پرستی کی انتہا کہہ لیجئے کہ ایک انسان اس قدر توہمات کا شکار ہو گیا کہ بیٹی تک کو کتے سے بیاہ دیا گیا مگر ہندو عقیدہ کے مطابق یہ بدروحوں کا علاج ہے کہ عورت کی شادی کتے سے کر دی جائے اس کو افاقہ ہو جاتا ہے توہمات میں گری اس قوم کی عورت ذات سے تذلیل کا دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے۔

بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کی ایک پنچایت نے ایک خاتون کو ہل میں بیل کے ساتھ باندھ کر کھیت جوتنے کی سزا دی ۔ یہ واقعہ ایک گاؤں میں ہوا ناگین گاؤں میں صدیوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مرد کی جگہ کوئی خاتون کھیت جوتنے کے لیے ہل پکڑتی ہے تو پورا گاؤں خشک سالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس علاقے میں اگست کے آخر سے بارش نہیں ہوئی تھی اور وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس خاتون نے انہی دنوں اپنے کھیت میں ہل چلایا تھا، اور اس وجہ سے نحوست نے سب گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے قبائلیوں کے اس علاقے میں بعض افراد نے اس عورت کو اس وقت کھیت جوتتے دیکھا تھا جب وہ اپنے شوہر رام جنک کے ساتھ وہاں کام کر ہی تھیں۔ جب اس واقعہ کی خبر گاؤں کے بزرگوں تک پہنچی تو انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ بارش کے دیوتا ناراض ہو گئے ہیں اور اسی وجہ سے علاقے میں بارش نہیں ہو رہی ہے۔

اس کے بعد علاقے کی برادری پنجایت نے بارش کے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس عورت کو بیل کے ساتھ ہل میں باندھ کر کھیت میں جوتا جائے۔ پوری پنچائت نے عورت کو نحوست کے نام پر جانور کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ بات پولیس تک پہنچی تو پولیس بھی اسی مذہب کے باشندوں پر مشتمل تھی وہ توہم پرستی کے اس واقعے کو روکنے کی بجائے یہ کہتے رہے کہ قانون کے تحت ایسا کوئی راستہ تلاش کیا جائے جس سے علاقے میں پھیلے ہوئے توہم پرستی اور جادوگری کے چلن پر قابو پایا جا سکے۔اس علاقے میں توہم پرستی عام ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ بیشتر خواتین اکثر آسیب کے اثر میں رہتی ہیں۔ انہیں اس نام نہاد بھوت پریت کے اثر سے نکالنے کے لیے طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ کئی بار ان خواتین کو سزا کے طور پر انسانی غلاظت بھی کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کئی بار تو انہیں زندہ بھی جلا دیا جاتا ہے۔

انہی دنوں ایک خبر یہ بھی آئی کہ بھارتی ریاست آندرا پردیش میں ایڈز میں مبتلا ایک خاتون کو انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ طریقے سے ہلاک کر دیا گیا بھارت کے قومی کمیشن برائے خواتین کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ خاتون کو پہلے اس کے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا جس کے بعد اہل علاقہ نے اسے سنگسار کیا اور آخر میں اسے زندہ جلا دیا گیا ۔

عورت ذات کی بے حرمتی تذلیل اور رسوائی کے ایسے واقعات کسی قوم اور مذہب میں نہیں ملتے ہیں جیسے ہندوؤں کی تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔ عورت کاوجود گویا عورت کا نام پر ایک گالی اور بوجھ ہے یہی وجہ ہے کہ اسے ذرا سی بات پر زندہ جلا دیا جاتا ہے۔

یہ اس معاشرے کی عورت کے ساتھ ظلم کی داستانیں ہیں جن کا وجود ہی من گھڑت داستانوں پر مشتمل ہے ان کے مذہب میں توہمات اور بدروحوں چڑیلوں چھلاؤں کے سوا کچھ نہیں ایسے معاشرے اور ممالک میں عورت ذات کے ساتھ بدسلوکی اتنے تعجب کی بات بھی نہیں مگر ایسا کچھ مسلم معاشرے میں ہو اور اسے ملک میں ہو جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے تو افسوس اور حیرانگی بڑھ جاتی ہے۔ اگر صحیح دین اﷲ کی کتاب اور رسولؐ کی سنت کو اپنایا جائے تو پھر اس طرح کے شرمناک واقعات رونما نہیں ہوتے جس طرح بھارت میں ایک مولوی کے فتوی کی وجہ سے مسلمان عورتوں کے ساتھ ہوا اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت میں چڑیل کے شبہ میں پانچ مسلم خواتین کی بے حرمتی کی گئی ۔خبر کی تفصیلات کچھ اس طرح شائع ہوئی ہیں کہ ہندوستان ریاست جھار کھنڈ میں چڑیل ہونے کے شبے میں گاؤں والوں نے پانچ خواتین کو برہنہ کر کے سرعام پریڈ کرائی، ان کی پٹائی کی اور انہیں زبردستی انسانی فضلہ کھانے پر مجبور کیا، پولیس کا کہنا ہے جن خواتین کے ساتھ یہ زیادتی کی گئی وہ مسلم بیوائیں تھیں، جنہیں ایک مقامی مولوی نے چڑیل قرار دیا تھا، یہ واقع ضلع دیو گڑھ کے ایک دور دراز گاؤں میں پیش آیا، پولیس نے اس معاملے میں گیارہ افراد کے خلاف کیس درج کر کے چار کو گرفتار کیا ہے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس مراری لال مینا نے بی بی سی کو بتایا کہ ان خواتین کو ایک کھیل کے میدان میں لے جایا گیا جہاں اس شرمناک واقعہ کو دیکھنے کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہوئے اور کوئی مدد کے لیے نہیں آیا ہندوستان میں چڑیل کے شبے میں اس طرح کے واقعات میں سینکڑوں خواتین کو ہلاک کیا جا چکا ہے، ماہرین کے مطابق ایسے بیشتر واقعات بیواؤں کے ساتھ ہوتے ہیں، کیونکہ اس کا مقصد ان کی زمین اور مال و دولت پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان میں یہ فرق اس وقت مٹ گیا جب چڑیل ہی کے نام پر پاکستان میں بھی عورت کے ساتھ ہندوستان جیسا واقعہ رونما ہوا پاکستان کے شہر ساہیوال کے نواحی گاؤں میں باپ نے آسیب زدہ ہونے کے شبہ میں نوجوان بیٹی کو ٹوکہ سے زخمی کر کے اسے زندہ جلا دیا پولیس نے قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہسپتال پہنچا دیا۔ چک 1/10.L ہڑپہ کے رہائشی محمد جمال آرائیں نے جمعرات کی علی الصبح اپنی 17 سالہ بیٹی شگفتہ عرف ثریا کو ٹوکہ سے زخمی کر کے زمین پر گرا دیا اور مکان میں پڑی ہوئی لکڑیاں اوپر ڈال کر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی جس سے مقتولہ زندہ جل کر راکھ ہو گئی، مقتولہ کی چیخیں گاؤں والوں نے بھی سنیں مگر کسی صنے توجہ نہ دی ملزم کو اپنی بیٹی کے آسیب زدہ ہونے کا شبہ تھا، ملزم جمال آرائیں نے گرفتاری کے بعد بتایا کہ اس کی بیٹی شگفتہ کے اندر ایک خوفناک چڑیل رہتی تھی وہ معمول کے مطابق صبح کے وقت اٹھا تو شگفتہ نے اسے دبوچ کر قتل کرنا چاہا اس نے یہ بھی کہا کہ تمہیں قتل کر کے دونوں بھائیوں محمد شریف اور اشرف کو بھی قتل کر دوں گی جس پر ہم نے اسے مضروب کر کے زندہ جلا دیا، ملزم جمال کے مطابق صبح اٹھنے پر شگفتہ نہیں بلکہ چڑیل ہی اس پر حملہ آور ہوئی جسے اس نے ٹھکانے لگا دیا۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو سب سے اعلیٰ مخلوق بنایا ہے اور اس کی راہنمائی کے لیے ہر دور میں آسمان سے صحیفے اور کتابیں نازل کیں بلکہ انبیاء کو پے در پے قوموں کی طرف بھیجا مگر ہر دور میں حضرت انسان نے خدائی دعوت کو ٹھکرا کر کبھی اعلانیہ باپ دادا کے مذہب کی پیروی کی کبھی دین کو قبول کر کے عملاً انکار کیا ہر دور میں رائج جو توہمات و رسومات تھی ان سے انسان چھٹکارا نہ پا سکا اس کا نتیجہ ایسے واقعات کا رونما ہونا ہے جو ایسے دور میں بھی سرزد ہو رہے ہیں۔ عورت صدیوں قبل بھی ایسے ہی توہمات کے نام پر ستم کا شکار تھی اور آج کے تعلیم یافتہ دور میں بھی توہمات کا شکار ہے۔

 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 58902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.