عکس

تحریر: فرزین لہرا
آج بہت دنوں بعد آئینے پر نظر پڑی، ویسے تو روز ہی آئینہ دیکھا کرتی ہوں لیکن آج آئینے میں مانو جیسے خود پر نظر پڑی۔۔ میرا عکس جیسے مجھ سے شکایت کر رہا تھا۔۔ شاکی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔ اپنی تکلیف بیان کرنے لگا کہ کیا حال کردیا ہے تم نے میرا۔۔ میں یہ تو نہیں ڈیزرو کرتا تھا۔۔ مجھے تو آزاد اْڑنا تھا، کسی کا عشق ہونا تھا، کسی کے دِل کا قرار ہونا تھا، کسی کی آنکھ کا محور ہونا تھا، کسی کے لبوں کی مسکان بننا تھا۔۔ کسی کا چین و قرار ہونا تھا۔۔ میرے وجود کو کسی کے لیے بہت ضروری ہونا تھا۔۔ میرا ہونا ہی کسی کے لئے کافی ہونا تھا۔میرا آن لائن نہ ہونا کسی کو تو کھلنا تھا، کسی کو تو مجھے کھوجنا تھا، مجھے تو دریافت ہونا تھا۔۔ کسی کا فخر ہونا تھا کہ دیکھو یہ میری ہے۔۔ یہ کیا کردیا ہے تم نے میرے ساتھ؟ عمر گذرتی جارہی ہے۔۔ مجھے میرا حق چاہیے۔۔ مجھ پر رحم کرو۔۔ تم سے زیادہ مجھے کون جانتا ہے۔۔ بند کرو اپنے کھوکھلے قہقہے اور نکل آؤ اس قید خانے سے، یہاں کوئی نہیں چاہتا مجھے ، میرا دم گھٹتا ہے یہاں، یہ دیکھو کتنے زخم ہیں تمھاری روح پر، تم اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہو؟؟۔۔

میں یک ٹک اپنے ہی عکس کو زخموں سے چور، آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے التجا کرتے ہوئے سن رہی تھی۔۔ خود کو اس حال میں دیکھ کر میرے آنسو بھی بہنے لگے۔۔ میں نے آگے بڑھ کر آئینے کو گلے لگا لیا۔۔ ہم دونوں ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔۔ اتنا اچھا لگ رہا تھا خود سے ملنا۔۔ واقعی ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ہمزاد تھے۔۔ ابھی شاید میں آئینے کو خود سے اور بھی لپٹائے رکھتی کہ میرے بزنس مین شوہر کمرے میں داخل ہوا، ان کے کان پر فون لگا تھا اور وہ زور زور سے کسی سودے کا بھاؤ طے کر رہے تھے، اس سے پہلے کہ میں اپنے آپ سے الگ ہو پاتی اْنھوں نے مجھے دیکھ لیا ، فون کو ہولڈ کروا کر انھوں نے میرا بازو سختی سے دبوچا اور غرّا کر کہا، ‘‘پھر دورہ پڑ گیا تجھے؟ جلدی تیار ہو منحوس عورت ایک ضروری بزنس پارٹی میں جانا ہے اور اپنا نحوست زدہ منہ ٹھیک کر’’ ان کی آہنی انگلیاں میرے بازو میں کھبی جا رہی تھیں، ایک سسکی سی لبوں پر آتے آتے دم توڑ گئی لیکن آئینے کے اس طرف کھڑا میرا وجود دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، میں جلدی سے کپڑے بدلنے چلی گئی، آئینہ دیکھنے کی تو ہمت تھی نہیں پھر بھی میک آپ کا سہارا لینے کے لئے ایک بار پھر سے آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی، جیسے ہی لپ اسٹک لگانے لگی تو دیکھا میرے عکس کے لب تو پھٹے پھٹے سے تھے، خون رس رہا تھا، میں نے کاجل لگا لیا تو دیکھا کہ میرے عکس کی آنکھیں کتنی ویران تھیں، گہرے حلقے ان کا احاطہ کئے ہوئیتھے، جیسے تیسرے کر کے میک آپ مکمل کیا اور باہر جانے کے لئے دروازے کا رْخ کیا ، ایک نظر مڑ کر آئینے میں دیکھا، میرا عکس زمیں پر اکڑوں بیٹھا، اپنے دونوں بازو گھٹنوں کے گرد باندھے ہوا تھا، میں ٹھٹھک گئی، کیا یہ واقعی میں ہوں؟ نہیں یہ میں کیسے ہو سکتی ہوں؟؟ میں تو اس دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت ہوں وہ کیا ہے جو میری دسترس میں نہیں !!

‘‘محبت’’ عکس نے کرلاتے ہوئے کہا، میں تیزی سے کمرے سے باہر نکل آئی اور دروازہ بند کر دیا، عکس کی سسکیاں باہر تک سنائی دے رہی تھیں، میں نے ایک دلفریب مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجائی اور اپنے سلکی بالوں کو ایک ادا سے جھٹکے ہوئے گاڑی میں آ بیٹھی کہ آج کی جانِ محفل جو ہوں میں۔


 

Imran Ahmad Awan
About the Author: Imran Ahmad Awan Read More Articles by Imran Ahmad Awan: 35 Articles with 32473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.