ابہام گوئی کی ابتداء

لفظ ایہام کا مطلب ٫ چھپانا،شک میں ڈالنا اور وہم میں مبتلا کرنا ہے۔اصلاحی اعتبار سے مراد یہ ہے کہ شاعری میں ایسے ذومعنی الفاظ استعمال کرنا ہے جن میں سے ایک معنی تو قریب کا اور آسان اور دوسرا بعید کا معنی ہو جو ذرہ غورو فکر کے بعد سمجھ میں آئے۔شاعر کی مراد اسی معنی بعید سے ہوتی ہے۔قاری کے معنی قریبہ پر اکتفا کر لینے سے ایک طرح کی تحیر اور دلچسپی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی ہندوستان میں ولی کے اثر سے ہی اُردو شاعری میں ایہام گوئی کا رجحان پیدا ہوا۔کیونکہ ہندی شاعری میں خصوصاً دوہوں میں ذومعنی الفاظ کا استعمال عام تھا۔

ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار:
ایہام گوئی کی ابتداء محمد شاہی عہد کے آغاز 1719ءہوئی۔اوراس کا خاتمہ بھی محمد شاہ ہی کے آخری دور میں ممکن ہو گیا۔میاں شرف والدین مضمون کو اردو میں ایہام گوئی کا مئوجد تسلیم کیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ شاہ مبارک آبرو اور شاکر ناجی بھی ان کے ہم مشقوں میں شمار ہوتے ہیں۔لیکن تمام ایہام گویوں کے استاد کا ملکہ سراج الدین خان آرزو کو حاصل ہے۔مولانامحمد حسین آزاد نے " آب حیات" میں انھیں بزمِ اردو کے صدر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ حالانکہ شاہ حاتم بھی ایہام گوئی کے کہنہ مشق شاعر تھے،مگر بعد می میں انھیں ترک کرنا پڑی۔
ایہام گوئی کے مئوجد شاعر شرف الدین کا نمونہ کلام:
ہم نے کیا کیا نہ تیرے عشق میں محبوب کیا
صبر ایوب کیا ، گریہ یعقوب کیا
شاکر ناجی
تیرے رخسار کے پرتو سے اے شیخ
پری خانہ ہوا گھر آرسی کا
مبارک شاہ آبرو کا نمونہ کلام:
خوبوں کو جانتا ہوں گرمی کریں گے مجھ سیں
دل سرد ہو گیا ہے جب سے پڑا ہے پالا

ایس_ کے _ نیازی، پپلاں
 

Surat Khan
About the Author: Surat Khan Read More Articles by Surat Khan: 13 Articles with 32290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.