یورپ اورامریکاکی مشترکہ رائے ہے کہ چین کوالگ تھلگ
کرناناگزیرہوگیاہے مگرکیاایساکرناممکن ہے؟سرِدست یہی دکھائی دے رہاہے کہ
ایسا کرنا انتہائی خطرناک بلکہ تباہ کن ہوگا۔امریکااوریورپ کی معیشتیں چینی
معیشت سے اِس قدرجڑی ہوئی ہیں کہ اُس سے مکمل طورپرکنارہ کش ہوکروہ کھوکھلی
رہ جائیں گی کیونکہ ان کے پاس اب چین کاکوئی متبادل نہیں۔چین اب ایک
باضابطہ حقیقت کے طورپرسامنے ہے جسے محض سمجھناہی نہیں،تسلیم کرنابھی لازم
ہوچکاہے۔عالمی معیشت سے چین کوالگ کرنے کا عمل پوری دنیاکی معیشتوں
کیلئےانتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔امریکامیں دونوں بڑی جماعتیں اب اس حقیقت
کاادراک کرچکی ہیں کہ چین محض مسابقت کے حوالے سے خطرناک نہیں بلکہ اب ایک
باضابطہ حریف بن چکاہےاوراس سے بھی بڑھ کریہ کہ وہ ایک دشمن ہے۔14مئی
کوٹرمپ نے کہاتھاکہ چین سے الگ ہوئے بغیرچارہ نہیں اوریہ کہ چین سے ہرطرح
کے معاشی اورمالیاتی تعلقات ختم کرنے کی صورت میں امریکاکوکم وبیش500بلین
ڈالرتک کافائدہ ہو سکتا ہے۔
امریکانے کروناوباکے دوران بھی چین سے تعلقات کم کرنے پرخاص توجہ دی۔ٹرمپ
نے دی فیڈرل ریٹائرمنٹ تھرفٹ انویسٹمنٹ بورڈکوہدایت کی تھی کہ چینی کمپنیوں
میں سرمایہ کاری روک دی جائے۔ٹیلی کام سیکٹرمیں چین کے سب سے بڑے ادارے
ہواوے کوبھی حکم دیاکہ وہ سیمی کنڈکٹرتیار کرنے کے شعبے میں امریکی
ٹیکنالوجی سے استفادہ کرناچھوڑدے۔چین اورہانگ کانگ کے تعلقات میں کشیدگی
کابھی امریکانے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔جب چین نے ہانگ کانگ میں
سیکورٹی کے حوالے سے چندسخت اقدامات کیے تب امریکی صدرنے ہانگ کانگ کو
تجارت کے حوالے سے دی جانے والی رعایتیں بحال کرنے کااعلان کیا۔
امریکامیں چندبرسوں سے یہ بات کھل کرکہی جارہی ہے کہ اب چین سے الگ ہونے
کاوقت آگیاہے۔الگ ہونے کامطلب یہ ہے کہ امریکاچینی کمپنیوں سے اپنے
غیرمعمولی تعلقات ختم کرے۔اس وقت بیسیوں چینی کمپنیاں امریکی کمپنیوں کوبہت
سی اشیابہت بڑے پیمانے پرتیارکرکے فراہم کررہی ہیں۔ امریکاچاہتاہے کہ یہ
سپلائی اب ختم کردی جائے۔یہ بات کہنے کوبہت آسان ہے مگراس پرعمل کرنے سے
معاملات ایسے الجھنے لگتے ہیں کہ ساراجوش و خروش ٹھنڈاپڑجاتاہے۔امریکامیں
بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث بیسیوں امریکی کمپنیاں اب بہت کچھ چینی کمپنیوں کے
ذریعے بنواتی اورمنگواتی ہیں۔یہ عمل دوچارسال کانہیں،عشروں کاہے۔اس دوران
چین کی قوت میں تیزی سے اضافہ ہوتاچلاگیاہے۔اب حالت یہ ہے کہ چین کی بیسیوں
کمپنیاں امریکی معیشت میں گندھ گئی ہیں،رچ بس گئی ہیں۔ان کمپنیوں کوامریکی
معیشت سے الگ کرنے کا عمل امریکی تجارتی زوال ہے۔اس معاملے میں دانش مندی
اوردور اندیشی کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔اگرمعاملات کوسوچے سمجھے بغیرنمٹانے
کی کوشش کی گئی توخرابیاں صرف بڑھیں گی۔ٹرمپ کے مشیرِتجارت
پیٹرونیویرونےاپنی کتاب’’ڈیٹھ بائی چائنا‘‘میں کہاہے کہ اگرامریکی معیشت سے
چین کوالگ نہ کیاگیا تومعاملات اس حد تک بگڑیں گے کہ انہیں درست کرناممکن
نہ رہے گا۔واشنگٹن کے پالیسی سازچین کو امریکی معیشت سے مکمل طورپرالگ کرنے
کی باتیں ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے کررہے ہیں مگراس پرعملدرآمدنااممکن
دکھائی دے رہا ہے کیونکہ متبادل انتظام کیے بغیرچین کوامریکی معیشت سے مکمل
طورپرالگ کرناانتہائی خطرناک،بلکہ تباہ کن ثابت ہوگا۔
کئی آپشنزپرغورکیاجارہاہے۔ایک طرف تویہ کہاجارہاہے کہ چین کوامریکی
ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے روکناہی معاملات کو درست کرنے کا بہترین طریقہ
ہے۔دوسری طرف یہ کہاجارہاہے کہ چین کوبہت بڑے پیمانے پرڈمپنگ سے روکنے
کیلئےعالمی تجارتی تنظیم کے قوانین اورضوابط میں تبدیلی لازم ہے۔چین اب تک
مینوفیکچرنگ سیکٹرکاسب سے بڑاملک ہے۔وہ ہرچیزبہت بڑے پیمانے
پرتیارکرتاہے۔لاگت بہت کم ہونے کے باعث وہ کسی بھی ملک تک اپنی مصنوعات
اتنے کم خرچ پرپہنچاتاہے کہ کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک کیلئےاس سے
مسابقت آسان نہیں۔ ترقی پذیرممالک کی معیشتیں مینوفیکچرنگ سیکٹرمیں چین سے
مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔پسماندہ ممالک توخیرکسی گنتی ہی میں
نہیں۔
یہ بات بھی اب کھل کرکہی جانے لگی ہے کہ چین کواچانک اور،بظاہرسوچے سمجھے
بغیر،امریکی معیشت سے الگ تھلگ کرنے کے انتہائی اثرات نتائج مرتب ہوں
گے۔ایسانہیں ہے کہ چین ہرمعاملے میں امریکاکیلئےانتہائی نقصان دہ ہے۔بعض
شعبوں میں چینی کمپنیوں کے تعاون سے امریکی معیشت نے کئی گرانقدرفوائدبھی
حاصل کیے ہیں۔بعض شعبے چینی معاونت ہی کے ذریعے اب تک برقراررہ پائے
ہیں۔بہت سی اشیاچین سے درآمد کیے جانے کی صورت میں بہت سستی پڑتی
ہیں۔اگریہ تمام اشیاامریکا میں بنائی جائیں تولینے کے دینے
پڑجائیں۔امریکانے اب تک ہائی ٹیک اور ایسے ہی دیگرہائی پروفائل
سیکٹرزپرتوجہ دی ہے۔چین بنیادی طورپرمینوفیکچرنگ سیکٹرکاجِن ہے۔وہ اب تک اس
بات کیلئےکوشاں ہے کہ کوئی بھی بڑاملک مینوفیکچرنگ سیکٹرمیں اس کے سامنے
کھڑانہ ہوسکے۔امریکااوریورپ دونوں ہی اس بات کوسمجھتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ
سیکٹر میں چین سے مسابقت کا سوچابھی نہیں جاسکتا۔ایسے میں چین کی معاشی
اورمالیاتی قوت سے گھبراکرجذباتی نوعیت کے فیصلے کرنے کی کوئی منطق سمجھ
میں نہیں آتی۔واشنگٹن میں بھی سیاسی ومعاشی امورکے تجزیہ کاراس نکتے
پرزوردے رہے ہیں کہ چین کوایسے دشمن کے طورپرنہ دیکھاجائے جس سے ہرحال میں
جان ہی چھڑانی ہے۔سابق سوویت یونین واضح حریف تھامگراُس سے نمٹنے کے معاملے
میں ایسی جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کیاجاتاتھا۔
تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ چین کوالگ تھلگ کرنے کیلئےجس نوعیت کی مہارت
درکارہے وہ فی الحال امریکاکے پاس نہیں۔اس معاملے میں غیر معمولی دوراندیشی
درکارہے۔چین کودبوچنے کیلئےجامع پالیسی اورواضح حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔اب
تک ایساکچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ہوامیں تیرچلائے جارہے ہیں،بڑھکیں ماری
جارہی ہیں۔یہ کیفیت واشنگٹن کے پالیسی سازوں کی بدحواسی کاگراف بلندکررہی
ہے۔چین کوقابو میں رکھنے کیلئےبہت کچھ درکارہے جس کااہتمام کرنے پرفی الحال
توجہ نہیں دی جا رہی۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چین کی بہت سی کمپنیاں اس وقت امریکی معیشت میں اس
طورگندھی اورجڑی ہوئی ہیں کہ انہیں الگ کرنا خاصا محنت طلب کام اور وافر
وقت درکارہوگا۔کسی ایک حکم نامے کے ذریعے چین کوالگ تھلگ نہیں
کیاجاسکتا۔ایساکرنادونوں بڑی طاقتوں کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔چین کی
توجہ اب تک صرف معیشت پرمرکوزرہی ہے۔اس نے سیکورٹی معاملات میں امریکا
کوآنکھیں نہیں دکھائیں۔امریکانے ہانگ کانگ اورتائیوان کے حوالے سے بھی مہم
جوئی کی کوشش کی ہے مگرچین نے ایساردِّعمل نہیں دیا جس سے معاملات خطرناک
رخ اختیارکریں۔وہ صرف اورصرف معیشت پرتوجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ تجزیہ
کارامریکی حکومت کومشورہ دے رہےہیں کہ چین سے تعلقات اچانک ختم نہ کیے
جائیں۔سوچے سمجھے بغیرکیاجاجانے والا کوئی بھی اقدام نہ صرف یہ کہ مطلوب
نتائج پیدانہیں کرے گابلکہ خرابیاں لائے گا۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بعض معاملات میں امریکی معیشت اب چینی کمپنیوں
پرمنحصرہوکررہ گئی ہے۔دونوں معیشتیں بعض شعبوں میں سر سے جڑے ہوئے بچوں کی
مانندہیں۔کسی ایک بچے کوالگ کرنے کی کوشش اُس کی ہی نہیں بلکہ دوسرے بچے کی
زندگی کوبھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ چین کوکنٹرول کرنے
کاتاثردے کرصدارتی انتخاب پراثراندازہوناچاہتی تھی اورکوشش یہ کی جارہی تھی
کہ چین کو قابو میں کرنے سے متعلق کوششوں میں ٹرمپ ہیروکی حیثیت سے ابھریں
لیکن معاملہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔اب معاملہ یہ ہے کہ خود امریکی پالیسی
سازوں کوبھی درست اندازہ نہیں کہ چین اُن کی معیشت میں کہاں تک پیوست
ہے۔اگرسرسے جڑے ہوئے بچوں کوالگ کرناہوتوسب سے پہلے یہ اندازہ لگاناہوتاہے
کہ ان دونوں کے اعضائے رئیسہ جڑے ہوئے تونہیں اوریہ کہ ایک بچے کوالگ کرنے
کی صورت میں دوسرے بچے کے زندہ رہنے کے امکانات کس حد تک ہیں۔ المونیم
اوردوسری بہت سی دھاتوں کے حوالے سے چین کے علاوہ روس کے ادارے بھی امریکی
معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔
جوبائیڈن انتظامیہ کبھی بھی سوچے سمجھے بغیرکوئی عاجلانہ فیصلہ نہیں کرے گی
کیونکہ اسے علم ہے کہ ایسی صورت میں کئی ممالک کی معیشتیں انتہائی خطرناک
صورتِ حال سے دوچار ہوجائیں گی۔یہی سبب ہے کہ ماہرین اس معاملے میں
جوبائیڈن کے تحمل کو غیرمعمولی اہمیت دے رہے ہیں۔اگرچین کوالگ تھلگ کرنابھی
ہے تواس کیلئےکئی سال کی محنت درکارہوگی۔سب سے پہلے توان کمپنیوں کی فہرست
تیار کرناہوگی جوچینی کمپنیوں کی معاونت کے بغیرچلائی ہی نہیں جاسکتیں۔چین
کوسپلائی چین سے الگ کرنے کی صورت میں درجنوں امریکی کمپنیوں کابھٹّا بیٹھ
سکتاہے۔اس حوالے سے کی جانے والی ابتدائی کوششیں بھی اب تک ناکام ہی رہی
ہیں۔روسی کمپنی رسل کے معاملے میں ایسا ہوچکاہے۔کسی غلط کمپنی کے خلاف
اقدامات سے سپلائی چین بُری طرح متاثرہوسکتی ہے۔ایسی حالت میں بہت سے
امریکی کمپنیاں دیوالیہ بھی ہوسکتی ہیں۔امریکی پالیسی سازوں کواس بات کا
احساس ہوچکاہے کہ چینی معیشت کوئی ایسی چیزنہیں جسے آسانی سے الگ
کردیاجائے اورعالمی معیشت بُری طرح متاثرنہ ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ چینی
کمپنیاں عالمی معیشت سے اس طوروابستہ وپیوستہ ہیں کہ انہیں اچانک الگ کر
دینے سے کئی ممالک کی معیشت کوزبردست دھچکالگے گا۔امریکاکے علاوہ یورپ کے
کئی ممالک بھی بُری طرح متاثرہوسکتے ہیں۔
اس وقت امریکی پالیسی ساز شش وپنج کی حالت میں ہیں۔ایک طرف چین کوتیزی سے
کنٹرول بھی کرناہے اوردوسری طرف یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہاکہ ایساکس طرح
کیاجائے۔خواہش اپنی جگہ،امکانات اپنی جگہ۔زمینی حقائق کونظراندازکرکے کچھ
بھی نہیں کیاجاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے کی
غیردانش مندانہ کوششیں ہی اُس کی مکمل تباہی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔پالیسی
سازبھی جانتے ہیں کہ چین کے حوالے سے اٹھایا جانے والاایک غلط قدم اصل
راستے سے بہت دورلے جاسکتاہے۔
امریکی پالیسی سازمعاشی معاملات میں فزیکل اکانومی کے بنیادی
عناصرکونظراندازکردیتے ہیں۔ہائی ٹیک کے شعبے میں امریکا بہت آگے ہے
اورایسے ہی چنددوسرے شعبوں میں بھی اس کی مہارت سے انکارممکن نہیں مگریہ
حقیقت اپنی جگہ ہے کہ چین نے فزیکل اکانومی کے شعبے میں اپنی گرفت مضبوط
رکھی ہے۔معیشت کومتحرک رکھنے کیلئےمینوفیکچرنگ سیکٹرریڑھ کی ہڈی کا درجہ
رکھتاہے۔اس کے مبادیات کونظرانداز کرنے کی صورت میں صرف خرابیاں پیداہوں
گی۔امریکی پالیسی سازبھی اس حقیقت کو کسی حدتک سمجھتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ
سیکٹرمیں چین غیرمعمولی بالا دستی کاحامل ہے۔اس شعبے میں اسے راتوں رات
ہرایا نہیں جاسکتا۔امریکی قائدین نے مینوفیکچرنگ سیکٹرکواب تک نظر
اندازکیاہے،جس کاچین نے بھرپورفائدہ اٹھایاہے۔
چین کے حوالے سے کوئی بھی بڑایاانقلابی نوعیت کاقدم اٹھانے سے پہلے امریکی
پالیسی سازوں کویہ دیکھناہوگاکہ ایساکرنے سے امریکی معیشت کے فزیکل
سیکٹرپرکیااثرات مرتب ہوں گے۔آج کی دنیامیں ہائی ٹیک کی اہمیت غیرمعمولی
سہی مگرسبھی کچھ تو آن لائن یاورچیوئل نہیں۔ بہت کچھ ہے جوآج بھی مرئی
ہے،دکھائی دیتاہے۔مرئی معاملات کوغیردانش مندانہ اندازسے نمٹانے کی کوشش کی
گئی توشدیدمنفی اثرات مرتب ہی نہیں ہوں گے،دکھائی بھی دیں گے اوربدحواسی
بڑھائیں گے۔ایسے میں انتہائی لازم ہے کہ چین کوکنٹرول کرنے سے متعلق کوئی
بھی قدم بہت سوچ سمجھ کراٹھایاجائے تاکہ پوری معیشت متاثرنہ ہو۔امریکی
معیشت کے متاثرہونے کامطلب ہے دنیابھرکی معیشتوں کامتاثرہونا۔یہ کیفیت
معاملات کومزیدالجھادے گی اوردنیاتصادم کی طرف بھی جاسکتی ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے پالیسی سازوں کیلئے نہائت اہم نکتہ یہ ہے کہ جب سی
پیک مکمل ہوگاتوپاکستان کی انڈسٹری کامستقبل کیاہوگا۔ ہم نے پاکستان میں
سستی چینی مصنوعات کامقابلہ کرنے کیلئے کیالائحہ عمل تیارکیاہے؟اس کیلئے
یقینًاہمارے پالیسی سازوں کوسرجوڑکربیٹھنا ہو گا۔
|