دُعاۓ اَغراض و دُعاۓ اَمراض

#العلمAlilm علمُ الکتاب  سُورَہِ یُونس ، اٰیت 11 تا 14  دُعاۓ اَغراض و دُعاۓ اَمراض !!  ازقلم .....اخترکاشمیری
 علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ 75 ہزار سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
 براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام شیئر کریں !!
 اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
 ولو
یعجل اللہ للناس
اشر استعجالھم بالخیر
لقضی الیھم اجلھم فنذرالذین
لایرجون لقاءنا فی طغیانھم یعمھون
11 واذامس الانسان الضر دعانا لجنبہٖ او قاعدا
اوقائما فلما کشفنا عنہ ضرہ مر کان لم یدعنا الٰی ضر
مسہ کذٰلک زین للمسرفین ماکانوایعملون 12 ولقد اھلکنا
القرون من قبلکم لماظلمواوجاءتھم رسلھم بالبینٰت وماکانوا
لیؤمنواکذٰلک نجزی القوم المجرمین 13 ثم جعلنٰکم خلٰئف فی الارض
من بعدھم لننظر کیف تعملون 14
اگر اللہ تعالٰی بھی انسان کو نُقصان پُہنچانے میں اتنی ہی جلدی کرتا جتنی انسان نفع پانے کے لیۓ جلدی کرتا ھے تو انسان کی مُہلتِ عمل بھی اتنی ہی جلدی ختم ہو جاتی لیکن ھمارا کوئ بھی طرزِ عمل انسان کے ساتھ انسان کی طرح عاجلانہ نہیں ہوتا بلکہ ھمارا ہر ایک عمل ہر ایک انسان کے ساتھ عادلانہ و مُنصفانہ ہوتا ھے ، جو انسان ھم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ھم اُن کی سزا میں توقف کرتے رہتے ہیں اور اُن کو ایک مُدت تک بہکنے اور بہٹکنے کے لیۓ کُھلا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ جب بھی ھم سے رجوع کرنا چاہیں تو کُھلے دل کے ساتھ رجوع کر سکیں لیکن انسان کا تو حال یہ ھے کہ جب وہ کسی غرضِ جان و مرضِ جان اور قرضِ جہان کے رَنج سے دوچار ہوتا ھے تو کھڑے پڑے اور سوتے جاگتے ھم کو پکارتا رہتا ھے اور جب ھم اُس کی مصیبت کو اُس کے سر سے ٹال دیتے ہیں تو وہ ھم سے اِس طرح لاتعلق ہو جاتا ھے کہ جیسے اُس پر کبھی بھی کوئ بُرا وقت نہیں آیا تھا اور ھم نے کبھی بھی اُس کی کوئ مدد نہیں کی تھی ، جو سرکش لوگ ھم سے اِس طرح لاتعلق ہو جاتے ہیں تو اُن کی سرکشی کی یہی بُری عادت اُن کے اِن بدنما اعمال کو اُن کے لیۓ خوش نما بنا دیتی ھے اور وہ اپنے اِنہی خوش نما اعمال کی مَستی میں مست ہو کر رہ جاتے ہیں ، ھم نے تُم سے پہلے ایسی بہت سی ظالم قوموں کو ہلاک کیا ھے جو انسانوں پر ظلم کیا کرتی تھیں ، ھم نے اُن قوموں کے اُن لوگوں کو ظلم کی راہ سے ہٹانے اور انصاف کی راہ پر لانے کے لیۓ اُن میں اپنی واضح ھدایات کے ساتھ اپنے بہت سے رسول بہیجے تھے لیکن وہ لوگ نہ تو ھمارے اُن رسولوں پر ایمان لاۓ اور نہ ہی وہ اپنے ظلم سے باز آۓ ، اِس لیۓ ھم نے اُن سرکش لوگوں کو زمین سے ہٹا دیا ھے اور اُن کی جگہ پر تُم کو بٹھادیا ھے تاکہ تُم زمین پر ہمیں اپنی مُنصفانہ کار کردگی دکھاؤ اور ھم تُمہاری مُنصفانہ کارکردگی کو دیکھیں اور تُم میں جو لوگ مُنصف ہیں اُن کو اُن کے اِنصاف کی مُنصفانہ جزا دی جاۓ اور تُم میں جو لوگ مُجرم ہیں اُن کو اُن کے ظلم کی بھی مناسب سزا دی جاۓ !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
دُنیا کو اللہ تعالٰی نے عمل ، رَدِ عمل ، وقفہِ عمل ، وقفہِ رَدِ عمل ، نتیجہِ عمل اور نتیجہِ رَدِ عمل کے اصول پر بنایا ھے اور اِس اصول کے مطابق جو انسان یہاں پر جو مُثبت یا مَنفی عمل کرتا ھے اُس عمل کی اَنجام دہی کا ایک مقررہ وقت ہوتا ھے اور اُس عمل کے رَدِ عمل کا بھی ایک مقررہ وقت ہوتا ھے اور انسان کے اُن اعمالِ خیر و شر کے مُثبت و مَنفی نتائج کے ظہور کا بھی ایک مقررہ وقت ہوتا ھے اور انسان کے اِن مُمکنہ اَعمال کے مقررہ اَوقات کے درمیان جو مُدت ہوتی ھے وہ مُدت رجوع الی الحق کی ایک مُہلت ہوتی ھے تاکہ انسان اِس مُہلت کے درمیان اپنے مَنفی عمل سے رجوع کر کے اُس مُثبت عمل کی طرف آۓ جو اُس کو مَنفی عمل کی اُس لازمی سزا سے بَچا سکتا ھے جو ہر مَنفی عمل کے لیۓ لازم ہوتی ھے اور جو اُس کو اُس لازمی جزا کا مُستحق بھی بنا سکتا ھے جو جزا ہر مُثبت عمل کا ایک لازمی نتیجہ ہوتی ھے لیکن انسان ایک ایسی عُجلت پسند مخلوق ھے جو ہر نفعہ بھی ہاتھ کے ہاتھ پانا چاہتی ھے اور ہر نقصان سے بھی ہاتھ کے ہاتھ خود کو بچانا چاہتی ھے ، اٰیاتِ بالا میں سے پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے انسان کو فطرت کس یہی اصول سمجھایا ھے اور اِس دلیل اور اِس تمثیل کے ذریعے سمجھایا ھے کہ تُم اپنی زندگی میں جلدی جلدی جو خیر چاہتے ہو وہ خیر تو خیر اللہ تعالٰی تمہیں دیتا ہی رہتا ھے اور تُمہارے مطالبے کے بغیر ہی دیتا رہتا ھے لیکن اگر اللہ تعالٰی تُمہاری جلد بازی کا خیال کر کے تُمہارے مَنفی اعمال کا بھی تُم کو اسی طرح جلدی جلدی بدلہ دینے لگتا جس طرح تُم چاہتے ہو تو تُمہاری رجوع الی الحق کی وہ مُہلت اَب سے بہت پہلے ختم ہو چکی ہوتی اور تُمہارا وجُود بھی اَب سے بہت پہلے ختم ہو چکا ہوتا لیکن انسان کے ساتھ اللہ کے برتاؤ کا طریقہ اُس کی رحمتِ تمام اور مُہلتِ تمام کی حکمتِ تمام کے مطابق ھے جس سے تمہیں بار بار مُہلت دی جاتی ھے تاکہ تُم مُہلت سے فائدہ اُٹھاؤ اور ہلاکت سے بَچ جاؤ ، عُلماۓ روایت نے اِس اٰیت کے اِس مفہوم کو اپنی خیالی شانِ نزول کے اِس مفہوم سے جوڑا ہوا ھے کہ مُنکرینِ حق اللہ کے رسول سے بار بار اللہ کے جس عذاب کا مطالبہ کیا کرتے تھے اِس اٰیت میں اُن کے اُس مطالبے کا جواب دیا گیا ھے ، اِس بات میں کوئ شک نہیں کہ مُنکرینِ حق اللہ کے رسول سے اللہ کے عذاب کا مطالبہ کرتے رہتے تھے اور کوئ وجہ نہیں کہ ھم مُنکرینِ حق کے مطالبہِ عذاب کو اِس اٰیت کے اِس مفہوم سے خارج کردیں لیکن فی الحقیقت یہ قُدرت کا ایک اصولِ عام ھے جس کے تحت مُنکرینِ حق کا یہ مطالبہ خاص بھی آجاتا ھے کیونکہ اللہ کے عذاب کے لیۓ زمان و مکان میں جس اتمامِ حجت کی ضرورت ہوتی ھے اُس اتمامِ حجت کے لیۓ بھی وہی مُہلت درکار ہوتی ھے جس مُہلت کا ھم نے ذکر کیا ھے ، اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کے بعد دُوسری اٰیت میں انسان کے اِس نا شکرے پَن کا ذکر کیا گیا ھے کہ جب اِس پر اِس کی اَغراضِ رُوح و دل اور اُس کے اَمراضِ جسم و جان کی صورت میں کوئ آفت آتی ھے تو وہ لَمحہ لَمحہ اور لَحظہ لَحظہ اُٹھتے بیٹھتے ہوۓ اللہ کو یاد کرتا ھے لیکن جب اللہ اُس کے سر سے اُس مصیبت کو ہٹا دیتا ھے تو یہ ناشکرا و خُدا فراموش انسان ایسا نادان بن جاتا ھے کہ جیسے اُس پر کبھی کوئ آفت بھی نہیں آئ ھے اور اللہ نے اُس کی کوئ مدد بھی نہیں کی ھے ، انسان چونکہ یہ خُدا فراموشی بار بار کرتا ھے اِس لیۓ یہ اِس کی عادتِ ثانیہ بن جاتی ھے اور یہ خُدا فراموشی اُس کی عادتِ ثانیہ بننے کے بعد اُس کی طبعیت اور اُس کے مزاج کے لیۓ ایک خُوب صورت عمل بن جاتی ھے اور اِس بد صورت عمل کو وہ ایک خُوب صورت عمل کے طور پر کرتا رہتا ھے ، اِن دو اٰیات کے بعد وارد ہونے والی دو اٰیات میں قُرآن نے انسان کو یہ بتایا ھے کہ جب قوموں کے اَفراد اور اَفراد کی قومیں اللہ کے ساتھ اِس سرکشی کی عادی بن جاتی ہیں تو اُن میں سے جس قوم کی مُہلتِ رجوع ختم ہو جاتی ھے تو اُس کو زمین سے مٹادیا جاتا ھے اور مٹنے والی قوم کی جگہ پر ایک دُوسری قوم کو بٹھا دیا جاتا ھے جس طرح ایک پہلی قوم کی جگہ پر ایک پہلی قوم کو بٹھایا گیا تھا اور آخری قوم کی جگہ پر تُم کو بٹھایاگیا ھے اور اسی اصولی شرط کے ساتھ بٹھایا گیا ھے کہ اگر مُثبت اعمال اَنجام دو گے عزت و منزلت پاؤ گے اور مَنفی اعمال پر مُصر رہو گے تو پہلے اہلِ زمین کے ذریعے ذلیل و خوار کیۓ جاؤ گے اور بعد ازاں زمین سے اسی طرح مٹادیۓ جاؤ گے جس طرح تُم سے پہلے لوگ زمین سے مٹاۓ گۓ ہیں لیکن یہ تو صرف اُس قوم کا اَحوال ھے جس کی مُہلتِ رجوع ختم ہو چکی ھے اور جس قوم کی مُہلتِ رجوع باقی ھے اُس کا رویہ ، اُس کا مزاج ، اُس کا حال اور اُس کا اَحوال آنے والی اٰیات میں آرہا ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 565056 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More