شرک بالقُرآن اور فسادِ جان و جہان

انتخاب ؤ ترتیب
بابرالیاس
#العلمAlilm علمُ الکتاب  سُورَہِ یُونس ، اٰیت 18 تا 20  شرک بالقُرآن اور فسادِ جان و جہان !!  ازقلم.......اخترکاشمیری ( نیویارک)
 علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزنہ 75 ہزار سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
 براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام شیئر کریں !!
 اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
 و
یعبدون من
دون اللہ مالا
یضرھم ولا ینفعھم
ویقولون ھٰؤلاء شفعاؤنا
عنداللہ قل اتنبئون اللہ بما
لا یعلم فی السمٰوٰت ولا فی الارض
سبحٰنہ وتعٰلٰی عما یشرکون 18 وماکان
الناس الا امة واحدة فاختلفوا ولولا کلمة
سبقت من ربک لقضی بینھم فیما فیہ یختلفون
19 ویقولون لولا انزل علیہ اٰیة من ربہ فقل انما الغیب
للہ فانتظروا انی معکم من المنتظرین 20
یہ جن سر کش لوگوں کا ذکر ہو رہا ھے وہ ایک اللہ کی غلامی کے سوا ہر ایک غیر اللہ کی غلامی کر ر ھے ہیں اور اُن غیر اللہ میں سے کوئ ایک بھی اِن کو نہ تو کوئ نفع دے سکتا ھے اور نہ ہی کوئ نُقصان پُہنچا سکتا ھے مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ھم جن ہستیوں کے پرستار ہیں وہ اللہ کے پاس ھماری سفارش کرنے والی ہستیاں ، آپ اِن عقل دُشمنوں سے پُوچھیں کہ کیا تُم اپنی بے عقلی کی یہ بات کہہ کر اللہ کو اِس بات اطلاع دے ر ھے ہو کہ تُم اپنی بے عملی و بَد عملی اور بے عقلی کے بارے میں اپنے لیۓ ایسی بلند پایہ سفارش کار ہستیاں رکھتے ہو جن کا خود اللہ کو بھی علم نہیں ھے ، کیونکہ اللہ نے تو زمین و آسمان اور زمین و خلاء کے درمیان کوئ ایسا مُتنفس تو پیدا ہی نہیں کیا ھے جو اللہ کے سامنے اللہ کی کسی سرکش مخلوق کی کوئ سفارش کر سکے ، اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ اللہ کی ذات تُمہارے اِن مُشرکانہ خیالات سے بلند تَر ذات ھے اور حقیقت یہ ھے کہ پہلے پہلے تو اللہ تعالٰی کے سارے جہان کے سارے انسان قُرآن کے نظریہِ توحید کے مطابق ایک توحید پرست اُمت کی صورت میں رہتے تھے لیکن جب سے زمین پر شیطان نے مُشرکین کی یہ مُشرک جماعت پیدا کی ھے تَب سے انسان جان و جہان کے اِس فساد کا شکار ہوا ھے جس کا اللہ نے قُرآن میں جابجا ذکر کیا ھے اور اگر اللہ تعالٰی نے پہلے ہی سے اِنسانوں کے درمیان ایک مقررہ دن کے آنے پر ہی انسانوں کے اِس اعتقادی اختلاف کا فیصلہ صادر کرنے کا فیصلہ نہ کیا ہوا ہوتا تو بہت پہلے ہی دُنیا میں اِن کے اِس اختلاف کا فیصلہ کر دیا جاتا لیکن اللہ کا وہ حُکمِ اَوّل ہی اُس کا حُکمِ آخر ھے اِس لیۓ یومِ آخرت کے آنے پر ہی اِن کے اِس اختلاف کا آخری فیصلہ ہوگا ، اِن باتوں کے علاوہ یہ مُشرک یہ بات بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی حق اور باطل کے درمیان ایک حَدِ فاصل قائم کرنے کے لیۓ کوئ آسمانی نشان کیوں نہیں ظاہر کر دیتا ، آپ اِن سے کہیں کہ اگر اللہ تعالٰی نے تُمہارے خیال کے مطابق کوئ ایسا نشان ظاہر کرنا بھی ھے تو وہ کسی کے کہنے سُننے پر تو ظاہر نہیں کرنا ھے بلکہ اپنی مرضی سے ظاہر کرنا ھے ، اگر تُم اُس کا انتظار کرنا چاہتے ہو تو ضرور انتظار کرو ، ھم بھی تُمہاری طرح تُمہارے ساتھ اللہ کی مشیت کا انتظار کرتے ہیں !
 مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
کیا ھے اور کیوں ھے کہ کا سوال اللہ تعالٰی نے انسان کی کتابِ فطرت کے ہر ایک ورق پر تحریر کیا ہوا ھے ، اِس لیۓ ہر ایک انسان اپنے لَمحہِ پیدائش سے لے کر لَحظہِ موت تک ہر ایک نظر آنے والی چیز کے بارے میں جاننا چاہتا ھے کہ وہ کیا ھے اور کیوں ھے اور جب انسان اُس چیز کے بارے میں کیا ھے اور کیوں ھے کا جواب حاصل کر لیتا ھے تو پھر قُدرتی طور پر وہ یہ بھی جاننا چاہتا ھے کہ اِس چیز میں اُس کے لیۓ فائدہ کیا ھے اور نقصان کیا ھے ، انسانی فطرت کی کتابِ فطرت کا یہی وہ سلسلہِ سوال و جواب ھے جس کے باعث انسان ارتقاۓ حیات کے موجُودہ مقام تک پُہنچناھے اور اللہ تعالٰی ہی جانتا ھے کہ انسان نے اپنے ارتقاۓ حیات کے اِس مقام سے آگے کون و مکان کے کن کن مقامات تک پُہنچنا ھے اور کیسے پُہنچنا ھے ، کتابِ فطرت کی یہ مُتجسسانہ اَنگیخت حیوانِ ناطق کی فطرت میں تو خیر ہوتی ہی ہوتی ھے لیکن فطرت کی اِسی اَنگیخت کا ایک قابلِ لحاظ حصہ حیوانِ ناقص میں بھی موجُود ہوتا ھے جس کو جاننے اور سمجھنے کے بعد ایک حیوانِ ناقص بھی عُمر بھر فطرت کے اُس دائرے سے باہر کبھی نہیں آتا جو دائرہ قُدرت نے اِس کی جبلت کے جبلّی نقشے پر نقش کیا ہوا ھے لیکن حضرتِ انسان جو اِس کتابِ فطرت کے دَرسِ فطرت کو اپنے ارادے اور اپنے اختیار سے اپنے فہم و استعمال میں لاتا ھے وہ کبھی کبھی تو فطرت کے بہت قریب ہوجا تا ھے اور کبھی فطرت سے بہت دُور چلا جاتا ھے اور جو انسان فطرت و کتابِ فطرت سے جتنا دُور ہو جاتا ھے وہ ارتقاۓ حیات کی منزل سے بھی اتنا ہی دُور ہو جاتا ھے اور جب انسان فطرت و کتابِ فطرت سے دُور ہو جاتا ھے تو وہ اُس کیا اور کیوں کے اُس سوال و جواب سے بھی دُور ہو جاتا ھے جو اُس کے ارتقاۓ حیات کا قدمِ اَوّل ہوتا ھے اور پھر جب کوئ انسان اپنے قدمِ اَوّل سے دُور ہو جاتا ھے تو وہ ہر موجُود چیز کے وجُود کے نفع و ضرر سے بھی بے نیاز ہو جاتا ھے اور جسم و جان کے اِس سیلاب میں بہنے کے بعد اُس کے لیۓ کوئ نفع قابلِ فہم نفع نہیں رہتا اور کوئ ضرر قابلِ فہم ضرر بھی نہیں رہتا ، کیونکہ اِس لَمحے وہ حیوانِ ناقص سے بھی ایک ناقص تَر مخلوق بن جاتا ھے ، اِس سُورت کی اٰیت 15 میں اللہ تعالٰی نے اِس قسم کے بگڑے اور بہٹکے ہوۓ انسانوں کی بگڑی ہوئ ذہنی کیفیت کی مثال دیتے ہوۓ بتایا تھا کہ اُن لوگوں نے اپنے نبی سے یہ مطالبہ کیا ھے کہ وہ قُرآن کے علاوہ ھمارے لیۓ وہ دُوسری وحی بھی لاۓ جو ھماری مَنشا کے مطابق ہو اور یا پھر وہ قُرآن ہی میں کُچھ ایسا رَد و بدل کر دے کہ قُرآن ھماری مَنشا کے مطابق بن جاۓ ، اُن لوگوں کے اِس مطالبے میں بے عقلی کا پہلو یہ تھا کہ عقلِ عام کی یہ عام سے بات بھی اُن کی عقل میں نہیں تھی کہ وہ اللہ کے رسول سے اللہ کی جس کتابِ وحی کے ساتھ جو دُوسری کتابِ وحی لانے کا مطالبہ کر ر ھے تھے اگر وہ کتاب آ بھی جاتی تو اُسی اللہ کی طرف سے آتی اور اللہ کے اُسی رسول کے ذریعے آتی اور اللہ کی وہی کتابِ ھدایت آتی جس کی ھدایات کو وہ ماننے کے لیۓ آمادہ نہیں تھے اور اِس طرح سے اگر اُن کے پاس ایک بار کے بجاۓ ایک ہزار بار وہ کتاب آتی تو اُن کا اعتراض جوں کا توں برقرار رہتا ، اِن لوگوں کی بے عقلی و بَد حواسی کی اُس مثال کے بعد موجُودہ اٰیات میں اللہ تعالٰی نے دُوسری مثال یہ دی ھے کہ اِن لوگوں نے اللہ کی غلامی کو چھوڑ کر جن انسانی و حیوانی بتوں کی غلامی اختیار کی ھے اُن کے بارے میں وہ یہ اَحمقانہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اِن کے ہاتھوں کے بناۓ ہوۓ وہ بُت اور اِن کے خیالوں میں سجے ہوۓ وہ بُھوت اللہ کے سامنے اِن کی سفارش کریں گے ، اِن کے اِس خیال کا اَحمقانہ پہلو یہ ھے کہ ایک طرف تو وہ اللہ کو اپنا اِلٰہ ماننے کا دعوٰی کرتے ہیں اور دُوسری طرف یہ بیہُودہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ اُن کے دَستِ شر سے بنے اور بناۓ ہوۓ یہ دَستی بُت اتنے طاقت ور ہیں کہ جن کی اُن اَنجانی طاقتوں کا { نعوذ باللہ } اللہ کو بھی علم نہیں ھے کہ وہ اپنے اِن پُجاریوں کی اللہ کے سامنے سفارش کرسکتے ہیں اور سفارش کر کے اُن کی نجات کا پروانہ بھی حاصل کر سکتے ہیں ، اِن مُشرک لوگوں کے اِس مُشرکانہ اعتقاد کی وجہ یہ ھے کہ شرک شیطان کا بنایا اور پھلایا ہوا وہ وائرس ھے جس نے انسان کی پہلی توحید پرست اُمت میں شرک کا یہ وائرس پھیلا یا ھے جو جَب سے اَب تک ایک انسان کے مشامِ جان سے دُوسرے انسان کے مشامِ جان تک جاتا ھے اور اپنے زیرِ اَثر آنے والے ہر انسان کے ہوش و حواس کو مفلوج کر جاتا ھے ، اسی لیۓ اللہ تعالٰی نے اِس کا آخری فیصلہ یومِ حشر پر اُٹھا رکھا ھے جہاں پر ہر توحید پرست اور ہر مُشرک نے ایک ساتھ جانا ھے اور اپنے اپنے کیۓ کا بدلہ پانا ھے تاہَم شرک کے مُشرکانہ عمل کی سزا دُینا سے شروع ہو جاتی ھے اور یومِ حشر تک ہر مُشرک کے ساتھ ساتھ جاتی ھے ، دُنیا میں رائج و موجُود شرک کی ہزار ہا قسمیں ہیں جن میں سے ایک شرک ، شرک بالقُرآن ھے اور اِس مقام پر چونکہ موضوعِ سُخن قُرآن ھے اِس لیۓ اِس شرک سے مُراد شرک بالقرآن ھے جو ہر جان کے لیۓ ایک فسادِ جان اور ہر جہان کے لیۓ ایک فسادِ جہان ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 469945 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More