آؤ گاؤں چلیں

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ میں اضافہ ہوتا ہے لوگ زمین سے آسمان کی سوچ رکھتے ہیں۔ مگر، افسوس!!! وقت نے تو اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہم اب منزل پر پہنچ کر واپس راستوں کو تلاش کرتے ہیں۔ ہم نے اب کشادہ اور خوشحال زندگی کو الویدہ کر کے ایک تنگ سی زندگی جینے کا ارادہ کر لیا ہو جیسے۔

ہمیں تو اب کہانیاں سننا اچھا لگنے لگا ہے، اور ہم حقیقت سے بہت دور رہنے لگے ہیں۔ ہمارے خوابوں کے بھی کیا کہنے ہم تو اب خواب بھی شہروں میں گھر بسا نے کے دیکھ رہے ہیں۔

ارے وقت تو یہاں آن پہنچا ہے کہ گاؤں میں رہنے والوں کے پہنے، کھانے، اور جینے کے طریقوں پر قہقہے لگائے جاتے ہیں۔ کیا گاؤں میں رہنے والے انسان نہیں؟ شہروں میں بسنے والے جیسے آسمان سے اتر کے آے ہوں۔ یہ امیری اور غريبى کا فرق، یہ گاوں اور شہر کا فرق ، یہ فرق کچھ بھی نہیں ہے سوائے سوچ کے فرق کے۔

کچھ سمجھ دار لوگ اب بھی اپنے گاؤں سے وابستہ ہیں لیکن ادھے سے زیادہ نوجوان ناسمجھ اس لیے ہیں کیوں ک انہیں بچپن میں ہی گاؤں سے الگ کر کے شہر بہھج دیا جاتا ہے۔ اور وہ شہری زندگی میں ملوث ہو کے گاوں کی زندگی سے محروم رہتے ہیں۔

شہر جہاں تم اپنے اپ کو چار دواری میں قید کر کے رکھتے ہیں،ہاں اگر جائیں گے بھی تو کہاں؟ ان تنگ گلیوں میں؟ سڑکوں پر تازہ نہیں آلودہ ہوا ملے گی جو آپکی َصحيت کے لیے دشمن ثابت ہوگی۔ لاکھوں افراد کی اموات کا سبب آلودہ پانی اور آلودہ ہوا ہے ۔ اور یہاں آپ کو چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں نہیں بلکہ گاڑیوں کا شور سنائی دے گا۔ اور حقیقت سے جب انسان روبرو ہوتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کے گاؤں میں رہنے والے جتنے صحت مند ہوتے ہیں اتنے شہر میں رہنے والے نہیں۔

گاؤں کی وہ تازہ آب و ہوا جس سے لوگ اب گریز کرتے ہیں وہ اب بھی ویسے ہی ہے۔ وہ ہریالی اب بھی وہاں خوبصورتی میں رنگ بھرتی ہے۔ وہاں اب بھی بچے مٹی کے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔ وہ مرغے کا صبح سویرے جگانا اب بھی جاری ہے۔ وہ مٹی کے مکانوں کا ٹھنڈا رہنا اب بھی ویسے ہی ہے۔ بدلے تو ہم ہیں، ہم بھی تو مٹی کے پتلے ہیں۔ ہمیں مٹی سے ہی خوف کیوں آتا ہے؟ افسوس!! ہم تو یہاں خود کی ذات سے بھی بے خبر ہوچکے ہیں۔

شہروں کے گھر آباد کر کے گاؤں کے گھروں کو ویرانی کے حوالے کر دینا اب یہاں کے رسم و رواج، میں شامل ہے۔ ہمیں رسموں رواجوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں شہروں کے گھر آباد کرنے کے ساتھ ساتھ گاؤں کے گھروں کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اگر رخ کیا جائے تو گاؤں میں اب ہر لحاظ سے ترقی بھی اپنے قدم جما رہی ہے۔ تعلیمی ادارے جن کو لے کر لوگ اکثر گاؤں چھوڑ دیتے ہیں، اب گاؤں میں بھی عروج پر ہیں۔ اور جب تک ہم خود یہاں کی ترقی میں زحمت نہیں کریں گے تب تک ایسی مشکلاتوں کا سامنا بھی ہمیں ہی کرنا پڑے گا۔ ہمیں اپنے ثابت قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔

دور حاضر ہم جس وبا کا شکار ہو رہے ہیں بے شک وہ نہ تو امیری غریبی، نہ ہی شہری اور دیہاتی، نہ ہی مذہب کو دیکھتی ہے، مگر ہاں جہاں تک اسکے حفاظتی تدابیر کی بات ہے تو وہ گاؤں میں بہت اچھے سے نبھاے جا رہے ہیں۔ سوشل ڈسٹینسینگ یعنی سماجی دوری گاؤں میں آپ کو یہاں شہر سے بہتر ملے گی کیوں کہ یہاں نہ تو آبادی زیادہ ہے اور نہ ہی گنجان گھر ہیں۔

خوبصورت موسم، ٹھنڈی ہوائیں ، برفیلے پہاڑ، حسین اور دلکش نظارے یہاں کا پتہ ہے۔ اس پتے کی جانب اپنے قدم بڑھانا، دیکھنا زندگی کے غم بھی خوشیوں کی صدا دینگے۔
 

Amina firdous
About the Author: Amina firdous Read More Articles by Amina firdous: 3 Articles with 2612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.