یومِ محشر میں پیروں اور پُجاریوں کا حشر
(Babar Alyas, Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 28 تا 30 یومِ محشر میں
پیروں اور پُجاریوں کا حشر !! ازقلم.......اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یوم نحشر
ھم جمیعا ثم
نقول للذین اشرکوا
مکانکم انتم وشرکاؤکم
فزیلنا بینھم وقال شرکاؤھم
ماکنتم ایانا تعبدون 28 فکفٰی باللہ
شھیدا بینناوبینکم ان کنا عن عبادتکم
لغٰفلین 29 ھنالک تبلواکل نفس مااسلفت وردوا
الی اللہ مولٰھم الحق وضل عنھم ماکانوایفترون 30
اور جس روز ھم سب انسانوں کو ایک جگہ پر جمع کر دیں گے تو لوگوں کی جس
جماعت کے جن اَفراد نے لوگوں کی جس جماعت کے جن اَفراد کو دُنیا میں اللہ
کا شریکِ اقتدار و اختیار بنا رکھا تھا ھم اُن سے کہیں گے کہ تُم میں سے جن
لوگوں نے دُنیا میں اپنے پیروں اور پروہتوں کو اللہ کا شریکِ اقتدار و
اختیار بنایا تھا وہ اپنے اُن پیروں پروہتوں سے الگ ہو کر کھڑے ہوں اور اِن
لوگوں نے جن لوگوں کو اللہ کا شریکِ اقتدار و اختیار بنایا تھا وہ اِن سے
اَلگ کھڑے ہوں اور جب ھم اِن پیروں اور پُجاریوں کو دُوسرے سے دُور دُور
کردیں گے تو تب ھم اُن پُجاریوں سے پُوچھیں گے کہ بتاؤ کہ تُمہارے بناۓ ہوۓ
وہ خانہ ساز مُشکل کشا و حاجت روا پیر پروہت کہاں ہیں جو آج سامنے آکر
تُمہاری کُچھ مُشکل کشائ کریں ، ھمارے اِس سوال پر اُن مُشرک لوگوں کے بناۓ
ہوۓ وہ خیالی مُشکل کشا کہیں گے کہ ھمارے علم کے مطابق تُم ھماری بندگی
نہیں کرتے تھے اور ھمارے اِس دعوے کے حق میں اللہ کی اپنی شہادت ہی سب سے
بڑی شہادت ھے کہ ھم تو جانتے ہی نہیں تھے کہ تُم ھماری بندگی کر رھے ہو ،
جب سوال و جواب کا یہ مرحلہ گزر جاۓ گا تو ہر انسان جان جاۓ گا کہ پہلے
زمانے میں وہ کہاں کہاں سے کیا کیا کرتا ہوا یہاں تک آیا ھے اور یہ جاننے
کے بعد جس جس انسان کے خیال میں جُھوٹ کا جو جو طومار ہوگا وہ پا دَر ہوا
ہو جاۓ گا اور اِس صورتِ حال کو دیکھ کر ہر انسان اِس اَمر کا انتظار کرنے
لگے گا کہ اللہ کب کس کی قسمت کا کیا فیصلہ صادر فرما تا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان قُرآن میں جن دیکھی اَن دیکھی چیزوں کا ذکر پڑھتا ھے اُن میں سے بعض
چیزیں انسان کے خیال میں اُتر کر خیال بن جاتی ہیں اور ایک آتے جاتے خیال
کی طرح اُس کے خیال میں آتی جاتی رہتی ہیں اور بعض چیزیں پہلے خیال میں مل
کر خیال بنتی ہیں ، پھر خُون میں اُتر کر خُون بنتی ہیں ، پھر جسم میں گردش
کرنے والےخُون کے ساتھ گردش کرتے ہوۓ انسان کے دل و دماغ میں چلی جاتی ہیں
، پھر دل و دماغ کے ذریعے انسان کی جان و نفس میں جگہ پا جاتی ہیں اور پھر
جان و نفس کی ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ انسان کے خیالات و تصورات میں آتی
رہتی ہیں اور حق بھی یہی ھے کہ جو چیزیں انسانی زندگی کے لیۓ اتنی اھم ہوں
وہ چیزیں انسان کی جان و نفس میں اُتر کر جان و نفس بن جائیں اور انسان کو
ہمیشہ جان و نفس کے دیگر تقاضوں کی طرح جان و نفس کے ایک فطری تقاضے کی طرح
یاد آتی رہیں ، ذکر محشر اور تصورِ محشر بھی ہمہ وقت یاد رکھی جانے والی
اُن ہی چیزوں میں سے ایک چیز ھے جس کو اٰیاتِ بالا کے اِس مقام پر قُرآن نے
موضوعِ سُخن بنایا ھے ، پھر اِسی موضوعِ سُخن کو قُرآن نے اِس ایک مقام کے
علاوہ دیگر 26 مقامات پر بھی مُختلف صیغ و ضمائر کے ساتھ دُھرایا ھے اور
اِس مقصد کے لیۓ دُھرایا ھے کہ محشر کا یہ خیال انسان کے خُون میں اُتر کر
خُون بن جاۓ اور انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرے اور انسان کے جان و
نفس کے دیگر تقاضو کی طرح جان و نفس کا ایک فطری و فکری تقاضا بن کر انسان
کے جان و نفس میں ہمیشہ موجُود ر ھے کیونکہ محشر دُنیا و عُقبٰی کا وہ
مُشکل سرحدی مقام ھے جس سے گزر کر انسان نے ارتقاۓ حیات کے اُن اَگلے
مقامات میں سے کسی ایک مقام میں جانا ھے جن میں سے ایک کا علامتی نام جنت
اور ایک کا نام جھنم ھے اور اِس جنت و جھنم کا قُرآن نے گزشتہ اٰیات کے
علاوہ قُرآن کی دیگر 143 اٰیات میں بھی ذکر کیا ھے اور اِن اٰیات میں اُس
جنت یا جھنم میں جانے سے پہلے قُرآن نے اُس عدالتِ انصاف کا بھی تعارف
کرایا ھے جس کا نام محشر ھے اور قُرآن نے یہ بھی بتایا ھے کہ محشر کی اُس
عدالت میں انسان کا عملِ خیر ہی اُس کے لیۓ دلیل اور وکیل ہو گا اور عملِ
خیر کے سوا ہر ایک چیز خاموش اور فراموش ہو کر رہ جاۓ گی ، محشر میں مُختلف
انسانی جماعتوں کو جن سوالات کا سامنا کرنا ہو گا قُرآن کی اِن اٰیات میں
اُن انسانی جماعتوں میں سے اُس ایک انسانی جماعت کے ایک مقدمے کی رُوداد
بطور مثال پیش کی گئ ھے جس مقدمے کے مُلزم چند وہ غائب پیر اور بزرگ ہوں گے
جن کی غیر موجودگی میں دُنیا میں بہت سے لوگ اُن کو اپنا مُشکل کشا اور
حاجت روا بنا کر اُن کی پُوجا پاٹ کرتے رھے ہوں گے اور چند وہ پُجاری ہوں
گے جن پر اِن زاھدوں ، صوفیوں بزرگوں ، اماموں اور پیروں کی پُوجا کا الزام
ہو گا ، اِس مقدمے کی رُوداد میں یہ بتایا گیا ھے کہ اِن پیر اور پُجاری
ملزموں کے لیۓ دو اَلگ اَلگ مقامات پر دو اَلگ اَلگ لگے ہوۓ نادیدہ کٹہرے
ہوں گے جن میں اُن کو ایک دُوسرے سے دُور دُور کھڑا کیا جاۓ گا جہاں سے وہ
ایک دُوسرے کو شاید دیکھ نہیں سکیں گے لیکن ایک دُوسرے کی آواز کو سُن سکیں
گے اور پھر اُن مُشرک لوگوں سے پُوچھا جاۓ گا کہ بولو ! کہاں ہیں آج
تُمہارے وہ مُشکل کشا جن کی تُم آج کے اِس دن اور اِس موقعے کے لیۓ سفارش
کی اُمید رکھتے تھے ، قُرآن نے اِس مقام پر جُرمِ شرک کے اُن مُجرموں کا
جواب نقل نہیں کیا جو غالبا یہ سوال سُن کر سکتے میں چلے جائیں گے لیکن
قُرآن نے اُن مُشرکوں کے شریکِ مقدمہ پیروں اور پروہتوں کا یہ جواب نقل کیا
ھے کہ ھم تو یہ جانتے بھی نہیں ہیں یہ لوگ ھمارے پُجاری بن کر ھماری پُوجا
اور پرستش کیا کرتے تھے اور ھماری اِس بات کی صداقت پر اللہ کی اپنی شہادت
ہی ھمارے لیۓ کافی ھے کیونکہ اللہ تو اِس بات کو جانتا ھے کہ ھم نے اِن
لوگوں سے کبھی بھی اپنی پُوجا نہیں کرائ اور انہوں نے ھماری موجُودگی میں
کبھی بھی ھماری پُوجا نہیں کی اور ظاہر ھے کہ اِس جواب کے بعد اللہ کے وہ
نیک بندے بری ہو جائیں گے اور اُن کے وہ پُجاری گرفت میں آجائیں گے ، قُرآن
کی اِن اٰیات میں ھمارے زندہ معاشرے کے زندہ انسانوں کے لیۓ جو اَسباق لازم
ہیں اُن میں سب سے اھم سبق یہ ھے کہ مُسلم معاشرے کے ہر ایک داعیِ دین ، ہر
ایک مبلغِ دین اور ہر ایک خانقاہی بزرگ پر لازم ھے کہ وہ محشر میں مُجرموں
کے اِس کٹہرے سے بچنے کے لیۓ اپنی زندگی میں اپنے ادارے میں اِس تحریر کا
سائن بورڈ لکھواکر لگادے کہ میں اللہ کے بندوں میں ایک عاجز بندہ ہوں ، اگر
آپ لوگوں میں سے کسی کو میری ذات میں کوئ خُوبی نظر آئ ھے تو وہ میرا کمال
نہیں بلکہ میرے رب کی عطا ھے جس کو قائم رکھنے کے لیۓ میرے حق میں دُعا کی
جاۓ اور اگر میری ذات میں کوئ خرابی نظر آئ ھے تو وہ میری بشری خطا ھے اور
اُس خطا سے مُجھے آگاہ کیا جاۓ تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں اور میری اِس
خطا کے محو و فراموش ہونے کے لیۓ اللہ سے میرے حق میں دُعا کی جاۓ ، اگر
مُسلم معاشرے کے مذہبی رہنما شیطانی تعریف و توصیف کے اِس ابلیسی تخت کو
توڑنے کی کوشش کریں گے تو یقینا دُنیا و عُقبٰی دونوں میں اُن کا بَھلا ہو
گا اور اِس کا طریقہ یہ ھے کہ وہ ہر اُس شخص سے خود کو فاصلے پر رکھیں جو
اُن کو اپنے ایک محترم استاذ یا اپنے ایک محترم ناصح و مُربی سے زیادہ کوئ
درجہ دیتا ھے !!
|
|