زندگی میں کبھی اگر آپ کی ملاقا ت کسی ہم مزاج سے ہو جائے
تو زندگی خوبصورت روپ اختیار کر لیتی ہے وقت بوجھل ویران نہیں بلکہ دلکش
سحر انگیز پر لگا کر اڑنا شروع کر دیتا ہے میری حالت بھی وکیل صاحب سے مل
کر ایسی ہی تھی وہ پیشے کے لحاظ سے تو وکیل بھائی تھے لیکن باتیں روحانیت
تصوف فقیری درویشی اولیا کرام کی کر رہے تھے وہ روحانیت تصوف پر سیر حاصل
گفتگو کا میابی سے کر رہے تھے بلکہ روحانیت تصوف کے پر اسرار بھیدوں پر بھی
روشنی ڈال کر مجھے حیران کر نے میں کامیاب ہو چکے تھے کیونکہ گفتگو میری
فطرت مزاج شوق فقر درویشی پر ہو رہی تھی اِس لیے میں ہمہ تن گوش خود کم بول
رہا تھا اُن کو جان بوجھ کر زیادہ بولنے کا موقع دے رہا تھا وکیل صاحب کو
اِن کے کسی دوست نے میری روحانیت تصوف پر لکھی ہوئی کتابیں گفٹ کیں تو یہ
مجھ نا چیز سیاہ کار کو نیک انسان سمجھ کر مُجھ سے ملنے ملتان سے لاہور چلے
آئے ۔فون پر بات ہوئی تو کہا میں کسی دنیاوی مسئلے کے لیے آپ کے پاس نہیں
آرہا خدا کا دیا سب کچھ ہے جس سے زندگی کامیابی سے چل رہی ہے آپ سے ملاقات
کا مقصد آپ کی کتابیں اور راہ فقر عشق الٰہی ہے چند اپنے دل کی باتیں
سناناچاہتا ہوں کچھ آپ کی سننا چاہتا ہوں اِس لیے مجھے کوئی ایسا وقت عنایت
فرمائیں کہ کوئی دوسرا مخل نہ ہو اور ہم کھل کر باتیں کرسکیں کیونکی موضوع
میری مرضی کا تھا اِس لیے میں بھی فوری راضی ہو گیا پھر مقررہ دن وکیل صاحب
میرے سامنے بیٹھے تھے تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد ہی میں جان چکا تھا کہ
وکیل صاحب باتوں کے صوفی درویش نہیں ہیں بلکہ واقعی عملی طور پر راہ فقر
عشق الٰہی روحانیت کو اوڑھ چکے ہیں آپ کو اکثر ایسے لوگ ملتے ہیں جو
روحانیت تصوف پر بہت مدلل جاندار بلکہ لچھے دار گفتگو کرتے ہیں لیکن جب آپ
کا اُن سے واسطہ پڑتا ہے تو بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ روحانیت درویشی کو
بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں اِس طرح فقیری درویشی کا پرچار کر کے یہ
لوگ مدمقابل کو متاثر کرتے ہیں کہ ہم تو بے نیاز اﷲ والے ہیں ہمیں دنیاداری
سے کیا کام ہم نے کو صرف اور صرف خدا سے لو لگا رکھی ہے ہمیں روپے پیسے
دولت اقتدار شہرت سے کوئی غرض نہیں ہم تو فقیر لوگ ہیں اپنی زندگی خدا اور
اُس کے عشق کے لیے وقف کر دی ہے پھر متلاشیان حق روحانیت کے شوقین حضرات جب
ایسے مداری لوگوں کی لچھے دار باتوں الفاظ کی جادوگری میں الجھتے ہیں اپنا
وقت پیسہ وسائل اِن پر خرش کر کے کنگال ہو جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ
صرف باتوں کے مداری ہیں اِن کے پاس عشق الٰہی راہ فقر کی نعمت تو دور کی
بات خوشبو تک نہیں ہے فطری طور پر انسان دو طبقوں میں منقسم ہے ایک روحانیت
تصوف کا شیداتو دوسرا منکرین روحانیت اب جولوگ منکرین روحانیت ہیں وہ تو
ایسے مداریوں کے قریب ہی نہیں پھٹکتے تو اِن کی لچھے دار باتوں میں پھنسے
گے کیسے لیکن جو روحانیت الٰہی رنگ کا فطری رجحان رکھتے ہیں وہ اپنی جبلت
سے مجبور ہو کر اِن کے اطراف طواف کر تے نظر آتے ہیں اِن کی لفظوں کی
جادوگری میں پھنس کر وقت برباد کر تے ہیں یہ دنیا کا دستور ہے کہ جس چیز کی
طلب زیادہ ہوتی ہے جس کی خریدار زیادہ ہو تے ہیں اُس کے خریدنے والے بھی
بازار میں دوکان سجا کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام
کا نور پھیلانے میں اولیاء اﷲ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ہندوستان جو
ہزاروں سالوں سے بت پرستی کا گڑھ رہا ہے نسل در نسل یہاں پر کالی ماتا اور
بتوں کے پجاری ہی رہے ہیں لیکن جب اشارہ خداوندی پر اِس ظلمت کدے بت پرستی
کے گڑھ میں اولیاء اﷲ آئے توانہوں نے اپنے شاندار خدمت خلق کے کردار اور
تعلیمات سے چھوت چھات پر مبنی ہندو معاشرے کو ریزہ ریزہ کر دیا انہی نفوس
قدسیہ کی تعلیمات اور شب و روز کو ششوں کا ثمر آج ہم دنیا کے اِس خطے پر
پاکستان بنگلہ دیش افغانستان اور ہندوستان میں پچاس کروڑ سے زیادہ مسلمان
دیکھتے ہیں یہ اولیاء کرام کی کوششوں کا نتیجہ ہے برصغیر پاک و ہند کے زندہ
جاوید بزرگوں کے تذکرے واقعات کرامات ہمارے ماضی کا روشن حصہ میں جن کی وجہ
سے آج متلاشیان حق اولیاء کرام کا احترام کرتے ہیں جہاں بھی جھوٹا فراڈی
بھیس بدن خود کو صوفی فقیر درویش کہتا ہے یہ بیچارے اُس کے سامنے سر تسلیم
خم کر دیتے ہیں یہ دیکھے بنا کہ یہ حقیقی درویش ہے کہ لفظ بھیس بد ل کر
لوگوں کے احترام اور طلب پر ڈاکا مارنے چلا ہے جب میں نا چیز حقیر گناہ گار
اِس کو چہ تصوف میں آیا ہوں والدین کی دعاؤں اور خدا کے فضل خاص سے حق
تعالی نے تھوڑا بہت خدمت خلق کا بھی کام لیا ہے ساتھ ہی روحانیت تصوف پر
چند کتابیں بھی لکھنے کی تو فیق دی ہے تو کتابیں پڑھنے والے مُجھ گناہ گار
کو بھی کوئی اﷲ کا بیک بندہ سمجھ کر میرے پاس آجاتے ہیں اِسی سلسلے میں یہ
وکیل صاحب لاہور شہر سے کئی سو کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کر کے لاہور مُجھ
سے ملنے آئے تھے کہ شاید میں بھی کوئی حقیقی صوفی یا درویش ہوں جب یہ میرے
پاس آئے تو گفتگو کے آغاز میں ہی میں جان گیا کہ یہ واقعی حقیقی طور پر راہ
فقر عشق الہٰی کے مسافر ہیں اور کسی دنیا وی کام کے لیے نہیں بلکہ روحانیت
تصوف اولیاء اﷲ پر بات کر نے آئے ہیں ہم دیر تک پاک و ہند کے اولیاء اﷲ پر
بات چیت کر تے رہے جب سے انہوں نے کو چہ روحانیت میں قدم رکھا ہے اُس وقت
سے یہ بہت سارے نیک بندوں سے بھی ملے اب یہ اُن نیک لوگوں کے حالات زندگی
ان کے بارے میں تاثرات مُجھ سے شئیر کر رہے تھے ساتھ ہی کسی درویش نے کونسا
وظیفہ چلہ اِن سے کروایا وہ بھی بتا رہے تھے کہ کس طرح میں نے اﷲ تعالی کے
ناموں کو اور پہلے کلمے شریف کو مختلف ادوار میں کتنی تعداد میں پڑھا دوران
پڑھائی پیش آنے والے مشاہدات اور کیفیات اور محسوسات بھی بیان کر رہے تھے
جو میرے لیے بہت کشش کا باعث تھے میں پوری دل چسپی اور غور سے اُن کی گفتگو
سے روحانی سر شاری کے ساتھ لطف اندوز ہو رہا تھا اور اُن کو دیکھ کر خوش
اور رشک کر رہا تھا کہ موجودہ مادیت پرستی کے اِس دور میں جب مغرب کی نام
نہاد تر قی اور روشنیوں نے موجودہ دور کے انسان کی بصارت کی دھندلا کر رکھ
دیا ہے آجکل جب ہر انسان کا مقصد اعلی صرف اور صرف پیسہ کمانا اور اقتدار
پر قبضہ کر تا یا صاحب اقتدار لوگوں سے مراسم رکھنا تو اِس نفسا نفسی اور
بھاگ دوڑ کے عالم میں ایک پڑھا لکھا وکیل جو لفظوں کا مداری ہو جو الفاظ کے
چناؤ اور کالونی مو شگافیوں سے اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کرنے کا آرٹ جانتا
ہو جو قانونی نکات کو اپنے حق میں استعمال کر نے کا آرٹ بخوبی چالاکی سے
جانتا ہو جو عقل کل کے پہاڑ پر بیٹھا ہو وہ کس طرح دنیا داری مادیت پرستی
سے دور ہو گیا ہو یہی تجسس کھوج مجھے اکسا رہی تھی کہ پچاس سال سے زائد عمر
کا یہ پڑھا لکھا شخص کس طرف کوچہ درویشی میں آگیا جب میرا مد مقابل بہت بول
چکا تو میرا اندرونی تجسس میرے ہونٹوں پر آہی گیا کہ جناب آپ کی گفتگو سے
میں اندازہ لگا چکا ہوں کہ آپ ایک پڑھے لکھے اور کامیاب ترین وکیل ہیں لیکن
اتنی ذہانت اور قانون کے اسرار وں کو جاننے کے باوجود آپ کو روحانیت اور
فقیری کی یہ بیماری کیوں لگی تو وکیل صاحب نے قہقہ لگایا اور بولے آپ نے
ٹھیک فرمایا ایک حادثہ میری زندگی میں ایسا رونما ہو کہ میں راہ فقر کا
مسافر بنا ۔
|